نواز شریف کی اپیل مسترد ۔۔۔ از۔۔ شمس جیلانی

نواز شریف صاحب کا خاندان ایک مرتبہ پھرا پنا مقدمہ عدالت میں ہار گیا؟ا ب انہیں مظلوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا جوکہ وہ بڑے عرصہ سے بننا چاہتے تھے آگے کیا ہوگا یہ اللہ  ہی جانتا ہے؟ چونکہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے یہ فیصلہ تومتوقع تھا کہ کل ہی سے صحافت کے نجومیوں نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ فیصلہ جمعہ کو ہو جائے گا؟ اور ہمارے یہاں یہ ایک عام عقیدہ ہے جو توہم پرستی کا نتیجہ ہے کہ حکمراں پر جمعہ بھاری ہوتا ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کے لئے تو جمعہ انتہائی مقدس دن ہے۔ غیر مسلموں اور منافقوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ بھاری ہو تا ہو ؟اب اگلا قدم کیا ہو گا وہ ہم بتا ئے دیتے ہیں ۔ جو ہمیں اس دورہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے چھوٹے صاحب برطانیہ گئے اور اب ترکی تشریف لے گئے ہیں۔ برطانیہ غالبا ً وہ اس لیئے گئے تھے کہ ان کے لیے کچھ گنجائش ہے کہ امریکہ کے صدر ان کی حمایت کرد یں؟ وہاں سے وہ نا امید ہوئے تو اب برادر ملک ترکی تشریف لے گئے بیں تا کہ وہ ان سے پوچھ کر آئیں کہ آپ نے کس ترکیب سے عوام کو متحرک کیااور اپنا اقتدار بچایا؟ وہ اس وقت وہاں کسی عطائی حکیم طرح گئے ہیں جو کہ ساری دنیا کو ایک ہی نسخہ بتاتا ہے ۔ جب کے ایسا نہیں ہے ہر مریض کی کیمسٹری ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔
ترکی کے حالات اور تھے پاکستان کے حالات ا ور ہیں۔ وہاں ایک فوجی ڈکٹیٹر نے خلافت ِ عثمانیہ کا تختہ ا لٹ کر مسجدوں تک سے اسلام کو نکالدیا تھا۔ قوم نے فوجی انتداب سے نکلنے کے لیے ایک صدی تک جدو جہد کی اوردو بارہ عوام اسلام لانے کی کوششوں میں کامیاب ہو گئے ۔ مگر فوج نے پھر اس حکومت کا تختہ ا لٹ دیا اور اس مرتبہ وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا تاکہ کوئی اور دوبارہ جراءت نہ کرسکے؟ ۔ ان کی اسلامی پارٹی جدوجہد کر تی رہی اور اس نے پھر ووٹوں کے ذریعہ فتح پالی، اب دوبارہ فوج کی طرف سے نظام الٹنے کی کوشش تھی، جو عوام نے ناکام بنا دی ۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ الٹ ہے کہ یہاں فوج نے بھارت کے اس خواب کو کبھی پورا نہیں ہو نے دیا کہ پاکستان اس کی ایک طفیلی ریاست بن جائے جو کہ شروع سے ا س کا منصوبہ تھا؟ پاکستان میں شروع کے چند سیاستدانوں کو چھوڑ کر بعد کے سارے سیاستدانوں کی تاریخ قطعی مختلف ہے وہ ہے وعدوں سے فرار اور کماؤ کھاؤ، کھلاؤ کی پالیسی؟
جبکہ یہ ریاست بنی ہی اسلام کے نام پر تھی مگر سیاستدانوں نے بننے کے کچھ عرصہ کے بعد سے خود کو مسلمان کہلانے سے بھی شرما نا شروع کردیا اور جبکہ فوج اس کا الٹ کرتی رہی اور جانیں دیتی رہی، سیاستدانوں نے ہمیشہ اس کی کردار کشی کی کوششیں جاری رکھیں۔ لہذا وہاں والا نسخہ یہاں کامیاب نہیں ہو سکتا اس لیئے کہ یہاں کے حالات قطعی مختلف ہیں ۔  اوراس لیے بھی کہ لوگوں کے دلوں میں عملی مسلمان نہ ہو نے کے باوجود اسلام کی لگن باقی ہے اور وہ یہ مانتے ہیں کہ ہماری ساری پستی ہمارے پکاّ مسلمان نہ ہو نے کی وجہ سے ہے۔اور جہاں اسلام کا کسی بھی نظر یہ سے مقابلہ ہوا تاریخ گواہ ہے کہ وہاں صدیوں تک کوشش کرنے کے باوجود اسلام دلوں سے نہیں نکلا ۔گذشتہ تاریخ کو جا نے دیجئے ۔موجودہ دور کو دیکھ لیجئے کہ بوسنیا سامنے ہے۔ اور بہت سے ملک سامنے ہیں ۔ مگرا ن کے دلوں سے اسلام نہیں گیا ۔
میں نے ایک سابق کمیونسٹ ملک کے بارے میں جوکہ آجکل آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہے ، وہاں کی ایک خاتون سے پو چھا جو میرے ہمراہ ایک دفتر میں کام کرتی تھیں کہ ، سچ سچ بتا ئیے !کہ آپ کے یہاں سب سے بڑا مذہب کونسا ہے؟ توا نہوں نے بتایا کہ اسلام ۔ میں نے تعجب سے پو چھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہاں کی آبادی کا بہت بڑا حصہ دنیا کے نزدیک بدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل ہو اوروہاں کاسب سے بڑا مذہب اسلام ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مسلمانوں نے اپنی روش کبھی پوری طرح نہیں چھوڑی، وہاں جیسے ہی کمیونزم کا زور ٹوٹا وہ دوبارہ پوری طرح ا سلام پر عمل پیرا ہوگئے جبکہ دوسرے  مذاہب کے لوگ دونسلیں گزرنے کے بعد لامذہب ہو گئے ہیں۔ اس لیئے اسوقت وہاں پرملک میں سب سے بڑا مذہب اسلام ہے۔
نواز شریف صاحب کے خاندان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اقتدر میں آنے کا موقعہ دیا، وہ آئے بھی ضیاءالحق کے جانشین بن کے تھے اور نعرہ تھا کہ “میں ان کا مشن پو را کرونگا“ ۔جبکہ ضیاءالحق کہتے تھے میں پاکستان میں اسلام نافذ کرونگا“ مگر اس کے معنی عوام نے وہی لیئے جوتھے اور نواز شریف صاحب نے وہی سمجھے جو ضیاءالحق صاحب نے سمجھا ئے تھے ۔ ان کو تو ا للہ نے بعد میں خود سمجھ لیا اور ان کا انجام جو کچھ ہوا وہ تاریخ میں موجود ہے۔جو بھی اللہ تعالیٰ سے ہر پھیر کرے گا اس کو بھی اپنا انجام ان کے ساتھ پڑھ لینا چاہئے۔ ہاں! کوئی توبہ کرکے اپنی نیت بد ل لے تو اس کے لیے دروازے کھلے ہوئے بیں؟اور جب وہ نارض ہو جا ئے تو کوئی حیلہ کام نہیں آتا کوئی کوشش کام نہیں آتی۔ صدام کا حشر سامنے ہے، قذافی کا حشر سامنے ہے یہ میں نے چند تازہ مثالیں، یاد تازہ کرنے کے لیے دیں ہیں۔ پاکستان کی اللہ نے ہمیشہ حفاظت کی ہے دشمن کے ہاتھوں سے بچا تا رہا ہے اور اس مرتبہ پر وہی عدلیہ ہے جس نے نظریہ ضرور ایجاد کیا تھا ؟ وہ اس سے کام لے رہا ہے جواب قطعی بدلی ہو ئی ہے ۔ جبکہ سپہ سالار صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہم قانون کا ساتھ دیں گے؟ لہذا ایسے کسی آدمی کا کامیاب ہونا جوکہ پاکستان کو بھارت کی ایک طفیلی ریاست بنا نا چاہتا ہو ناممکن ہے کیونکہ عوام کبھی ساتھ نہیں دیں گے۔ اس لیے کہ اسلام نے مظلوم کا ساتھ دینے کا انہیں حکم دیا ہے؟ ظالم کا نہیں اور عوام کی نگاہوں میں ماڈل ٹاؤن والاواقعہ ابھی تازہ ہے۔  حلقہ نمبر 102 لاہور  وہ کسی طرح جیت بھی جائیں تو بھی جنرل ا لیکشن میں نہیں جیت سکیں گے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.