ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں ۔ازشمس جیلانی

حضرت اکبر الہ آبادی مرحوم جن نے کے شعر کا یہ پہلامصرع ہے جوکہ وہ ا ور قسم کی کتابوں کے لیے کہہ گئے تھے ۔ مگر یہ آج دو صدی بعدبھی فٹ ہے اس لیے ہم نے اسکو عنوان کے طور پر منتخب کیا ہے۔
اس کو کہتے ہیں تھوک کر چاٹنا۔ مگر یہ لفظ ان کے لیے کچھ اچھا نہیں لگتا جوکہ بزعمِ خود، خودکو خادمِ جانے کیا کیا کہتے ہیں اور اس کی بناپر مقدس کہلا تے ہیں جبکہ ا صل میں وہ نہ جانے کس کس کے خادم ہیں انہیں کو پتہ ہے ۔ لیکن کسی کوخود کو مقد س کہلانے کے لیے جس عمل کی ضرورت ہوتی ہے اسے اسلام میں تقویٰ کہتے ہیں ۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ چاہیں باد شاہ ہوامیر ہو یا کسی ملک کا وزیرا عظم ، غرضیکہ ہو وہ جو بھی ۔اس کا ہر قدم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مرضی اور حضور(ص) کے ا سوہ حسنہ کے مطابق ہو،ا ن کے خلاف نہ ہو ؟ جو بھی ا س شرط کو پورا کر تا ہو اس کے پاس کوئی عہدہ ہو نہ ہو چونکہ قر آن کے مطابق وہ ا للہ کا ولی ہے ا للہ اس کاولی ہے۔ لہذا وہ ہر اعتبار سے مقدس سمجھے جانے ا ور کہلانے کا مستحق ہے ۔اگر صرف کلمہ گو ہے اور عمل نہیں ہے تووہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جو کہ قرآن سے بھی ثابت ہے بہت سی احادیث سے بھی ثابت ہے۔ اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول سے بھی ثابت ہے کہ عمل کے بغیرا یمان کوئی چیز نہیں ہے اور ایمان کے بغیر عمل کوئی چیز نہیں ہے۔ اب اس لمبی تمہید کے بعد ہم آتے ہیں ا س خبر کی طرف جو امریکہ کے محکمہ خارجہ طرف سے جاری ہو ئی اور کسی نے اس کی تردید نہیں کی ،وہ خبر یہ ہے کہ“ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے حال میں ہی انکشاف کیا ہے کہ ہم نے اور سعودی عرب نے ملکر ایک مرکز قائم کیا ہے جس میں سعودی عربیہ اورا ن کے زیر اثر پڑھائے جانے والے اداروں کے نصاب کو کھنگال رہے ہیں اور ان میں سے شدت پسندی کی چھان بین کر کے نصاب سے نکال رہے ہیں“اس سلسلہ میں ہم نے اپنے ایک کالم میں کچھ عرصہ پہلے توجہ دلائی تھی کہ اب شد ید ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک صدی سے جو شدت پسندی کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہے اس کے منبع کو تلاش کر کے پہونچا جا ئےاور وہ جہاں کہیں بھی پڑھا ئی جارہی ہے اس کو روکا جائے۔ جوا س لیے شامل نصاب کی گئی تھی کہ اس سے بدعت دور کرنے کہ نام پر ایک نئے فقہ کو جنم دیا جا ئے اور پوری دنیا کو اس نئے فقہ کا پیرو بنا کر خود تقدس مآب بن جا ئیں ۔چونکہ یہ کوششیں ایک صدی سے جاری تھیں اس کو پھیلانے والوں کے ساتھ ہر طر ح کی مالی معاونت بھی شامل تھی لہذا وہ تحریک بہت تیزی سے پھیلی اوریہ اس کا شاخسانہ ہے کہ اب دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں شدت پسند تحریکوں سے متاثر لو گ موجود ہیں ۔ چونکہ اس کے کارکن پڑھے لکھے بھی ہیں لہذا وہ زہریلا لٹریچر ان نامور مورخین کی کتابوں تک ہی محدود نہیں جنکی اس ملک کے کارخانو میں اب تک تلخیص ہو چکی ہے اور کسی نے ان سے پوچھا تک نہیں کہ دوسروں کی کتابوں میں ردو بدل کرنے کاا آپ کو حق کس نے دیا ہے؟ جن سے اب سوک میڈیا بھی روز ما لا مال ہورہی ہے۔ خدا شکر ہے کہ اسے نہ صرف امریکن قیادت نے ضروری سمجھا بلکہ دوسرے ملک بھی اس زہریلے لٹریچر کو اپنے اپنے یہاں تلاش کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ایک خبر چین سے بھی ملی ہے کہ ا نہوں نے بھی تمام اسلامی کتابیں مسجدوں اور لائبریریوں سے لے لی ہیں کہ ہم ا ن کوسینسر کر کے پھر واپس کر یں گے۔ حالانکہ یہ کام کرنے سے پہلے دنیا کو سوچنا چاہیے تھا کہ ہم جو یہ نفرت کا بیج بو رہے ہیں انکی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اس کا پھل کتنا کڑوا ہوگا۔ جبکہ قرآن میں تو اللہ سبحانہ تعالیٰ بار بار یہ فرما رہا ہے اور لوگوں کو متنبہ کر رہا ہے۔ کہ “ جو کچھ کوئی کرتا ہے اپنے لیے کرتا ہے اور س نے ا نسان کی مرضی پر چھوڑدیا ہے کہ“ وہ اپنے لیے برائی پسند کرتا ہے یابھلائی“ چلیئے اب بھی دنیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیاتو بھی کچھ برا نہیں ہے ۔ جبکہ نتیجہ بھگت یہ نسل رہی ہے جس کی غلطی نہیں ہے، غلطی ان کے بزرگوں کی ہے جنہوں نے یہ بیج بویا او ر اس کی آبیاری کی؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.