لووہ بھی کہہ رہے ہیں۔۔۔ ا ز ۔۔۔شمس جیلانی

کہ “ آپ لوگ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں “ جبکہ ا نہوں نے اور ان سے پہلے آنے والوں نے بھی اپنے کیئے ہوئے وعدے کبھی پورے نہیں کیئے جوا یک قوم سے تو تقریباً سب نے نہیں کیے ، وہ قوم ہے  “کرد “کہ ہر عالمی اور غیر عالمی طاقت نے ان سے ہمیشہ یہ کہہ کر مدد تو لی کہ تم اس جنگ میں ہماری مدد کرو، ہم تمہیں جنگ کے ختم ہونے کے بعد آزادی دلائیں گے۔ انہوں نے مدد کی اور پھر جو بھی فاتح تھا وہ انہیں محکوم چھوڑ کر چلتا بنا ، ان کی بات تو خیر سمجھ میں آتی ہے کہ ان میں سے ایک ماں نے یہ تاریخی غلطی کی کہ ا یسے بیٹے کو جنم دیا جس نے تمام دنیا کو چنے چبادیئے اس کانام تھا “ صلاح الدین ایوبی“ مگرا فغان قوم جو چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے ہے، ا س نے سوائے بھارت کے کسی اور ملک پر کبھی فوج کشی نہیں کی۔ وہ جب بھی کرتے تھے تو صرف بھارت پر کہ اس پرکبھی وہ خود چڑھ دوڑتے تھے اس لیے کہ وہ سونے کی چڑیا کیوں کہلاتا تھا ۔ کبھی اپنے بھائی جو وہاں حکمراں تھے ان کی مدد کو چلے جاتے تھے ان کے بلانے پر۔ پھر ان  کو اپنے فوجی اخراجات بھی تو پورے کرنا ہوتے تھے تو وہ  دہلی کو لوٹ کرپورا کرلیتے تھے۔ اس پر ان کے ایسے ہی ایک  بھائی محمد شاہ کو کہنا پڑا تھا کہ “ شامتِ اعمال ماں بصورتِ نادر گرفت “ یعنی یہ میرے اعمالوں کی وجہ تھی کہ نادرشاہ کی صورت میں عزاب نے آپکڑا ۔ مگر اس احساس کے باجود اور یہ جاننے کے باجود، اپنی ہٹ کے مسلمان اتنے پکے تھے کہ اپنا راستہ کبھی نہیں بدلا اور عذاب نے اپنی مددت پوری کی ۔ یہ ہی حال چچنیا کے ساتھ ہے۔ کہ اسٹالین نےاس پوری قوم کوان کے ملک سے نکال کر سائیبریا  بھیج دیا تھا۔
پھر روس نے اپنے سب ممالک ِ محروسہ کو آزادی  دی مگر ان کو نہیں دی، وہاں ایسی ہی آزادی ہے ۔ جیسے پاکستان میں افغانستان وغیرہ میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں ہمیں سچ کی بنا پرجو کامیابی ہوئی تھی اسے دوسری قوموں نے ہمیں دیکھ کر اپنالیا لہذا ہم نے اسےچھوڑدیا جیسے کہ پرانے کپڑے بڑے لوگ اتار  کرپھینکد یتےہیں۔ مگر ان کے یہاں بھی جرمنی میں پچھلی صدی میں ایک ایسا جھوٹاپیدا ہوا کہ اس نے یہ فلسفہ ایجااد کیا کہ“ اتنا جھوٹ بولوکہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں اور اس نےا س پر عمل کرکے بھی دکھایا! مگر ا سکا اپنا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ بعد میں نہ جانے کیوں اسے اس کے ہم نسلوں نے اپنا لیا اور ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی بطور فیشن کے اپنا لیا ۔
جبکہ ہادیِ اسلام (ص) کا فرما ن ہے کہ“ مسلمان میں تمام دنیا بھر کی خرابیاں ہوسکتی ہیں مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا ً“۔ ایک صاحب حضور(ص) کے پاس تشریف  لائےا ور انہوں نے حضور (ص) سے سب کچھ بیان فرمادیا جو وہ برائیاں کرتے تھے! اور صحابہ کرام (رض) ان  کےاس گستاخانہ رویہ پر پیچ وتاب کھاتے رہے۔ لیکن حضور (ص) کی عادت ِ کریمہ تھی کہ وہ کسی کی بات میں بھی درمیان میں بغیر پوری بات سنے لقمہ نہیں دیتے تھے۔ جبکہ ان کے برعکس آج کل ٹاک شو میں دیکھ لیجئے کہ ان کے ماننے والے جنکو ان کے اتباع کا حکم ہے کسی کو بات ہی نہیں کرنے دیتے ہیں؟ خیریہ بات تو ایسے ہی درمیان میں آگئی تھی کہ یہ آئے دن کا مشاہدہ ہے۔ جب وہ صاحب اپنی بات پوری کرچکے اور آخیرمیں حضور(ص) سے اس سلسلہ میں رہنمائی چاہی کہ آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں ان میں سے پہلے کونسی برا ئی چھوڑوں ؟تو حضور (ص) نے فرمایا صرف جھوٹ چھوڑدو! دوسرے دن وہ جب حاضرِ ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اب میں کیاکروں؟ جھوٹ چھوڑ نے کاتو میں وعدہ کر چکا ہوں جھوٹ بولونگا تو اللہ انہیں بتادے گا؟ ورنہ جھوٹ بولدیتا ۔وہ واپس چلے گئے کہ پہلے کوئی برائی نہ کروں تو کل پھر آؤں نگا ، دوسرے دن وہ جب تشریف لائے تو بدلے ہوئےا نسان اور پکے مسلمان تھے۔ لیکن بعد میں ہمارے دور کے مسلمانوں نے ا س واقعہ سے کوئی سبق نہیں لیا۔ بلکہ ایک لیڈر نے تو جن کا چند مہینے پہلے تک طوطی  بول رہا تھا، اب چونکہ عدالت نے ا ن کی طوطو بند کردی ہے۔  لہذاب ان کے ا رشادات عالیہ سنا ئی نہیں دیتے ورنہ انہیں نے ایک نیا نعرہ دیا تھا۔ کہ ہم بھی تمہارے جیسے آدمی ہیں جو تم کروگے وہ ہم کریں گے۔ جبکہ ہمیں قرآن میں حکم یہ ہے کہ “ دیکھو کسی قوم کی دشمنی تمہیں عدل سے نہ ہٹادے؟ شاید اسی امید پرٹرمپ صاحب نے پرانی راکھ کو کریدنے کی کوشش کہ اور شاکی ہوئے کہ آپ  لوگ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں ؟ جس کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44میں شدیدمذمت اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ا ور دوسری بہت سی آیتوں میں بھی مذمت کی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے بجا ئے ان پر عمل کرنے کے قرآن کو جزدان میں لپیٹ کر شیلف میں سب سے ا وپری خانہ میں رکھدیا ہے تاکہ بچوں کے ہاتھ نہ لگے؟ اس کانتیجہ یہ ہے کہ اب ہم میں کوئی نہ سچ بولتا ہے نہ ایک دوسرے پر مسلمان خود آپس میں ا عتماد کرتے ہیں اور نہ کوئی اور ان پر اعتبار کرتا ہے۔ جبکہ پہلے پوری دنیا ان پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کرتی تھی کہ ان میں کوئی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ اگر کوئی ایک دفعہ جھوٹاثابت ہوجاتا تو تا حیات اس کی گواہی نہ ماننے کاحکم تھا۔ تاوقتیکہ وہ تو بہ نہ کرلے ۔ اب سارے کہ سارے جھوٹ بولتے ہیں ۔ اور کہتے رہتے ہیں کہ سب جھوٹ ہے۔عوام جانتے ہیں کہ ہمارے لیڈر سب کےسب جھوٹ بولتے ہیں ۔ مگر وہ ووٹ دیتے ہوئے جھوٹے اور سچے کو نہیں پرکھتے، صرف اپنے مفادات ، ذات، برادری اور صوبے کا خیال رکھتے ہیں لہذا وہی الیکشن میں ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں ۔ اورآئندہ بھی ہونگے کیونکہ ہمارے لیڈر ہی نہیں اکثریت خود بھی جھوٹ بولتی ہے اور اب ان میں جھوٹ بولنا معیوب نہیں سمجھا جاتا ؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.