ایسے بنئے تو سہی کہ فریاد خدا تک پہونچے۔۔۔شمس جیلانی

ہمیں ہمیشہ شکایت رہتی ہے کہ اللہ ہماری دعائیں نہیں سنتا ،فریادیں نہیں سنتا۔ کبھی شکایت کرنے والوں نے یہ بھی سوچا کہ ہم اس کی بات مانتے ہیں جو کہ اس کی پہلی شرط ہے؟ پاکستان میں جو بھی نئی قیادت ابھری اس کو عوام نے ہمیشہ لبیک کہا، مگر سب نے اسے مایوس کیا؟ وجہ یہ ہے کہ ہم ایک مثالی اسلامی ریاست بنا نا چاہتے تھے۔ اس کی مثال مدینہ منورہ کی ریاست تھی۔ قائدین کو حضرت ابو بکرؓ حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ جیسا دیکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ امت اتنی تکڑیوں میں بٹی ہوئی تھی کہ ان کی گنتی بھی نہیں تھی۔ اوراس میں ستر سال میں اضافہ ہی ہوا کمی نہیں ہو ئی ؟ حالانکہ ان ہی عوام نے اس وقت وہ معیار پیش کر نا چاہا جو انصار(رض) کا تھا۔مگر برا ہو مفاد پرستی کا کہ وہ قائم نہ رہ سکا ۔ میں جو عرض کر رہا ہوں آج کے دور میں خیالی معلوم ہو گا؟ ایسا نہیں ہے۔ تاریخ یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اگر بنگال کے مسلمان باقی ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف مدد کے لیے نہ دیکھتے، تو مسلم لیگ نہ ہوتی پھر پاکستان بننے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا؟ اس کے بعد سندھ کے مسلمان بمبئی سے علٰحدہ ہونے کے وقت اگر بقیہ ہندوستان کے مسلمانوں کو آکر مدد کرنے کی دعوت نہ دیتے ۔ توپاکستان میں کراچی جیسا صنعتی شہر کہاں ہوتا؟ اور پاکستان بننے کے بعد یہ نہیں ہوتا کہ جو کردار سندھی مسلمانوں نے مہاجروں کو خوش آمدید کہا ۔ اور ان مکانوں محفوظ رکھا جو وہاں سے تارکین وطن گئے تو ان کے مکانوں پرتالے سیل لگے موجود رہے جو وہاں کی حکومت نے لگا دی تھی۔ اس طرح شہر کہ شہر سالوں بند رہے ۔ مگر نہ کوئی تالہ ٹوٹا نہ کسی مکان پر قبضہ ہوا۔ یہ تھی اس وقت کی عام حالت؟ جومیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ؟جبکہ بقیہ پاکستان کی حالت بھی یہ ہی تھی جومیں نے اخباروں میں پڑھی اور لوگوں سے سنی جس کے ثبوت بھی پائے ۔ چونکہ میں نے وہ آنکھوں سے نہیں دیکھاا س لیے میں اسکی گواہی اُس طرح نہیں دے سکتا ! جن صوبوں کو میں نے آنکھوں سے دیکھا تھا اور برتا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس قوم کو کیا ہو ا کہ اب نہ کسی کی جائیداد محفوظ ہے،نہ جان محفوظ ہے نہ مال محفوظ ہے، نہ عزت محفوظ ہے، تالوں کا تو خیر کون احترم کرتا ہے؟ لوگ ہاتھو ں سے مال چھین کر بھاگ جاتے ہیں؟ ہر قسم کے قبضہ گروپ اس ملک میں موجود ہیں۔ جبکہ اسلام کی تعلیمات اپنی جگہ ہیں کیونکہ ان میں قیامت تک کوئی ہیر پھیر نہیں ہونا ہے۔ ملک کے قوا نیں تبدیل ہونے تھے جو انگریز بنا گئے تھے۔ انہیں صرف اسلامی سانچے میں ڈھالنا تھا۔ جس کے لیے لیڈر شپ نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا۔ اگر منزل مقصود ہی مقرر نہ ہو تو کسی کا بھی منزل پر پہونچنا ناممکن ہے؟ وہی قوم جو اپنے کردار میں انصاران(رض) مدینہ منورہ کو چھو رہی تھی، وہی تبدیل ہوتی گئی اور آج یہ حالت ہے؟
جبکہ حضور (ص) کی پہچان دوسرے صحیفوں میں یہ لکھی ہے کہ وہ اور ان کے ساتھیؓ بازاروں میں گالی گلوچ کرنے والے لڑنے جھگڑنے والے نہیں ہونگے؟ ہمارے قائدین کی اخلاقی حالت اگر دیکھنا ہے تو ان کے جلسوں میں چلے جائیے۔ ٹی وی ٹاک شو میں چلے جائیے؟ دیکھیے کون سی زبان استعمال کر رہے ہیں اور ہمیں کیاحکم ہے؟ جھوٹ جس دھڑلے سے بولا جارہا ہے ، جواب ترکی بہ ترکی دیے جا رہے ایک دوسرے پر الزاموں کی بھرمار ہے شرما کوئی بھی نہیں رہا۔اور ہر گروپ دوسرے گروپ سے کہتا ہے کہ شرم کرو ، شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے حیاء بھی کوئی چیزہوتی ہے۔ حالانکہ اسلام نے صرف مظلوم کو اجات دی ہے کہ وہ اپنی فریاد جج کے سامنے بیان کر سکتا ہے؟ اس کے سو اس کے بھائی کو بھی نہیں، بہن کو بھی نہیں بیٹی کو بھی نہیں جبکہ گواہی بھی انکی قابلِ قبول نہیں ہے۔ اور یہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اگر لگن ہوتی تو یہ مشکل نہ تھا کہ ہم صرف حضور (ص) کےاسوہ کو سیرتکی کتابوں میں دیکھ کر سیکھ لیتے، جیسے کے وکیل پی ۔ ایل۔ ڈی دیکھ کر یاد کرلیتے ہیں کہ اس سلسلہ میں کیاججوں نے فیصلہ دیا تھا۔ تو ہم فوراً صراطِ مستقیم کو پالیتے؟ مگر جن حکمرانوں کو سورہ اخلاص (قل ہواللہ ) نہیں آتی ہے۔ انہیں حضور (ص) سیرت کہاں سے یادہوگی؟ صرف ایک واقعہ میں یہاں امت کی رہنمائی کے لیے پیش کر دیتا ہوں کہ حضور (ص) کی موجودگی میں ایک غیر مسلم حضرت ابوبکرؓ کوبرا بھلا کہہ رہا تھا؟؟ وہؓ خاموش رہے حضور (ص) مسکراتے رہے۔ جب انہوں(رض) نے بھی اسے ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کیا تو حضور (ص) کے چہرہ مبارک پر کراہیت کے آثار پیدا ہوئے اور وہ (ص)وہاں سے اٹھ کر چلدیئے ! حضرت ابو بکرؓ چونکہ مزاج شناس تھے وہ جھگڑا چھوڑ کر ان (ص) کےپیچھے دوڑے اور فرمایا حضور (ص) جب تک وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا، آپ تشریف فرما رہے میں نے جب جواب دینا شروع کیا تو آپ(ص) ناراض ہو گئے۔ فرمایا“ جب تک تم خاموش تھے فرشتے تمہارے طرف سے جواب دے رہے تھے ۔جب تم نے جواب دینا شروع کیا تو شیطان تمہارے اور ان کے درمیان حائل ہوگیا اس لیے میں اٹھ کر چلا آیا؟ کیا اس معیار پر ہم کہیں اتر تے ہیں ؟ جبکہ ہم سب حضور (ص) کے امتی ہو نے کے دعوے دار ہیں ۔ ہمارا عالم یہ ہے کہ ایک یہ کہہ کر ڈرارہا ہے کہ “ مجھے مجبور نہ کروورنہ میں بھی اس کی طر غدار بن جاؤنگا“ دوسرے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے کہ جوش خطابت میں جمہوریت کے سب سے بڑے شوالے پر لعنت بھیجدی؟ لہذا جنکا ضمیر توہین رسالت جیسے مسئلہ پربیدار نہیں ہواتھا، وہ اسے کیسے برداشت کر سکتے تھے؟ انہوں نے وہاں جاکر دھواں دھاڑ تقریریں کرڈالیں؟ جبکہ آپ کسی بھی انصاف پسند آدمی سے اسلام کے مطابق فیصلہ لے لیں وہ دونوں کو ہی قابل مذمت قراردے گا۔اس لیئے کہ اسلام جہاں دوسروں کے معابد اور ان کے دیو تاؤں کے احترام کاحکم دیتا ہے ۔وہیں کسی مسلمان کو کسی پر بھی لعنت بھیجنے کی اجازت بھی نہیں دیتا؟ تو ہم پھر کس کی روش پر چل رہے ہیں جواب آپ پر چھوڑتا ہوں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.