ہم نے سبق ہے سیکھا یہ اسوہ حسین(رض) سے ۔۔۔از۔۔شمس جیلانی

حق پر جان دیدو اور سوجاؤچین سے۔ سال کے بارہ مہینے ہمارے کالم اسوہ رسول( ص)پر ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ہی ایک راستہ ہے امت کو تفریق سے بچانے کا اور بطور امتی ہمیں یہ حکم ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں کوئی سنے یا نہ سنے تم حق گوئی سے روگردانی نہ کرواور ہر حالت میں سچ کہتے رہو؟ اس امید پر‘‘ شاید کہ کسی دل میں اتر جائے مری بات‘‘ اسی لیے ہم پورے سال اسوہ حسنہ (ص) پر بات کرتے ہیں کہ مومن اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا؟ مسلمان آج احساس کمتری میں اس حدتک مبتلا ہیں کہ ا نہیں کہیں کوئی امید کی کرن اور امت میں رمق تک نظر نہیں آتی ؟ ایسا ہی دور وہ بھی تھا جب امتِ مسلمہ مایوس ہوچکی تھی ا سے امید کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دے رہی تھی، مسلمان عافیت اسی میں سمجھ رہے تھے۔ کہ گھروں میں خاموشی سے بیٹھے ر ہیں؟ مگر جن کو حضور (ص) نے اس امت پر نگراں بنایا تھا ان کے دل میں اْمت کی سب زیادہ فکر تھی انہوں نے ہار نہیں مانی! امت کو مردہ دلی سے نکالنے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی ٹھان لی؟اور صرف اپنی ا کیلی جان نہیں بلکہ ان تمام افراد کی جانیں بھی، کہ ا ن کو بھی ساتھ لے لیاجو ان کے اپنے پیارے تھے۔ اس لیے کہ دشمن ان کا ہی، دشمن نہیں تھابلکہ تمام اہلِ بیت کا حضور(ص) کے وارث ہونے کی وجہ سے دشمن تھا۔ وہ ان ہی کی جان کی جان لینے پر اکتفا نہیں کرتا ، پھر بقیہ کی تلاش میں نکل کھڑا ہو تا۔ لوگ مشورہ دیتے رہے کہ آپ یہاں زیادہ محفوظ ہیں، مگر عین اسوقت جب پوری دنیا سمٹی ہوئی کعبہ کی طرف رواں اور دواں تھی وہ کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے؟ا س لیے کہ انہیں یقین تھا کہ دشمن سے کچھ بھی بعید نہیں ہے ،جو بعد میں تاریخ نے ثابت کردکھایا۔ وہ جانتے تھے کہ صرف ان کی اکیلے جان دینے سے کام نہیں بنے گا۔ انہیں حرم کی بے حرمتی کا خطرہ تھا، مدینہ منورہ کی بے حرمتی کا خطرہ تھا۔ جبکہ انہیں اپنے نانا(ص) کی بات کا یقین تھا کہ وہ واقعہ ہوکر رہے گا جو انہیں پہلے سے ہی بتادیاگیا تھا ،وہ جگہ بھی بتادی گئی جہاں انہیں شہید ہونا تھا۔ کیونکہ نانا (ص) کے فرمودات کووہ پتھر پر لکیر سے بھی کہیں زیادہ یقینی سمجھتے تھے۔ اس سفر کے شروع کر نے اور راہ میں ملنے اور روکنے والوں کے مشوروں کے باوجود وہ رکے نہیں ؟ حتیٰ کہ ایک یمن کا سردار بھی آکر انہیں راہ میں ملا؟ اور اس نے کہا آپ وہاں تشریف نہ لے جائیں حالات بد دل چکے ہیں ۔میرے ساتھ تشریف لے چلیں میرے قبیلہ کی دس ہزار تلواریں وہاں آپ کے ساتھ ہونگی۔مگر ان جیسا صاحبِ ایمان خدا کو چھوڑ کر بندوں پر کیسے یقین کر لیتا؟ دوسرے وہ بلاوجہ خوں ریزی نہیں چاہتے تھے وہ حکومت بھی نہیں چاہتے تھے جو ہمارے جیسے لوگوں نے سوچا اور لکھا ہے۔ وہ صرف مرضیِ رب چا ہتے تھے۔ کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ انجام وہی ہو نا ہے۔ جو پہلے سے انکے علم میں ہے اور وہ ہوکر رہا۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو یہ دنیا کو دکھانا تھا کہ اسلام جس طرح ‘‘انوکھا دین‘‘ ہے۔ بے ‘‘مثل رب‘‘ رکھتا ہے ویسا ہی نبی (ص)بھی رکھتا ہے اور نبی(ص) اب اپنی جس عترت کو امت پر نگراں بناکر چھوڑ گئے ہیں، اس کو یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ ‘‘بھی ویسی ہی ‘‘بے مثل اور عظیم ‘‘ہے۔ دنیا نے یہ دیکھا اور مانا کہ وہ بھی سارے کہ سارے ‘‘ بے مثل ‘‘تھے۔ ان میں ایک بھی ایمان کی کمزوری ظاہر کرتا تو یہ ‘‘ذبحیہِ عظیم ‘‘ برپا ہونا ناممکن تھا۔ یہ وہ تھے جوکہ حضرت براہیم ؑ(ع) کے مکی کنبہ کی طرح سب کہ سب بندہِ تسلیم و رضا تھے اوروہ پیش گوئی پوری ہوگئی جو حضرت اسمعٰیل (ع)کے بجائے ذبیحہِ عظیم سے بدلی گئی تھی۔ اللہ کے پیارے نبی (ص) جسے اپنی عترت قرار دے کر گئے تھے۔ اس نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ قربانی دینے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی، پہلے کچھ نبی (ص) صرف اپنی جانی قربانی تک محدود رہے تھے۔ مگر یہ واحد نبی(ص) ہیں جن کی عترت نے بایک وقت بہتر تک کی قربانی دی اور صرف ان میں سے ایک فرد بچا جو جان دینے کے لیے گھوڑے پر سوار ہوکر نکلا بھی! مگر اسے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ کیونکہ ا سے عترت باقی رکھنا اور اُن سے اتنی بڑھانا مقصود تھی کہ سورہ ‘‘ اناآعطیئنا ‘‘ کی تفسیر پوری ہوسکے۔ حضرت امام حسیں علیہ السلام نے ایک ساتھ بہتر قربانیاں دیدیں اور عملی طور پر یہ ثابت کردیا وہ نہ صرف خود جنت کے سردار بننے کے مستحق ہیں۔بلکہ ا ن کے نانا (ص) بھی اس اعزاز کے مستحق ہیں جو انہیں عطا ہواورا ن کی ماں (س) بھی خاتونِ جنت کہلانے کی مستحق ہیں اور والد (رض) بھی جس طرح انہوں نے زندگی گزاری اور خود کو حضور (ص) کا ہر طرح نائب ثابت کیااور وہ تمام والدین قابل فخر اور بے مثل ہیں جنہوں نے ایسے بچے پرورش کئیے جنکا کوئی ثانی کبھی تاریخ پیدا نہیں کر سکیگی۔ جو راہ خدا میں اپنی جانیں قربان کرنا کھیل سمجھتے ہوں ۔ وہ تا قیامت امت پر نگراں رہیں گے ان کا نام بلند رہے گا جو قرآن کی بہت سی آیات سے ثابت ہے، احادیث سے ثابت ہے۔ جبکہ قاتل دائمی عذاب کے مستحق ہونگے کیونکہ یہ بھی قرآن میں موجود ہے کہ کسی مسلمان کو بلا گنا ہ قتل کرنے والا جہنم کے دائمی عذاب کا مستحق ہوگا، جسے اللہ کبھی معاف نہیں کریگا؟جبکہ دوسری جگہ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ‘‘ بلا تفریق کسی انسان کوبھی بے گناہ قتل کرنا سارے جہان کو قتل کرنا ہے اور ایک جان بچانا ساری دنیا کو بچاناہے ‘‘ یہ سارا کرشمہ اہلِ بیت کی ا س تربیت کا تھا کہ انکا ایمان ‘‘عین القین‘‘ کی حد تک پہونچا ہوا تھا۔ جس نے ان کو اپنے ا للہ کی نگاہو ں میں بلند کیا اور نانا (ص)کا سر فخر سے بلند رکھا؟ اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قوم کو بیدار کردیا اور دین کو بچالیا ۔اللہ ہمیں بھی ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فر مائے؟ ( آمین)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.