زینب کا مقدمہ اور اس میں سبق ؟ شمس جیلانی

زینب کا مقدمہ اور اس میں سبق ؟ شمس جیلانی
ہم نے پچھلے ایک کالم میں بات کی تھی کہ دولت کا چند ہاتھوں میں جمع ہو جانا ا صل وجہ ہے کہ نہ تو بچیوں کی شادیاں ہورہی ہیں نہ بچوں کی شادیا ں ہور ہی ہیں۔ کیونکہ شادی پر بڑھتے ہوئے رسم ورواج کی وجہ سے خرچہ اتنا ہوتا ہے کہ عام آدمی تو کیا، انتہائی دولت مند کو بھی کئی بار سوچنا پڑتا ہےاس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں پھیل رہی ہیں۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہر بیٹی والا چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی اس سے بڑے خاندان میں بیاہی جائے تاکہ وہاں وہ عیش کرے؟ جبکہ یہ ہی خواہش ہر بیٹے والے کی بھی ہے کہ میرے بیٹے کی شادی ایسی جگہ ہو جہاں سے نہ صرف بہت ساجہیز ملے، بلکہ بہت ہی بارسوخ خاندان بھی ہو،تاکہ میرا قد ہم چشموں میں بڑھے اور مزید مال کمانے کا موقع ملے؟ اس کی وجہ سے ایک شیطانی نیٹ ورک پورے پاکستان میں بن چکا ہے۔ آپ جس مل مالک کا شجرہ معلوم کریں گے۔ تو گھوم پھر کر ہمیشہ حکمرانوں تک پہونچے گا۔ پارٹی کوئی بھی آئے کو بھی جا ئے۔ حکومت اس نیٹ ورک کےہاتھوں سے باہر نہیں جاسکتی ؟ چونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اس کے اب بہت سے شارکٹ لوگوں نے دریافت کر لیئے ہیں۔ جودولت مند نہیں یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔انہوں نے جو شارٹ کٹ دریافت کیے ہیں وہ یہ ہیں؟ کسی بڑے گھرانے سے تعلقات قائم کریں؟ اس کی چاپلوسی کی جائے ،یا اگر سیٹھ کی لڑکی ہو تو اسکا شوفر بن جایاجا ئے۔ اس ترکیب سے کئی کو شوفر سے ارب پتی بنتے دیکھا ہے۔ تو کئی کو معمولی شخصیت سے صدرِ مملکت تک بنتے ہوئے دیکھا۔
اس معاشرے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہر ایک دولت حاصل کرنے کے درپہ ہے جس طریقے سے بھی ہو۔ اگر وہ متوسط طبقہ کے افراد ہیں تو وہ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے میاں اور بیوی دونوں کمانے پر لگے ہوئے ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ دونوں کے جانے کے بعد بچے گھر پر کیا کرتے ہیں؟ اور کون آتا ہے۔ اس پر اوپر سے ظلم یہ کہ انہوں نے مذہبی تعلیم کو قطعی نظر انداز کردیا ہے؟ حکومت پہلے ہی شرماتی تھی کہ ہم اپنا دقیانوسی نظام لیکر چل رہے ہیں، دنیا کے ساتھ چلیں گے کیسے؟ انہوں نے آہستہ ،آہستہ مہذب بننے کے لیے اپنے نصاب سے دین کو نکال ہی دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی پاس اب یہ سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے کہ وہ جس معاشرے کی نقالی کر رہے ہیں اس کا حشر کیا ہوا ؟ آج اس کی حالت یہ ہے کہ خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ تمام اقدار بدل چکی ہیں؟ کبھی ا ن ملکوں کی سیر کرکے دیکھئے کہ ایسے بہت سے کام لوگ سڑکوں پر کرتے نظر آئیں گے جو آپ یہاں گھروں میں چھپ کرہوتے ہیں۔ اُن کا ایک ہی نعرہ ہے کہ پہلے ہم عیش کرلیں، بعد میں اگر فرصت ملی تو اولاد وغیرہ دیکھی جا ئے گی۔
جبکہ معاشرہ بھلا یا برا بنتا ہے مذہب سے جو ان کے یہاں سے تقریباً رخصت ہو چکا ہے۔ انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے کون کیا کر رہا ہے یا پڑوسی کون ہے۔ شادی بیاہ کے مسائل بھی نہیں ہیں۔ لڑکی لڑکا راضی ہے تو ٹھیک ہے۔ چونکہ وہ جرم قابلِ دست اندازی معاشرہ نہیں ہے ،اس لیے قابلِ دست اندازی ریاست بھی نہیں ہے ۔ قانوں یہ ہے کہ جو جوڑا ایک چھت کے نیچے بارہ مہینے رہ لے اور خود کو ایک حلف نامہ کے ذریعہ ریاست کے سامنے میاں بیوی ظاہر کردے تو ریاست ان کو وہ تمام مراعات دیدیتی ہے، جو بلا تفریقِ جنس میاں بیویوں کو حاصل ہوتے ہیں اور یہ بھی وہی بتاتے ہیں کہ ان میں میاں کون ہے، بیوی کون ہے؟ جبکہ پاکستان دونوں نظاموں کو ساتھ لےکر چلنا چاہتا ہے۔ بچوں اور زیادہ تر والدین کو یہ معلوم نہیں ہے کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ اس لیے پاکستان میں اس دوغلی پالیسی کی وجہ سے عجیب عجیب مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا !عمران کی کہانی جیسی کہ اس نے اپنے اعترافی بیان میں بیان کی ہے (جس سےممکن ہے وہ عدالت میں جاکر منحرف ہوجائے) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ایک گھناؤنے ماحول میں پرورش پائی اور اسے قریبی رشتوں کے احترام کا علم ہی نہیں تھا؟اس لیے اس کے سب سے پہلے شکار وہی بنے؟
وجہ یہ ہے کہ ماحول تو صرف مذہب بناتا ہے اور وہی بتاتا ہے کہ حرام کیا ہے اور حلال کیاہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کے بغیر بھی کوئی اچھا یا برا بن سکتا ہے؟ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ اس کی بنا پر وہاں کے حکمراں بھی اپنی جگہ درست ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ ہمارے اوپر جھوٹے حکومت کریں ، نادہند اور بد عنوان حکومت کریں جبکہ عدالتیں دین کی پابند ہیں حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مانتی ہیں۔ اس کے برعکس جمہویت میں بالادستی عوام کی ہوتی ہے۔ اس لیئے اکثریت جیسوں کی ہو گی وہ ویسے ہی اپنے حکمراں منتخب کریں گے اور ویسی ہی پارلیمان میں قانون سازی بھی کرے گی؟ کیونکہ یہ جمہوری نظام میں ان کاحق ہے؟
میری اس تمام بحث کا مطلب یہ ہے کہ پہلے فیصلہ اس پر ہو جائے کہ پاکستانی کونسا نظام چاہتے ہیں ۔ یہ منافقت نہیں چلے گی اس کے نتائج انتہائی تباہ کن ہونگے ۔ جو صورتِ حال وہاں پر اس وقت ہے کہ شریعت بھی نافذ ہےاور برٹش لاء بھی ابھی تک چلا آرہا ہے۔ کیونکہ حکمراں دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ اور اکثریت ان ہی کے پاس ہے۔ جبکہ اسلام کہیں بھی شراکت پسند نہیں کرتا اس کا مطالبہ یہ ہے کہ پورے کہ پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ؟ اور منافقین کا درجہ جہنم میں اسی لیے سب نیچے ہے ۔ کہ وہ دھوکا دہی کامرتکب ہوتا ہے اور اس پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرتا۔ اور منافق جو تعریف حضور(ص) نے فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ“ بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے،جوکہتا ہےاس پر عمل نہیں کرتا، اس کے پاس امانت رکھو تو واپس نہیں کرتا“

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.