آپ عنوان پڑھ کر سوچیں گے کہ شاید بڑے میاں کا دماغ چل گیاہے جبھی توالٹی سیدھی باتیں کر رہے ہیں؟ آپ کا گمان درست ہوسکتا ہے، مجھے اپنے بارے میں بہت زیادہ خوش فہمی نہیں ہے، لیکن اللہ جس سے جو کام لینا چاہے اسے کسی عمر میں بھی اتنی صلاحیتیں عطا فرمادیتا ہے جتنی کہ اسے ضرورت ہوتی ہے؟ اس مضمون کو جو میں نے عنوان دیا ہے وہ کل سے سیکڑوں پاکستانی دانشوروں کے وہ تبصرات ٹی وی شو پر دیھک کراور سن کر دیا ہے۔ جوکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعہ 62 الف کے بارے میں ہے اور جس کا شکار ہوکر پاکستان کی کئی نامور شخصیات اب تک نا اہل ہوچکی ہیں۔ مزید متوقع ہیں؟ کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے کہیں نہ کہیں جھوٹ بولا تھا،غلط بیانی کی تھی جو پکڑی گئی۔ جبکہ دانشوروں کے نزدیک سیاست میں تو یہ سب چلتا ہی ہے اور کلیہ یہ ہے کہ جو جتنا بڑا جھوٹا ہواتنا ہی بڑا سیاستداں کہلا تا ہے؟ میں نے اس سلسلہ میں صرف لفظ اکثریت نہیں استعمال کیا، کیونکہ غالب اکثریت اس کی حامی پائی کہ اس دفعہ کو پہلی فرصت میں دستور سے نکال دیا جائے یا اس کی شکل بگاڑدی جیسے کہ ترمیم در ترمیم کر کے 1973 کےدستور کی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔ ورنہ حکمرانوں میں سے کوئی چاہیں وہ کسی پارٹی کا بھی ہوآگے چل کر بچے گا ہی نہیں؟ اور ایک دانشور نے توایسی مثال دی جس کانام بھی مسلمانوں جیسا تھا کہ انگلینڈ میں ایک مرتبہ ایسا قانون پایا گیا توانہوں نے اسے دستور سے نکالدیا تھا۔ اسے شاید یہ علم نہیں تھا۔ کہ پاکستان میں“ حاکمیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہے“ جبکہ ا نگلستان میں“ عوام “کی ؟ لہذا پاکستان میں اس تبدیلی کو لانے کے لیے پہلے حاکمیت تبدیل کرنا پڑیگی؟ کیونکہ اللہ سبحانہ کی حاکمیت اعلٰی مانتے ہوئےیہ نامکمن ہے کہ جھوٹ کو جائز قراردےدیا جائے۔اس لیے کہ پاکستان کا دستور تابع ہے اللہ کے دین کے۔جس کی اسا س ہی سچائی پر ہے ۔ جھوٹ پر نہیں؟
حضور (ص) کے اسو حسنہ میں اگر کوئی غور کرے تو وہ (ص) صدق اورامانت کی ایسی عملی تصویر تھے کہ تاریخ انسانی میں کوئی اس کی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ انکےاس عمل میں اس قدر حکمت نظر آئے گی کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے ؟کیونکہ تمام انسانوں میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ وہ عطا ہی ا ن کو فرما ئی ہے۔ اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ فرماکر بات ختم فرمادی کہ“ تمہارے لیے تمہارے نبی (ص) کے اسوہ حسنہ میں نمونہ ہے “ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 21) مگر ہم ایسی باتوں پر کبھی دھیان نہیں دیتے ، جو ہمارے مفادات کے خلاف ہوں، لہذا اس کافائدہ بھی نہیں پہونچتا ؟ انہوں (ص) نے ہی ایک متفقہ علیہ اور طویل حدیث میں یہ ا رشادفرمایا ہے اور جسکا لب لباب یہ ہے کہ “مسلمان میں تمام برائیاں ہوسکتی ہیں، حتیٰ کہ وہ تمام گناہ کبیرہ بھی، جن میں کہ ہر قسم کی فہاشی چوری ڈکیتی وغیرہ سب شامل ہیں “ مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا “ سوچئے اس میں حکمت کیا ہے؟جواب یہ ہے کہ جھوٹے پر سے انسان کا اعتبار ہی اٹھ جاتا ہے اور وہ کسی کام کانہیں رہتا، وہ صاحبِ عزت جبھی تک ہے جب تک کہ اس کااعتبار قائم ہےِ اس کے بعد کوئی بھی قابل عزت نہیں رہتا؟ بازار سے وہ کوئی چیز نہیں خریدسکتا تاوقتیکہ کہ وہ پہلے قیمت دکاندار کو ادا نہ کردے، کیونکہ ہر لین دین میں اعتبار ضروری ہے؟ ۔ وہ سچ بھی بھی بول رہا ہو تو کوئی اس کی بات کا اعتبار ہی نہیں کر تا۔ کیونکہ باالفاظ دیگر وہ“ صادق اور امین ہی نہیں رہتا “ اسلامی قوانیں کے مطابق ایک مرتبہ جھوٹی گواہی دینے کہ بعد، اس کی گواہی تاحیات قابلِ قبول نہیں رہتی، تا وقتیکہ وہ تائب نہ ہوجا ئے۔ یہ رعایت اس لیے رکھی گئی کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ“ میں کسی کو سزا دیکر خوش نہیں ہوں “ صرف میری بات مان لیا کرو“ اسی لیے اس نے توبہ کے دروازے جانکنی سے پہلے پہلے بند نہیں فرمائے۔ ہاں جو توبہ کوکھیل بنا لے اور جھوٹ کو عادت، تو وہ چونکہ خود دانا اور بینا ہے اور عزیز اور حکیم ہے وہ خود ہی فیصلہ کرتا ہے کیا کرنا ہے۔ کبھی وہ سزا وہاں کے لیے اٹھا رکھتا ہے اور کبھی وہ یہیں ایسے لوگوں کو سزا دیکر نشانہ عبرت بنادیتا ہے۔ کہ وہ سب کچھ رکھتے ہوئے بے بس نظر آتے ہیں۔ یہ ہی سب کچھ آجکل ایک صاحب بھگت رہے ہیں؟ اور ان کی سچی بات بھی کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے سوائے ان کے جوکہ یا خود ان سے وابستہ ہیں یاان جیسے ہیں اور یاا ن کے مفادات ان سے وابستہ ہیں؟
۔ ایک مقولہ ہے کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا۔ وہ اس کی زندہ تصویر بنے ہو ئےہیں۔ کہ ان کو یہ یاد نہیں رہتا کہ اسی سلسلہ میں انہوں نے چند دن پہلے کیا کہا تھااور آج کیا کہہ رہے ہیں۔ ہمیں تو چونکہ اپنے ہرمسلمان بھائی کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، اس کے تحت ان بیچاروں کی مجبوری سمجھ رہے ہیں۔ اور دنیا کا دستور ہے کہ ہمیشہ مریض کے ساتھ ہمدردی کی جاتی ہے۔ لہذا لوگوں کو ہمدردی کرنا چاہئے۔ اس پر ہنس کر ان کی بیماری میں اور اضافہ نہیں کرنا چاہئے آخر انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے۔ یہ کیا کہ ان کے پرانے ارشادات عالیہ کے ٹی وی پر کلپ دکھا ئے جائیں؟ ان کے اپنے ان کے خلاف گواہی دیتے نظر آئیں ، ان کے پارلیمان کے سامنے دیئے ہو ئے بیانات دکھا ئیں اور اس کے تضادات ان ہی کی یا انکے بچوں زبانی گنا ئیں۔ حتیٰ کہ یہ سچی بات بھی نہ مانیں کہ“ وہ کہہ ر ہے ہیں کہ“ اس وقت ملک میں بدترین قسم کی آمریت ہے “تب بھی لوگ اس کو ماننے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ یہ کھلی سچا ئی ہے۔ جس کاثبوت یہ ہے کہ آج بھی انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگاسکتا۔ حکم انہیں کا چلتا ہے؟ لوگ بھی اپنی جگہ صحیح ہیں کہ کوئی مان کیسے لے جبتک نظام میں کوئی تبدیلی نہ آئے کہ ملک میں بدترین آمیریت ہے۔ جبکہ کچھ نہ ہوتے بھی سارے اختیارات انہیں کے پاس ہیں؟ آخر ہم یہ مضمون ا پنے ہی اس شعر پر ختم کرتے ہیں! اللہ سبحانہ تعالیٰ
ا س صورتَ حال سے عبرت حاصل کرنے کی ہم سب کوتوفیق عطا فرما ئے ۔(آمین)
ع “ جب کثرتِ جھوٹ سے اعتبار ہی اٹھ جاتا ہے تب کہیں جاکے پھر نقصان نظر آتا ہے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے