ڈریے کہ کہیں عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز نہ ہوجائے۔اور سارے ظالم اس انجا م کو نہ پہونچ جائیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ جن کی مثالوں سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ کیونکہ کاغذ کی نا ؤ زیادہ دیر نہیں چلتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بھی زیادہ دیر نہیں چلتا ہے؟ کوئی بھولے عوام کو تو گمراہ کر سکتا ہے، مگر یاد رکھیے کہ ملک میں اب دانشوروں کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو کہ ہر مکر کی طے تک پہونچ جاتی ہے۔ آفریں ہے پاکستان کی عدلیہ کو جس نے اپنے اندر بے مثال ظرف کا مظاہرہ کیا؟ اس نے جتنی برداشت کی ہے شاید تاریخ میں ڈھونڈے سے نہ ملے؟ سوائے رسالتمآب اور انکے اہلِ بیعت کے، لیکن انکا مقابلہ ہم جیسے ا نسانوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ اور ا ن سے تو بالکل ہی نہیں کہ جو صرف کہہ تے ہیں اور عمل نہیں کرتے، کیونکہ کرنا ہی نہیں چاہتے؟ عدلیہ کے صبر کے پیمانہ کا لبریز ہوجانا کل اس سے ثابت ہوا کہ ایک سنیٹر کو عدالت سے سزا بھی ہوئی، جرمانہ، بھی ہوا اور پانچ سال کے اہلیت بھی ختم ہوئی پھر عدالت سے ہی سیدھے اڈیالہ جیل چلے گئے ۔ ابھی کچھ دوسروں کو بھی نوٹس مل گئے ہیں؟ ان میں سے ایک صاحب کا بیان ہے کہ میں نے عدلیہ کو کچھ نہیں کہا؟ اب یہ تو عدالت ہی فیصلہ کریگی کہ انہو نے پھول بر سائے یاتوہینِ عدا لت کی؟ جو جیلیں بھرنے کی بات کر رہے ہیں! وہ بھی دودھ پینے والےمجنوؤ ں سے؟ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
مالکوں سے وفاداری اچھی چیز ہے مگر اسلام نے مالکوں سے وفاداری کو دین کے ساتھ مشروط کردیا ہے، یہ حکم دے کر تم صر ف نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہو مگر برا ئیوں میں نہیں؟ اور حضور(ص) نے یہ بھی فرمادیا کہ“ جو تم میں سے صاحبِ اختیار ہیں تمہارے اوپر، ان کا اتباع بھی معروف میں ہے غیر معروف میں نہیں ہے“ وضاحت یہ فرماکر کردی ہے کہ تم میں سے کوئی اگر امیر بد کردارہو اور امامت کرے تواس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہو، مگر غلط کام کا حکم دے تو مت مانوں؟ جبکہ کچھ لوگ وفاداری میں اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ کچھ سوچتے سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ ہم سے حساب لینے والا اللہ سبحا نہ تعالیٰ بھی ہے۔ شاید اس لیے کہ نہ اس کی کوئی فوج دکھائی دیتی ہے نہ عدالت جبکہ اس کے ضبط کاعالم ہے کہ اس کو جو نہیں مانتا ہے۔ وہ اس لیے اس کو زیادہ دیتا ہے، جو اسے نہیں مانتا ہے؟ کہ اس کو وہاں زیادہ کا حساب دینا ہوگا اور اس کے مطابق سزا بھی بھگتے گا،مگر وہاں اس کاکو ئی حصہ نہیں ہوگا۔ لہذا اس سے ڈرنے والوں کی تعداد دال میں نمک کے بھی نہیں ہے۔ جبکہ زبانی کلامی ماننے والوں کی تعداد ایک ارب سے بھی زیادہ ہے مگر ڈرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں بھی مشکل سے نکلے گی۔ لیکن ہے ضرور مثلاً اسلام آباد کاایک پولیس آفیسر “ نیکوکار“ جس نے عوام پر حکمرانوں کو یہ کہہ کر گولی چلانے سے انکار کردیا تھا کہ پولیس کا کام امن کا قیام ہے ؟ عوام پر گولی چلانا نہیں؟ اس کو نشان عبرت بنا دیاگیا ۔ لوگوں کواس کانام بھی اب یاد نہیں ہے۔ عوام اورلیڈر تک یہ بھول گئے کہ اگر وہ حکمرانوں کی بات مان لیتاتو ایک علاقہ اسلام آباد میں بھی ایسا ہوتا جیسا کہ “ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہے“ اوردوسرے بھی انصاف کے لیے گھوم رہے ہوتے؟ کاش مسلمانوں میں ایمان داروں کی قدر ہوتی تو سارے ہی آفیسر ایسے ہی ہوتے؟ پھر کرایے کے لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں ملتے جو کہ آج کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ۔ اور وہ بھی کس ڈھٹائی سے ۔زیادہ دن نہیں گزرے کہ اسی پاکستان میں اور اس سے پہلے اسی دنیامیں ایسے لوگوں کی اتنی کمی تھی کہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ ہر ایک یہ جا انتا ہو تا تھا اور ان نفرت کرتا تھا کہ فلاں بنِ فلاں چور ہے، بد دیانت ہےاور رشوت خور ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ ڈھونڈے سے ایک آدھ کہیں سچا ملتا ہے۔ اور وہ اپنے سچے مسلمان ہونے کی سزا بھگتا ہے؟ کیوں اس لیے کہ جیسا راجہ ویسی ہی پر جا۔ وجہ حضور(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ “تمہارے حکمراں تمہارے عمال ہونگے“ (یعنی جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمراں ہونگے)
مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ وہ کھرے بستر پر رات کو چین کی نیند سوتا ہے؟ جبکہ دوسرے خواب آور گولیاں لینے کے باوجود نیند کے لیے ترستے ہیں۔ وہاں جاکرتو جو ہونا ہے سو ہونا ہے؟ کیونکہ اس نے شیطان سے فرمایا ہوا ہے کہ میں تیرے ساتھیوں سے جہنم بھردوں گا جبکہ تو میرے بندوں کو کبھی بہکا نہیں سکے گا؟ اور یہ بھی فرمایا کہ میری حدود سے کوئی بھاگ نہیں سکے گا۔ اور نہ سزا سے بچ سکے گا؟ مگر یہ باتیں ایمان والوں کے لیے ہیں ۔ جبکہ حضور (ص) کے دور میں بھی ایسے لوگوں کی خاصی تعداد موجود تھی جو منہ سے بہت کچھ کہتے مگر عمل میں پیچھے رہتے تھے۔ اپنے فیصلے حضور (ص) کے بجا ئے کفار کے پاس لے جانا پسند کرتے تھے۔ مگر ان کی تعداد کم تھی جس کی گواہ بہت سی قرآنی آیتیں ہیں جن میں ان کی صفات کے بارے میں حضور (ص)اللہ سبحانہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ جیسے کہ سورہ نساء کی آیات نمبر 61 -65۔ جن میں منافقوں کی صفات یہ بیان فرما ئی گئی ہیں کہ“ یہ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جو تم پر نازل ہوا اس کو ہم مانتے ہیں اور جو آپ سے پہلے نازل ہوا اس کو بھی ۔ مگر یہ فیصلہ میں دوسرے قوانین کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔۔ الخ ان آیات کی روشنی میں ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ کہیں ہم بھی ان میں سے تو نہیں ہیں اور ہمارے دعوے قیامت کے دن دھرے کہ دھرے نہ رہ جائیں۔ اللہ سبحانہ تعاالیٰ ہمیں اس دن سےبچا ئے ،جہاں کوئی کسی کا ساتھ نہیں دیگا (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے