لودھراں کا نتخاب سب کے لیے ایک سبق ہے؟ شمس جیلانی

کہاوت ہے کہ افراد تجربہ سے سیکھتے ہیں، قومیں تاریخ سے سبق لیتی ہیں۔ لیکن پاکستانی اور وہ بھی مسلمان کسی سے سبق نہیں لیتا۔ جبکہ سب کو سبق سکھانے کے دعوے کرتے رہتے ہیں، مگر خود کسی سے سبق نہیں لیتے؟ اس کاثبوت یہ ہے کہ لودھراں کے الیکشن سے پہلے ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ یہ الیکشن ہم جیت کر ثابت کردیں گے کہ عوام کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ ہم بیس کروڑ عوام کا مینڈیٹ لیکر آئے ہیں اور ہمیں صادق امین نہ ہونے کی تہمت لگاکر ایک عدالت نے ناہل کردیا۔ یہ نہیں کہا کہ ہم نے وہاں اپنی کوئی صفائی پیش نہیں کی؟ البتہ یہ ضرور کہا کہ ہم احتساب سےبالا ہیں ہم جو چاہیں کریں انہیں کیا ۔ دوسرے نے نہلے پر دہلا لگایا اور فرمایاکہ یہ سیٹ ہماری ہے اس لیے کہ جو صاحب عدالت سے صادق ور امین نہ ہونے کی بنا پر نااہل قرار دیئے گئے تھے ان کے وہاں سے تین دفعہ منتخب ہونے کے بعد ہم ان ہی کے صاحبزادے کو ٹکٹ دے رہے ہیں ۔ جبکہ اس سے پہلے وہ موروثیت کے سخت خلاف تھے۔
اگر وہ سورہ الصف کی پہلی آیت سے سبق لیتے تو وہ یہ بات زبان سے نہ نکا لیتے کہ“ اے ایمان والوں وہ بات کہتے کیوں ہو جس پر عمل نہیں کرتے ،پھر دوسری آیت سامنے آجاتی کہ “یہ بات اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے “ پھر جب انہوں نے یہ کہا کہ ہمارے پاس ان کے مقابلہ میں بہترین امیدوار ہے۔ یقیناً ہم جیتیں گے وہ یقین کے بجا ئے انشا اللہ کہتے تو کہیں بہتر ہوتا ۔ یہ تو تھے قرآنی سبق۔اگر وہ اسلاامی تاریخ سے سبق لیتے تو “غزوہ حنین“ یاد آجاتا، جس میں حضور (ص) کی موجود گی میں یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان بارہ ہزار تھے اور پوری طرح ہتھیاروں سے لیس بھی ، جبکہ اس سے پہلے وہ ہمیشہ بھوکے، تعداد میں کم ہوتے تھے، جبکہ ہتھیار بھی وہ پورے نہیں رکھتے تھے۔ مگر وہ ہمیشہ فتح پاتے رہے سوائے ایک مرتبہ“ غزوہ ا حد“ کے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں چند تیر اندازوں کی اکثریت نے حضور (ص) کی نا فرمانی یہ کی کہ مورچے چھوڑ دیے۔ جبکہ حضور (ص) نے سختی سے منع فرمایا تھا کہ ہماری کوئی بھی حالت ہو، تم مورچے مت چھوڑنا؟ لیکن انہوں نے چھوڑ دیے؟ کیوں کہ باقی لوگ بھاگتے ہوئے دشمن کامال لوٹنے میں لگے ہو ئے ہم کیوں پیچھے رہ جائیں ۔ ایسا دوسرا واقعہ یہ تھا کہ اسلامی فوج میں سے کسی نے بڑک ماری کہ ہم آج تعداد میں دشمنوں سے چار گناہیں اور بہترین ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں آج ہمیں کون شکست دے سکتا ہے۔ جس کو غلطی سے ایک مورخ نے بہت ہی مقدس ہستی سے منسوب کرنے کی کوشش کی جو کہ ناقبلِ یقین بات ہے۔ یقیناً ایسا کہنے والا کوئی نومسلم رہاہوگا جو فتح مکہ کے بعد اسلام لایا ہوگا؟ ورنہ حضور (ص) کے بہترین تربیت یافتہ پرانے صحابہ عظامؓ کی زبانِ مبارک سے تو یہ بات ادا ہونا ممکن ہی نہ تھی کہ ایسی بات کہنے کی وہ جرائت کر تےا یک کیا! متعدد آ حادیث اور آیات ان کے حافظے میں آجاتیں۔ جن میں ہر قسم کے“کِبر“ کی مذمت کی گئی ہے۔اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تو یہاں تک فرمادیا ہے کہ“ کِبر “ صرف اور صرف مجھی کو زیبا ہے، وہ میری چادر ہے ۔ اگر کسی نے اس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو میں اسے ذلیل کردونگا “ ان آیات میں سے یہ مشہور آیت تو سبھی کو یاد ہوگی“ کہ ۔۔۔۔۔ والوں ا للہ شیخی خوروں ور اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا (لحدید 23 )اللہ تعالیٰ کو یہاں دوسر ا سبق سکھنانا مقصود تھا ، یہاں بھی مسلمان شکت سے بری طرح دوچار ہوئے بارہ ہزار میں سے صرف دو درجن صحابہ کرام حضور(ص) کے آس پاس رہ گئے؟ باقی جب پلٹے کہ جب حضور (ص) نے آواز دی میں اللہ کا رسول محمد بن(ص) عبدا للہ ہوں؟ کہاں بھاگے جارہے ہو؟ یہاں دوسرا سبق دینا مقصود تھا کہ فتح اور شکت منحصر ہے اللہ کی نصرت پر نہ کہ تعدادا وراسباب پر؟ اس لیے شکست پھر فتح سے بدل گئی؟
اگر مسلمان بڑکیں مارنے کے بجائے اللہ سبحا نہ تعالیٰ سے ڈریں اور اگر صرف یہ ہی تین سبق یاد کرلیں تو کبھی بھی شکست سے دوچار نہ ہوں؟ جبکہ ہم خدا کی ہی بات ہی نہیں مانتے تواور کسی کیا مانیں گے؟ اور اگر اسی کا دیاہوا سبق یاد نہیں رکھتے تو اوروں سے کیا سیکھیں گے۔ ہم میں تو اس کے برعکس وہ تمام صفات ہیں ؟ جو ان قوموں میں تھیں جن کی مذمت ا للہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمائی ہے؟ مثلاً ہمیں فیصلوں کے لیے غیر قرآنی قوانین پسند ہیں، قرآنی نہیں ۔طرز رہا ئش دوسروں کا پسند ہے ، تہذیب اپنی مرضی کی پسند ہے۔ رہے دعوے وہ بھی کرتے تھے ۔ ہم بھی کرتے ہیں ؟ اس میں سے ایک فریق کوتصوف کابھی دعویٰ ہے جس کی معراج حصول تقویٰ ہے، جس میں سچ بولنا اور حلال کھانا شرط اول ہے؟ جبکہ ہمارے قول ،ہمارے کھانے ،ہمارے اوروعدے کیسے ہیں ، اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے گریبان میں جھانک کر کے دیکھے تو پستی کی وجہ فوراً سمجھ میں آجائے گی۔ ہمارا کام تو آئینہ دکھانا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ آئینہ دیکھ کر ہمیں اپنی شکل بدلنے کی توفیق عطا فرما ئے (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.