بلی تھیلے سے باہرآگئی؟ شمس جیلانی

یہ محاورہ عجیب ہے کہ بہ یک وقت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ چاہے بلی ہو چاہے بلا ۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ تھیلا باریک کپڑے کا ہواس کے اندرکوئی چیز کلبلاتی نظرآرہی ہو اور جنس کی تصدیق نہ ہو پا رہی ہو۔ مورخ مذبذب ہو کہ وہ بلی ہے یا بلا اور یہ محاورہ ااسیطرح رواج پاکر غلط العام فصیھم کے زمرے میں آ گیا ہو؟
بولے وہ جھوٹ اتنا کہ ایمان بھی گیا اور سیاسی شہید بننے کا امکان بھی گیا، انسان بہت کچھ کرتا ہے، بہت منصوبے باندھتا ہے! مگر ہو تا وہی ہے جو اللہ سبحانہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ حالانکہ جب سے دنیا بنی ہے لاکھوں فرعون گزرے ہونگے مگر کوئی انہیں جانتا تک نہیں ہے۔ جبکہ مثال کے لیئے اس نے ایک ہی فرعون چنا اور اسی کو کافی سمجھا اور اسے بھی سزا کے طور پر ڈبو کر اس کی ممی کو محفوظ کرادیا تاکہ اوروں کے لیئے نظیر موجود رہے اور اس کے انجام سے آنے والی نسلیں عبرت پکڑیں؟ پھر بھی لوگ اسی کے راستے پر چلتے ہیں نئے نئے، حیلے لا تے ہیں شاید سوچتے ہو نگے کہ فر عون اور اس کے درباریوں سے ہم زیادہ چالاک ہیں ؟ ورنہ لوگ بار بار تجربہ کیوں کریں۔ اسی سے نہ ڈرتے رہیں جس سے ڈرنے میں عافیت ہے؟ جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان بھی ہے۔ صرف اس کی ایک شرط ہے کہ “میری بات مان لیا کرو“وہ بھی ماننے والے کی اپنی بھلائی کے لیے ہے؟ کیونکہ وہ تو بے نیاز ہے، ماننے والوں کے لیے فائدہ ہے نہ مانے تو نقصان ۔ اور پھر وہاں جب یومِ حشر برپا ہوگا اور وہ ا پنے تخت پر انصاف کے لیے تشریف فرماہوگا ،تو گناہ گار کہیں گے “اے ہمارے پروردگار اب جبکہ کہ ہم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔ایک بار تو ہمیں واپس دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم اس کی تلافی کرسکیں جو پہلے تیری نافر مانیاں کرتے رہے ہیں۔ مگر وہ اپنے ذاتی علم کی بنا پر فرمائے گا کہ یہ جھوٹے ہیں وہی کریں گے جو پہلے کیا تھا“ یہ سب کچھ قرآن میں موجود ہے وہاں جاکر پڑھ لیں؟
یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ کبھی کبھی یہاں بھی کر کے دکھا دیتا ہے ، وہی جو وہاں ہونا ہے۔ تاکہ شاید اس سے کوئی عبرت پکڑے اور توبہ کرلے ! جبکہ اس وقت تو توبہ کی گنجائش ہےاسوقت بندے کو توبہ کی سہولت بھی نہیں ہوگی۔
پاکستان میں بھی یہ ہی ہوا کہ صاحبِ موصوف کو اس نے ایک کے بجا ئے تین مرتبہ موقع دیا ؟ جس کو پوری دنیا نے دیکھا؟ کیوں دیا؟ اپنے راز وہ خود ہی جانتا ہے یااہلِ معاملہ جانتا ہے۔ لیکن یہ دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے کسی دفعہ بھی نکالے جانے کے بعد اور پہلے کبھی اپنی روش نہیں بدلی اور ہر بار وہی کیا جو پہلی بار کیا تھا؟ ہاں! ہر مرتبہ پیش بندی پہلے سے بہتر کی اور صورتِ حال یہ ہوگئی کہ انہوں نے کوئی محکمہ ایسا نہیں چھوڑا؟ جس کو اپنا مطیع نہ بنا لیا ہو؟ اور مطمعن ہوگئے کہ ا ب کوئی ا ن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جو کہ ان کے اس دفعہ کے رویہ سے ظاہرہوا ہے؟ کہ انہوں نے ہر مسئلہ کو طاقت کے زور پر حل کر نے کی کوشش کی اور ہمیشہ نادر شاہی حکم سینہ بہ سینہ بھی اور اعلانیہ بھی اپنے پسندیدہ لوگوں کے ذریعہ جاری کیا کہ“ جو راستے میں آئے اسے خس وخاشاک طرح راستہ سے ہٹادو“ ایک پولس افسر کہیں غلطی سے ایسا آگیا تھا۔ جس کا نام ہی“ نیکو کا ر“تھا اس نے ان کا حکم ماننے سے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ“ پولس کا کام عوام پر گولی برسانا نہیں ہے امن قائم کرنا ہے“ اس کوانہوں نے نشانِ عبرت بنا دیا تاکہ دوسرے موقعہ پر کوئی چھان بین سے بچ کر کسی عہدے پر آگیا ہو تو اس کے بھی کان ہو جائیں۔ وہ مطمعن ہو گئے کہ اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ یہ بھول گئے کہ وہی ہستی جو انہیں اتنی پستی سے اتنی بلند ی تک لے گئی وہ بھی دیکھ رہی ہے؟
جب اس نے نگاہیں پھیریں تو پھر دنیا نے دیکھا؟ کہ اچھے لوگ ہر طرف سے نکلے چلے آرہے ہیں؟ جنکو وہ و اپنا سمجھ کر لا ئے تھے۔ موصوف کے خلاف جب پہلا فیصلہ آیا تو انہوں نے فوراً تسلیم کرکے استعفیٰ دیدیا؟ اس پر دنیا نے واہ، واہ کی! لیکن جب ا نہوں نے عدلیہ کو للکارا ! پہلے تو چیف جسٹس صاحب طرح دیتے رہے کہ ضبط کی انتہا کردی؟ لیکن وہ جب کسی طرح چپ نہ ہو ئے تو پھر کہیں جا کر مہینوں کے بعد ترکی بہ ترکی میڈیا پر آکر جواب دیا کہ“ وہ زمانے گزرگئے کہ عدلیہ آمروں سے مرعوب ہو جاتی تھی ہم کسی سے مرعوب نہیں ہونگے اور بلا تفریق سب کو عدل فراہم کریں گے۔اور عوام اور وکلاء دونوں سے اللہ کے نام پر اپیل کی کہ وہ ان کاساتھ دیں تاکہ وہ اس بگڑے ہوئے نظام کو بہتر بنا سکیں؟ اورا نہوں نے اس کا عملی مظاہرہ بھی شروع کردیا کہ خود لاہور کے ہسپتال میں چلے گئے جہاں کے دواتو بعد کی بات ہے پینے کا پانی بھی صحیح نہیں تھا، واپس آکر صوبائی چیف سکریٹری صاحب کو فرمایا کہ ایک ہفتہ ہم لاہور میں ہیں اور آپ ہمارے ساتھ رہیئے تاکہ ہم عوامی مسائل سے آپ کو روشناس کرائیں؟ جبکہ دوسری طرف کمانڈر انچیف صاحب ایوان بالا میں پہونچ گئے ؟ کہ ہم عوام کے پاس آئے ہیں۔ ہمیں حکم دیں؟ہم اس کی تعمیل کریں کیونکہ ہمارا کام حکومت کرنا نہیں ہے وہ عوام کاحق ہے۔ ملک اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہماراکام ہے؟ ہم سے ہر سوال پوچھیئے جس کے لیے ہمیں مورد الزام ٹھہرایا جارہاہے؟ ہم نے جو کچھ بھی کیا ، حکومت کے کہنے پر کیا ہے اور یہ کہ ہم نے ابتک جو کچھ بھی کیا ہے اسکی وجوہات کیا تھیں ؟ ان کا کہنا یہ اس کی وجہ یہ تھی جو حکومت میں بیٹھے تھے معاملات کونپٹا نہیں رہے تھے بلکہ طول دے رہے تھے اور ہمارے خیال میں ملک کی جو صورت حال ہے ۔ اس میں ملک کسی بھی بدنظمی کا متحمل نہیں ہو سکتا؟ سینیٹرز نے طرح ، طرح کے سوالات پوچھے جو افواہوں سے بنے تھے۔ جو جان کر کوئی نام لیئے بغیر سوشیل میڈیا اور عام میڈیا میں ایک ٹولے کے سربراہ اور ان کے ساتھیوں کی زبانِ زد ِ عام پر تھے۔تا کہ جنہیں وہ ا لزام دے رہے تھے وہ تنگ آکر ان کے خواب کو سچاکر دکھائیں؟ اوروہ ایک مرتبہ پھر اسی سیاسی شہادت کے حربہ کو اور کیش کر لیں تو پھر ان کے وارے کہ نیارے ہونگے ۔ ان کا ہی نہیں انکی آگے آنے والی کئی نسلوں تک کا راستہ صاف ہوجائے گا ؟ اب آگے کیا ہوگا یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.