جناب نواز شریف کے اندر سے ا س تربیت کی بو آرہی ہے جوکہ انہیں ضیا الحق مرحوم سے ملی ہے۔ انہوں نے بھی یہ ہی کیا تھاکہ کہنا کچھ تھا اور کرنا کچھ اور چاہتے تھے۔ لہذ اسی کشمکش میں رہے اور کچھ کر نہ سکے حتٰی ٰکہ ا للہ سبحانہ تعالیٰ نے انہیں اٹھا لیا ۔جبکہ آج نواز شریف صاحب تک ان کے احسنات کے انکاری ہیں۔ اسی وجہ سے جناب اعجازا الحق صاحب کو یہ کہنا پڑا کہ آمروں کے تیس سال میں سے وہ کم از کم 10سال وہ تو نکال دیتے جس میں“ وہ کچھ سے بہت کچھ ہوکر ابھرے“انہیں شایدعلم نہیں ہے کہ نواز شریف صاحب کو بھول جانے کی عادت ہے ،اگر وہ انہیں بھول گئے تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بقول انکے پہلے انہوں نے اپنے والدِ محترم کے کہنے پر زانوئے تلمیذ جناب طاہرا لقادری صاحب کے سامنے طے کیا جو اتنا بڑھا کہ ان کو اپنے کاندھے پر بٹھا کر“غار ِ حرا“ تک لے گئے۔ پھر انہیں چھوڑ کر انہوں نے ضیاءالحق صاحب کی شاگردی اختیار کرلی وہاں سے ان کا راستہ سعودی حکمرانوں تک پہونچنے کے لیے استوار ہوا۔اصل میں وہ ان میں سے ہیں کہ اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں جوکہ دوسرے ملکوں میں معیوب ہو تو ہو ،پاکستان میں معیوب نہیں ہے۔ وہ ا س سلسلہ میں کہاں تک جاسکتے ہیں مجھے معلوم نہیں کیونکہ مجھے کبھی ان سے قرب حاصل نہیں رہا ،اس لیے کہ وہ عمر میں میرے بیٹوں کے برابر ہیں۔مگر انکی ا فتادِ طبع کی بنا پر یہ معلوم ہے کہ اگر ان پر دباؤ زیادہ پڑا تو وہ کسی طرف اور کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں ۔اس کے لیے وہ خود نہیں،انکی ا فتادِ طبع ذمہ دار ہے۔وہ بیچارے تو معصوم ہیں کہ وقت نے جس طرف ہانک دیا چلے جائیں گے؟لہذا وہ کبھی “مودی“ کی طرف دیکھتے ہیں ،کبھی سعودیوں کی طرف دیکھتے ہیں کبھی امریکہ اور برطانیہ کی طرف۔ یعنی صورت ِ حال یہ ہے کہ کسی شاعر نے جیسے ہے کہا کہ “ کعبہ میرے آ گے ہے کلیسا میرے پیچھے “ اس پالیسی میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ “لڈو دونوں ہاتھوں میں رہتے ہیں “ یہ اور بات ہے کہ ایسے آدمی کاکوئی بھی اعتبار نہیں کرتا اور وہ نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کااور اب مسیحا پریشان ہیں جو کہ پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں کہ وہ ملک کو کیسے بچائیں کیونکہ وہ عوام کی طرف دیکھتے ہیں جہاں کبھی امید کی کرن نظر آتی تھی، تو اب وہ بھی مفاد پرستی ، مفاد پرستوں اور عصبیت کے طابع ہوچکے ہیں؟ جس پر بڑے نہ سہی چھوٹے ہی سہی وہ اجتماعات گواہ ہیں جو حالیہ جلسوں میں نواز شریف نے جمع کیے؟
اور انہوں پچھلے دنوں جب وہ غیر مرئی قوتوں کے خلاف احتجاج کر نے نکلے تو صرف ایک جملہ سیکڑوں صفحے کے فیصلے میں سے انتخا ب کیا کہ “ بھائیو! کیا باپ کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی جرم میں نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ جواب ان کے حق میں آنا ہی تھا؟کہ لوگ کہتے کیاکہ ا نہوں نے بھی باقی صفحہ پڑھے ہی نہیں تھے؟ جس میں اور بھی بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیے کبھی ضیاالحق مرحوم نے فرمایا تھا کہ تمہیں نظام ِ مصطفیٰ چاہیئے ہے تو وہ میں دونگا۔ مجھے ووٹ دو؟وہ کیا دے کر گئے وہ تاریخ میں دیکھ لیں اور یہ ہی انہوں نے کیا کہ کیا وعدے کیے اور ان میں سے کتنے پورے کیئے اور کتنے وقت میں پورے کیے وہ بھی وہیں مل جائیں گے۔ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ ایک جھوٹ سو سچ کوکھا جاتا ہے؟ وہ برزرگوں کی باتیں تھیں اب تو جیت ہمیشہ جھوٹ کی ہوتی ہے۔ صرف ایک بار یہ بات غلط ثابت ہوئی جب کہ اس پالیسی کے موجد “گوبل“ جس نے پہلی دفعہ یہ اصول دنیامیں روشناس کرایا تھا کہ “ ایک بات کواتنی مرتبہ دہراؤ کہ لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگیں “ا سی بنا پر اس نے ا پنے “آقا ہٹلر“ کو یقین دلایا کہ یہ بہت ہی کامیاب پالیسی ہے میں ذمہ دار ہوں اور غلط ثابت ہوتو مجھے وزارت سے نکالدینا ۔ مگر آقا کی آنکھیں جب کھلیں ،تو انہوں نے دیکھا کہ وہ چاروں طرف سے گھر چکے ہیں غیرتمند آدمی تھے کہ گوبل کے اندوہناک انجام کا انتظار بھی نہیں کیا اور انہوں نے خودکشی کرکے نجات حاصل کرلی کیونکہ ان کے ہاں وہ شاید حرام نہیں تھی ۔ جبکہ ہمارے یہاں خودکشی اور جھوٹ دونوں ہی حرام ہیں ۔
آج نواز شریف صاحب کااہم نے ایک ا ور بیان دیکھا کہ سوشیل میڈیا یہ تاثردے رہی ہے کہ میرے ،آرمی سربراہوں سے تعلقات کشیدہ ہیں ،عوام محتاط رہیں کہ سب سے تو نہیں ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کچھ سے ہیں ضرور ؟ ظاہر ہے کہ ایک آدمی سب کو تو خوش نہیں رکھ سکتا۔ کہ شیطان ہر وقت بہکاتا رہتا ہے۔ رہا انسان وہ ہے ہی خطا کا پتلا ہے۔ پھر ہماری یاداشت میں وہ تمام بیانات در آئے جو رواجی نہ تھے اور فوج کے بہت ہی مقتدر ادارے نے جاری کیے تھے۔ جس کا تدارک نواز شریف صاحب کی حکومت نے کیا بھی، بعد میں کچھ ان میں سے متنازعہ بھی بنے کچھ وزیر وںکی بھی قربانی ا نہیں دینا پڑی جو آوا گون کے ہندوفلسفے کے مطابق ابھی دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں؟ دراصل فوج کسی آدمی کانام نہیں ہے وہ ایک بہت بڑا ادارہ ہے جس کی تعداد لاکھوں میں ہے، ان میں سے ہر ایک نے پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے، وہاں کوئی ایک آدمی کچھ نہیں کرسکتا۔ اسے ان لاکھوں آدمیوں کی آراءکا بھی ا حترام کرنا پڑتا ہے جو اس کی ماتحتی میں ہوتے ہیں وہ انہیں کسی حالت میں نظر انداز نہیں کرسکتا جبکہ ماتحت بھی ایسے ہوں کہ جن کی بہت اکثریت کے مفادات صرف پاکستان سے وابستہ ہو ں تو اس کے لیے ان حالات میں قیادت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اسے پردہ پوشی بھی کرنا پڑتی ہر بات وہ کھل کر نہیں کرسکتا کہ ملک کی حفاظت ذمہ داری بھی اس کے کاندھوپر ہوتی ہے۔ اس لیئے ہمیں سپہ سالار صاحب کا یہ بیان بہت اہم لگا جس میں انہوں نے براہ راست عوام کو پہلی دفعہ مخاطب کیا جبکہ قوم یوم ِ پاکستان منارہی تھی، جن میں دوباتیں عوام کے لیئے بہت اہم تھیں ایک تو یہ کہ“ تحریک ِ ردِ فساد پورے قوم کی جنگ ہے اور اسی میں سب کا مفاد ہے دوسری یہ کہ ہمارے نوجوان “ داعشً کی زد میں ہیں اورا ن کو بچانا من حیثیت القوم ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جس سے مخاطب ہیں اسے کچھ یاددلارہے ہیں اور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“ اللہ سبحانہ تعالیٰ قوم کو سدھرنے کی توفیق عطافرمائے( آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے