کشمیر جل رہاہے مسلمان بے حس ہوچکے ہیں۔ شمس جیلانی

جس وقت یہ مضمون آپ کی نگاہوں تک پہنچے گا جمعہ کو ملک گیر منایاجانے والا یوم احتجاج ختم ہو چکا ہوگااور ناچ و رنگ کھیل اور کود کی محافل دوبارہ سج چکی ہونگی۔ کیونکہ یہ کہاوت بھی بڑی مشہور ہے کہ مرنے والے کے ساتھ کوئی مرا نہیں کرتا۔ اورحسب معمول سب لوگ اپنی دوسری مصروفیات میں مشغول بھی ہوچکے ہونگے؟ یہ ہم اس لیے قیاس کر رہے ہیں کہ یہ ہی واقعہ جب کچھ روز پہلے رونما ہوا تھا کہ کشمیر میں 17 کشمیری شہیداور ایک سو کہ قریب زخمی ہوئے تھے . اب جس سلسلہ میں تاخیر کے ساتھ سہی یہ یومِ احتجاج سرکاری اور قومی سطح پر منایا گیا۔اُسی دن ہم نے ٹی وی پر ایک ایسا منظر دیکھا کہ ہمیں یقین نہیں آیا ،آنکھیں مل کر پھر دیکھا اور بار بار یکھا تب کہیں جاکر یقین کر آیا کہ واقعی ایسا بھی ہوسکتاہے؟ یہ منظر تھا ایک مشہور عالم دینِ اسلام قہقہ پر قہقہ لگا رہے تھے جو کہ خیر سے کشمیر کمیٹی کے چیر مین بھی ہیں۔ کشمیر کمیٹی کرتی کیا ہے یہ شاید کسی پاکستانی کو بھی معلوم نہ ہو؟کیونکہ چند سال پہلے مولانا لندن اس حیثیت سے تشریف لے گئے تھے تو ان کے ا صراف بیجا کی میڈیا نے خبریں لگائی تھیں؟ اس کے بعد سے پھر وہ خبروں کی زینت نہیں بنی کیونکہ پاکستان میں کچھ کرنے سے پہلے حکمرانوں کی نگاہوں کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے جنکو اپنے کاروباری مفادات ملک سے زیادہ عزیزہیں؟ اس کی دوسری وجہ آپ آگے چل کر پڑھیں گے جو ان کے ہی ارشاداتِ عالیہ سے ظاہر ہوئی ورنہ ہمیں بھی خبرنہ تھی کہ اس ملک میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بیت المال کو خرچ کرنے میں اتنے محتاط ہیں؟ ورنہ تو وہاں کی میڈیا کے ذریعہ سے ہم پہ روز یہ انکشافات ہوتے تھے کہ“ لکھ لٹ رہے ہیں “اور کسی کے دل میں درد ہی نہیں ہے، شاہی دربار ہیں جو بیت المال پر چل رہے ہیں۔ یہ ہی تاثر عدالتوں میں چلتے ہوئے مقدمات سے بھی ملتاتھا۔ آپ کو تجسس میں رکھے بغیر ہم وہ منظر جس کی ہم نے اتنی لمبی تمحید باندھی وہ یہ تھا کہ ایک خبار نویس نے غلطی سے ان سے کوئی سوال پوچھ لیا تھا چونکہ وہ ہم نے سنا نہیں اسی وقت ٹی وی کھولا تھا اور وہ حصہ جب تک نکل چکا تھا۔ وہ الفاظ ہم نے سنے ہی نہیں اس لیے دہر ا بھی نہیں تے سکتے۔ اگر ہم اس کی جگہ ہوتے تو جو سوال پوچھتے وہ یہ ہی ہوتا کہ آپ نے اس سلسلہ میں ا ب تک کیاکیااور آئندہ کیا کرنے والے ہیں؟ اس پر مولانا کا جواب بلند قہقہوں کے درمیان دب گیا اور جواب ہم نے یہ سناکہ “ میں کیا کروں کیا ہندوستان پر حملہ کردوں“ ہمیں لگا کہ شاید اس نے ایسا کوئی لطفیہ کہدیا تھا۔ جس پر قہقہے تھمنے کانام ہی نہیں لے رہے تھے اورمولانا کو شیطان نے یہ بھی بھلادیا تھا کہ موت کی خبر سننے پر، بجائے قہقہوں کے انا للہ و نا الیہ راجعون ہ کہتے ہیں۔ انہوں نے جب اپنے قہقہوں پر قابو پایا تو یہ انکشاف فرمایا کہ کشمیر کمیٹی کی میٹنگ بلاکر انہیں ا لاؤنس بلاوجہ کیوں دوں؟ اس کو سن کر ہم عش عش کر اٹھے کہ مولانا کو کس قدر بیت المال کا خیال ہے کاش یہ سبق ان سے بقیہ لوگ بھی لیتے جو ان کے یا وہ جن کے ساتھ حلیف ہیں اور حکومت میں ساتھ ہیں؟ کہ کمیٹی کو کچھ کرنا ہی نہیں ہے تومیٹنگ بلانے کا کیا فائدہ اور بلا کے انہیں کیوں خوامخواہ الاونس دیا جائے۔ ہم نے مورخ ہونے کے ناطے کتابوں میں یہ پڑھا کہ تھا کہ امتِ مسلمہ ایک جسم کی طرح ہے جس میں کہیں بھی اگر کانٹا چبھے تو سارے جسم میں درد محسوس ہوتاہے۔ ہر دوسرا مسلمان بے چین ہوجاتا ہے اس کی آنکھ سےآنسو بہنے لگتے ہیں اور جیسی تکلیف کسی مسلمان بھائی کو ہوتی ہے تو ہر بھائی جہاں بھی ہو ویسا ہی دررد محسوس کرتا ہے۔اس سلسلہ میں ہادیِ اسلام(ص) کے ارشادات بھی پڑھے ہوئے تھے۔ غزوہ احد کا وہ واقعہ ہماری نگاہوں میں تھا اور قلم سے بھی گزرا تھا جوکہ اخوت اور ایثار کی لاجواب مثال تھا کہ“ سات صحابہِ کرام زخمی حالت میں میدانِ جنگ میں زمین پر پڑے ہوئے ،اور پانی کے لیے تڑپ رہے تھے۔ ان کی طرف ایک مجاہد مشکیزہ لیکر بڑھا ہر ایک نے پہلے اپنے برابر والے کی طرف اشارہ کیا کہ پہلے میرے اُس بھائی کو پانی دو! پھر مجھے دینا اور اس طرح وہ آخری مجاہد تک پہونچا تو دیکھا کہ وہ انتقال کرچکے ہیں، وہ پلٹ کر پھرجس کےپاس بھی پہونچا اسے وہ زندہ حالت میں نہیں ملے۔ اورا سیطرح پہلےوالے تک واپس پہونچا جن سے اس نے پانی پیش کرنا شروع کیا تھا وہ بھی اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔آج ہمارا یہ عالم ہے کہ مسلمان بھائیوں کے قتلِ عام کی خبر سن کر ہم ایسی ہنسی ہنستے ہیں جوکہ روکے نہیں رکتی ؟ یہ تو ہمارے علماء کاحال ہے ۔جبکہ عوام کا حال یہ ہے کہ کوئی بھی حادثہ ہو وہ پہلے مردوں اورزخمیوں کی جبیں ٹٹولتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ ہمارےخواص اور رہے حکمران توں ان کا حال یہ ہے کہ وہ غیروں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور ان کےایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں اور جب اس کیے کہ نتیجہ میں دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں تو اپنے انہیں طرفداروں سے مدد لیکر اپنوں کو ہی مارتے ہیں۔ یہ ہے مسلمانوں کاآج کا کردار ۔ لیکن خوبی یہ ہے کہ اس سے ہمارے مسلمان ہونے پر کوئی حرف نہیں آتا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.