پاکستان میں آجکل دو کرداروں کا بڑا چرچا ہے ایک گاڈ فادر اور دوسرا “بابا رحمتے “ اور اتفاق سے دونوں کو متعارف کرانے والی سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔ گوکہ گاڈ فادرکا ذکر تو کبھی کبھی پہلے بھی آتا تھا، مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کردار ہے کیا! زیادہ تر لوگ اس کو شرک کا وہ کردار سمجھتے تھے کہ کوئی امیدیں اللہ کے بجائے کسی اور سے لگائے، کہ ایک فیصلے میں اس کا ذکر آگیا پھر چیف جسٹس صاحب کی ا یک تقریر میں بعد میں بابا رحمتے کا ذکر آیا ؟ اور ہوا یہ کہ جن صاحب کے بارے میں یہ فیصلہ تھا انہوں نے یہ کہہ کر اپنا لیا کہ یہ میرے بارے میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کہ عام پاکستانی مطالع کے شوقین نہ ہونے کی وجہ سے اس سے واقف نہ تھے وہ صاحب بھی شاید عام پاکستانیوں کی طرح اس کردار سے واقف نہ تھے۔ بس سمجھ لیجئے ۔کہ وہی معاملہ ہوا کہ “ جیسے کہ کوئی اڑتا ہوا تیر پکڑ لے۔اور دنیایہ کہنے پر مجبور ہے اورہم اس شعر میں تضمین کرنے پر مجبور ہوئے کہ ع وہ بات جسکا پورے فسانے میں ذکر نہ تھا سنا ہے ان کو بڑی ناگوار گزری ہے۔ انہوں نے بات دل پر لیلی اور انکے پروپیگنڈے کی وجہ سے جو نہیں بھی جانتا تھا اس نے بھی اس کو ان ہی کے بارے میں سمجھا؟ جبکہ وہ ذرا تحقیق کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ یہ مثال ا ن پر کسی طور بھی صادق نہیں آتی ہے۔ کیونکہ ان میں وہ خامی ہی نہیں ہے جو گڈفادر میں تھی کہ وہ تو اسکا الٹ تھا ۔ گاڈ فادر کی خامی یہ تھی کہ ا میر وں کو لوٹتا تھا اورغریبوں میں تقسیم کردیتا تھا۔ یورپ میں ایسا باصلاحیت انسان صرف ایک ہی پیدا ہوا اور مشہور جب ہوا کہ ا س پر 1972 میں امریکہ میں ایک فلم بن گئی. بس پھر کیا تھاکہ وہ پوری دنیا میں مشہور ہوگیا۔ جبکہ ہمارے یہاں پہلےایسے بہت سے کردار تھے۔ جو بہت بڑے مشہور تھے۔ اس میں آخری کردار سلطانا ڈاکو نام کا گزرا ہے اس کی بھی یہ ہی خوبی تھی کہ وہ غیر مسلموں کو لوٹتا تھا اور ثواب سمجھ کر غریبوں اور بیواؤ ں میں بانٹ دیتا تھا۔ اور خوش ہوجاتا تھا کہ میں نے بڑی نیکی کمائی ہے۔ جہالت جو ہوئی؟ اس وقت ہمارے یہاں انگریز وں کاراج تھا انہوں نے اس کی قدر نہ کی اور اس کو پکڑ کر پھانسی پر چڑھا دیا۔ پھانسی سے پہلے جب اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ جب ماں آئی تو اس نے عجیب و غریب فرمائش کہ تو اپنی زبان باہر نکال ! جب اس نے زبان باہر نکالی تو اس نے دانتوں سے کاٹ لی ۔ اور اپنے یہ الفاظ تاریخ میں امر کرگیا کہ“ آج جو میں پھانسی چڑھ رہا ہوں وہ تیری چٹوری زبان کی وجہ سے کہ جب میں بچہ تھا اور انڈا چرا کر پہلی دفعہ لایا تھا تو بجائے اسکو کھانے کہ مجھے سزا دیتی تو آج میں پھانسی نہ چڑھتا۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جیل جانے کے بعد ہرایک آدمی تائب ہوجاتا ہے۔ مگر جن کی قسمت میں ہدایت نہیں ہوتی وہ جیل جانے سے اور آخری عمر میں بھی تائب نہیں ہوتے؟ بس اللہ جس کو ہدایت دے؟ اس واقعہ کوپڑھ کر فوراً وہ آیت ہر مسلمان کو یاد آجانا چاہیئے جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتاہے کہ “ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا جو کچھ اسے بناتے ہیں بعد میں وہ اس کے والدین بناتے ہیں“ کاش ماں باپ اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔ ہندو پاکستان میں اب بھی بہت سے لوگ ہیں جن میں یہ خوبی ہے کہ بلاتفریق سب کو لوٹتے ہیں ۔ کچھ اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دیتے مال سیدھا غیر ملکی تجوری میں منتقل کردیتے ہیں!ان پر سلطانہ یا گاڈ فادر کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ البتہ جو ان میں سے کچھ غریبوں اور مسجدوں میں خرچ کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں وہ سلطانہ ثانی اور“ گاڈ فادر دی سیکنڈ “ کہلانے کے مستحق ہیں، مگر کہتا کوئی نہیں ہے ہر ایک کہتا مروت میں یہ ہی کہ“ صاحب آپ کا کیا کہنا ہے آپ تو بہت ہی مخیر ہیں“ آپ کےپاس مال کہاں سے آتا ہے یہ تحقیق کرنے کی کوئی بھی زحمت نہیں کرتااور وہ حاتم ثانی کہلاتے ہیں۔ بہت سے فاتحہ کے لیے دکان بھی حلوائی کی ستعمال کرتے ہیں۔ اور اس محاورے کو بر وئے کار لاتے ہیں کہ۔ “ناناجی کی فاتحہ حلوائی کی دکان پر“ رہے علماء پہلے تو وہ مسجد میں مال لگا نے سے قبل تحقیق کیا کرتے تھے مگرا ب وہ بھی نہیں کرتے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مجبوری ہے“ حلال نایاب ہے“
رہا “ بابا“ رحمتے کا کردار وہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ قناعت تھی، حیاء تھی اور سادگی تھی، برائی کو لوگ برائی سمجھتے تھے۔ ان کی کئی کئی نسلیں ایک ہی گاؤں میں رہتے ہوئے گزر جاتی تھیں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اسوقت گاؤں کا قانون یہ تھا ایک کا بزرگ سب کا بزرگ ہوتا تھا اور سب بزرگوں کی عزت کرتے تھے ۔ اور بزرگ بھی سب سے مخلص اور سب کے خیر خواہ بھی ہوتے تھے۔ان کی بات کو بھی سب مانتے تھے اب وہ بھی کمیاب ہیں۔ وہ بستی بڑی ہی خوش قسمت ہے جس کو کوئی “بابا رحمتے مل جائے“ کیونکہ اچھے لوگوں سے ہی دنیا قائم ہے۔ جبکہ ہم اس کے باوجود بھی زندہ ہیں کہ برائی کو برائی نہیں سمجھتے۔ یہ حضور (ص) کا صدقہ ہے۔ ورنہ پہلے تو جہاں برائیوں کو برا کہنے والا کوئی نہیں رہتا تھا یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی سنت تھی کہ وہ اس بستی کو تباہ کردیتا تھا۔ اللہ ہمیں ہر عذاب محفوظ رکے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے