خاقان عباسی اپنے آپ کو وزیرا عظم سمجھیں!۔۔۔ از ۔۔ شمس جیلانی

امیر ِ جماعت اسلامی سراج الحق صاحب جب بھی کوئی بیان دیتے ہیں تو وہ اس بات کاخاص خیال رکھتے ہیں کہ ا س ذہنی تناؤ کے دور میں پڑھنے والوں کے لیے کچھ تفنّنِ طبع کا سامان بھی مہیا کردیں۔ اس میں شاید یہ تاثر بھی دینا مقصود ہو کہ وہ عالمِ ِخشک نہیں، بلکہ حسِ مزاح بھی رکھتے ہیں جوکہ ہمارے ہاں اس طبقہ میں نہیں پائی جاتی۔ا نکا حالیہ بیان ہمارے سامنے ہے کہ “خاقان عباسی صاحب خود کو وزیر اعظم سمجھیں“ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ انہیں کیسے پتہ چلا کہ وہ خود کو وزیرآعظم نہیں سمجھتے ہیں ۔ کیا انہوں نے ان کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے نہیں دیکھا کہ وہ اسوقت کتنے پر اعتماد تھے جو کہ ان کے خود کووزیر اعظم ہونے اورماننے کا بین ثبوت ہے۔ پھر وہ غیر ملکی دوروں پر گئے توجہاں جاتے سکریٹری وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ ان کے ساتھ ہو تے ہیں ،لیکن انہوں نے ان کی ٹیک قبول نہیں کی، ہمارے سابق وزیر اعظم کی طرح ان کے ہاتھ میں کسی بڑے لیڈر سے ملا قات کرتے وقت پرچیاں بھی نہیں دیکھی گئیں ۔ پھر ہر جگہ سفیر ان کو ریسیو کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ جہاں جاتے ہیں ان کے اعزاز میں ظہرانہ یا عشائیے بھی دئے جارہے ہیں ۔ میرے خیال یہ ثبوت کافی ہیں کہ وہ وزیر اعظم ہیں اور خود کو وزیر اعظم سمجھتے بھی ہیں ۔
اصل میں وہ پچھلے چند سالوں سے ایک ایسا وزیر اعظم دیکھتے آرہے تھے۔ جو تھے تو وزیر اعظم، مگر جمہوری وزیر اعظم سے قطعی مختلف ؟ جو اسمبلی تک میں بھی کبھی اتفاق سے آتے تھے جس کی با قاعدہ خبر اخباروں میں آتی تھی کہ آج وہ پارلیمان میں تشریف لائے؟ مگر وہاں  بھی تیوری پر بل پڑے ہوتے تھے۔ انہیں کبھی ہم نے تو ہنستے نہیں دیکھا ممکن ہے، اکیلے میں ہنستے ہوں، جیسے کہ کچھ لوگ اکیلے میں روتے ہیں، مگر جوا کیلے میں ہنستا ہے اس کے بارے میں لوگ قیاس آرائیاں ایسی کرتے ہیں کہ سننے والوں کو بھی ہنسی آجاتی ہے۔ مختصر یہ کہ موصوف نہ عوام کو منھ لگاتے تھے نہ خواص کو یہ ان کی وہ انفرادیت تھی جو دنیا بھر کے وزرائے اعظموں میں نا یاب ہے۔ جبکہ ُان کے برعکس یہ ہنستے بھی ہیں مسکراتے بھی ہیں، صحافیوں کو پریس کانفرنسوں میں منھ توڑ جواب بھی دیتے ہیں، مگر وہ بھی مسکراتے ہوئے۔ دیکھیں یہ عوام میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں یا نہیں کرتے؟۔ کیونکہ وہاں کے عوام کی پسند اس سے الٹ ہے جو سابق وزیر اعظم کی مقبولیت سے ظاہر ہوتا ہے؟ اور اس کا ثبوت حلقہ نمبر 120 کے ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ظاہرہو ہے؟ کہ اس میں ان کی تمام خوبیوں کے باوجو د جو بقیہ دنیا میں برا ئیاں سمجھی جاتی ہیں انہوں نے عظیم کامیابی حاصل کی؟ عوام نے بقول ان کی صاحبزادی صا حبہ کے یہ ثابت کردیا کہ “ دنیا کچھ بھی کہے ،عدالتیں کچھ بھی کہیں، عوام نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے وزیر اعظم نواز شریف ہیں “ اس سے یہ ثابت ہوا کہ پاکستان کے عوام برائیوں کو اچھا ئیاں  اوراچھا ئیوں کو برائیاں سمجھتے ہیں ،اور اسے پسند کرتے ہیں جوکہ ان کو جتنا زیادہ خوار کرے ۔ چونکہ یہ خوبیاں سراج الحق صاحب کو موجودہ وزیر اعظم میں نظر نہیں آرہی ہیں، شاید اسی لیئے وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ خود کو وزیر اعظم نہیں سمجھتے ہیں؟
جبکہ میرے خیال میں انہیں سمجھنا بھی نہیں چاہیے ،شاید اس کی وجہ وہ بیان ہو جو کہ مریم نواز صاحبہ نے دیا کہ “ دنیا کچھ بھی کہے مگر عوام وزیر اعظم نواز شریف کو ہی سمجھتے ہیں “۔ اور دنیا کا قائدہ ہے کہ جس کو عوام منتخب کریں اور وزیر اعظم سمجھیں وہی وزیر اعظم ہے۔ جبکہ سا بق وزیر اعظم کی یہ عادت چونکہ فطرت ثانیہ بن چکی ہے ، گئی بھی تو بہت دیر میں جا ئے گی؟ جب تک  کہ انہیں انکے بد خواہ  یہ یقین دلاتے رہیں گے ،اس وقت تک انکا یقین اور پختہ ہوتا رہے گا کہ وہ واقعی عوام کے مقبول ترین لیڈر اور ابھی تک وزیر اعظم ہیں۔ رہے موجودہ وزیر اعظم ان کے مستقبل کی ہمیں فکر ہے اور ہماری دعا ہے کہ وہ مقبول نہ ہی ہو ں تو ان کے لیے بہتر ہے ۔ جیسے کہ ضیاءالحق صاحب محمد خان جو نیجو مرحوم کو بطور وزیر اعظم بے ضرر سمجھ کر لا ئے تھے ا ن کا پرانا ریکارڈ دیکھ کر کہ جب وہ پہلی دفعہ ون یونٹ میں ریلوے کے وزیر بنے تھے پیر صاحب پگارا کے نمائدہ کے طور تو پیر صاحب نے اپنے ایک مرید کو چٹھی دیکر ان کے پاس ملازمت کے لیے بھیجا ، ا نہوں نے اس کو اپنا مہمان رکھا جھنڈا لگی کار میں پورا لاہور دکھا یا کہ اسوقت وہ ون یونٹ کا دار الحکومت تھا۔ اور یہ کہہ کر اور با حسرت و یاس گلے لگا کر رخصت کردیا کہ“ جو میں کر سکتا تھا اور میرے بس میں تھا وہ تو میں نے کردیا؟ لیکن سائیں سے عرض کردینا کہ  حکم نواب آف کالا باغ ملک امیر خان (گورنر) کا چلتا ہے، لہذا نوکری دینا میرے بس میں نہیں ہے“ وہ انکا کامیاب ترین دور تھا بہت اچھی طرح وقت گزارا یہ ہی وجہ ِشہرت تھی کہ ضیا الحق صاحب کی نظر ِ انتخاب ان پر پڑی اور ان کو وزیر اعظم بنا دیا؟ وہ بھی امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے معلوم نہیں ، وہاں کیا ہوا “ شاید شاید بچو دیکھی ہو اور کسی نے کچھ کان میں کہدیاہو اس سے متاثر ہوگئے؟ کہ وہیں وہ خود کو وزیر اعظم سمجھنے لگے ؟ پھر کیا ہوا؟ وہ آپ تاریخ میں پڑھ لیں ؟ کیونکہ اسوقت  بھی  اصل طاقت کا سر چشمہ ضیاءالحق صاحب تھے اور نظریہ ضرورت کے تحت محمد خانصاحب کو انہوں نے وزیر عظم بنا رکھا تھا۔ اسی تجربہ روشنی میں خاقان عباسی صاحب کو انکے دوست محتاط رہنے دیں ، تو اچھا ہے۔ نواز شریف صاحب  بہ یک وقت دونوں کے پیرو ہیں وہی طرز حکمرانی اپنا ئے ہو ئے ہیں مگرآجکل وہ گاندھی ازم کا تتجربہ کر رہے ہیں کہ گاندھی جی کانگریس  کےکبھی دو آنے کے ممبر نہیں بنے، مگر چاہیں کانگریس کی صدارت ہو یا وزارت عظمیٰ ، عطاء لوگوں کو وہی کرتے تھے۔ البتہ آخری زمانے میں ان کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑپرگئی تھی اور چیلے منھ زوری کر نے لگے تھے ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بقولِ شاعر “ اس طرح تو ہوتا اس طرح کے کاموں میں “

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.