اس دفعہ پھر یوم ِ پاکستان منایا گیا! میں نے یہاں پھر کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ ہماری تاریخ یہ ہےکہ ، یہ دن ہم کبھی بہت زور شور سے مناتے ہیں اور کبھی ناغہ بھی کرلیتے ہیں۔ یہ سب کچھ موقع اور محل پر منحصر ہے کہ اس سال حکمرانوں کی ضروریات کیا ہیں ۔ اگرا ن کا اقتدار خطرے میں ہے تو ملک بھی خطرے میں ہے اس لیے منانا ضروری سمجھتے ہیں۔اگر دوستی کی پینگیں پڑوسی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں ۔ تو ملتوی بھی کر دیتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ ہماری زندگیوں میں ہمیشہ “نظریہ ضرورت “ کار فرما رہتا ہے لہذا ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ جب بہت ہی مشکل وقت آجا ئے, تو اللہ کو یاد کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور جب وہ مشکلات دور کردے تو ہم اسے اور اس سے کیے ہوئے وعدوں کوبھی بھول جاتے ہیں؟ ایسا وقت آج سے پچپن سال پہلے یعنی 6ستمبر 1965میں بھی آیا تھا۔ جو ہمیں یاد دلانے کے لیے تھاکہ ہم نے کچھ وعدے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے کیے تھے وہ ہم نے پورے نہیں کیے؟ وہ وعدے کیا تھے۔ وہ یہ تھے کہ “ اے اللہ ہم اپنی کرتوتوں کی وجہ سے دنیا پر اپنا اقتدر کھو بیٹھے ہم ذلیل اور خوار ہوچکے ہیں ,تو ہمیں زمین کا ایک تکڑا عطا کر دے۔ جس پر ہم تیرا نام پہلے کی طرح بلند کریں اور پھر سے پوری طرح تیرے بندے بن جائیں اور ہم اس پرپھر خلفائے راشدین جیسی ایک مثالی اسلامی اور فلاحی حکومت قائم کرلیں ۔ جب ہم پہلے جیسے دنیا کے لیے بن جا ئیں گے ۔تو ہمارے اعلیٰ کر داروں کو دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر دوسری قومیں بھی جوق در جوق ا سلام میں داخل ہو جائیں گی اور پھر سے یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جا ئے گی۔ چونکہ اس کاعلم ہر چیز کو محیط کیے ہوئیے ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہی کریں گے جو مجھے بھول کر کرتے آئے ہیں ۔ لیکن اسے ہماراا صل چہرہ دنیا کو دکھانا تھا ہمیں ایک ملک پھردیدیا؟ اس نے اس کی بنیاد بھی معجزانہ طور پر رمضان المبارک کی ستائیسویں شب میں رکھی اور مملکت قائم بھی اس طرح ہو ئی کہ جو لوگ اپنے مسلم لیگ کے ساتھ کیئے ہوئے معاہدے سے پھر چکے تھے اور طاقت کے نشے میں کل تک یہ کہہ رہے تھے کہ ہم تمہیں کچھ بھی نہیں دیں گے، ہماری آنے والی پارلیمنٹ یہ طے کرےگی کہ ہمارا دستور کیسا ہوگا؟ “آج وہی خود قائدین ِ مسلم لیگ پر زور دینے لگے اور کہنے لگے کہ“ یہ لو اپناپاکستان اور ہماری جان چھوڑو “
ملک مل گیا اب پھر ہماری وعدے پورے کرنے کی باری تھی۔ ہم اسے مملکتِ خداد کہتے تھے اور حقیقت میں تھا بھی ایسا ہی کہ یہ مملکت اسی کی مہربانی سے ہی بنی تھی۔ ہم اسے ایک دستور تک نہیں دے سکے کیونکہ خطرہ تھا کہ“ ہماری نیتیں ظاہر نہ ہوجائیں “۔ اس کی وجہ سے ہماری پارلیمنٹ سالوں تک دستور ساز اسمبلی کہلاتی رہی ۔ جبکہ اس ریاست کی شان یہ تھی کہ بھارت سے چھوٹی ہونے کے با وجود وہ بھارت کو سینڈوچ بنا ئے ہوئے تھی۔ جبکہ ہمارا اور اس کا آبادی کا تناسب بھی ایک اور تین تھا ۔ اور اس نے مزید مہربانی یہ فرمائی کہ پہلے جیسی اخوت بھی عوام کے دلوں میں ڈالدی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی رب نے اس طرح ہمیں نوازا تو ہم اپنے سے سو گنا بڑی اکثریت کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔ وہی دور جاری تھا کہ ایسے میں ہم پر پڑوسی ملک حملہ کر بیٹھا اور اس کے ایک جنرل نے ناشتہ واہگہ کی سرحد پر اورلنچ( دوپہر کا کھانا )لاہور تناول فر مانے کا اعلان فرما دیا؟ اس وقت پھر ہمیں خدا یاد آیا، پاکستان پر ایک جنرل کی حکومت تھی اس نے یہ کہہ کر پاکستانی قوم کو کلمے کا واسطہ دیکر پکارا کہ“ دشمن نے لا الہ پڑھنے والیٰ قوم کو للکارا ہے اس کوسبق سکھادو؟ اس کی ایک آواز پر قوم ایک پیج پر اپنے تمام اختلافات بھلا کر جمع ہوگئی۔ اور بھارتی جنرل کا وہ خواب ادھورا رہ گیا۔ کیونکہ دونوں بازؤں نے ایک جیسی حمیت اور حب الوطنی کا ثبوت دیا۔ اس وقت عوام کی یہ حالت تھی کہ جو چیز بھی حکومت نے خود یا ملکی دفاع کے نام پر کسی اور نے مانگی؟ ہر فرد اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کر کے فوراً فراہم کرنے پر آمادہ ملا؟ ہر طرف سے ایثار کے وہ مظاہرے ہوئے۔ جن سے اس وقت کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ ان کو قلم بند کرنے کے لیے ا یک دو نہیں ہزاروں جلدیں چاہیئے ، اس چھوٹے سے مضمون میں وہ سب واقعات نہیں سما سکتے۔
ہم ہمیشہ کی طرح پھر اپنے وعدؤں سے پھر گئے، اور اپنے وعدوں کے مطابق اوروں کو کیا متاثر کرتے، خود اپنوں ہی کوانصاف نہ دے سکے؟ جو کہ اسلام کی اساس ہے جس کا سبق ہمیں ہر جمعہ کو خطبے میں دیا جاتا ہے اور جو بلاتفریق ِ مذہب و ملت سب کے ساتھ یکساں کرنے کاہمیں قرآن کی ایک دوسری آیت میں تاکیدی حکم بھی ہے کہ؟ “ دیکھو!کسی قوم کی دشمنی تمہیں نا نصافی پر مائل نہ کر دے “
پھر کیا ہوا؟ جب سے ذلت اور رسوائی ہمارا دوبارہ مقدر بن چکی ہے اور ہم روز بروز اخلاقی پستی کی طرف جارہے ہیں ۔ ہمارے سپہ سالار نے اس دفعہ پھر قوم کو آواز دی ہے جس میں سچائی ہے درد ہے؟ اورہمارے وزرا ءبھی 1965کی اسپرٹ دوبارہ لانے کی بات کر رہے ہیں ۔ مگر اپنے گریبان میں نہیں جھانک رہے ہیں کہ ہم میں اس وقت جیسی آپس میں محبت اور اخوت بھی ہے ؟ یہ جبھی واپس آسکتی ہے کہ ہم خدا سے اور بندوں سے کیئے ہوئے وعدؤں کانہ صرف زبانی احترام کریں ،بلکہ عملی طورپران کو پورا بھی کریں ؟ کیونکہ دلوں میں دوبارہ ا لفت ڈالنا اللہ سبحانہ تعالیٰ کا کام ہے ،یہ اور کسی کے بس کی بات نہیں ہے؟ اور اس ملک کو مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، جس ملک کی 95 فیصدآبادی خود کو مسلمان کہلاتی ہے کہ اسے منایا کیسے جاتا ہے؟ اب بھی دلوں پر ہاتھ رکھ کر حکمراں سوچنے کی زحمت کریں ۔ اگر طریقہ حکمرانوں اور قوم کو یاد نہیں رہا ہے۔ تو علماء سے پوچھ لیں وہ اس مسئلہ پر انشا ءاللہ میرے ساتھ اس بات پر بھی متفق ملیں گے کہ“ اگر ہم نے ا پنے اس سے کیے ہوئے وعدے پورے کر کے پہلے اسے راضی نہ کیا اوراس کی نصرت ساتھ نہ لی تو پھر کوئی بھی ہماری نہ مدد کرسکے گااور نہ ہی بچاسکے گا؟ اللہ حکمرانوں کو عقل دے ایمان دے (آمین)