ہراک کوشش فضول ہوگی ایسا سوچا تو بھول ہوگی۔۔۔ شمس جیلانی

دنیا بہت آگے نکل چکی ہے پاکستان کے عوام اب پہلے جتنے بھولے نہیں ر ہے ہیں کہ جو چاہے انہیں بے وقوف بنا لے۔کبھی اسلام کے نام پر کبھی جمہوریت کے نام پر وہ بہت کچھ پہلے ہی بن چکے ہیں؟ اب ا نہیں بھی لیڈروں کو بے وقوف بنا نا آگیا ہے۔ جوکہ ضمنی انتخابات اور سینٹ کے انتخابات سے پتہ چل رہا ہے۔ کہ جس نے اپنے ووٹ کی قیمت جانی وہ بار بار بڑھتی گئی اور کس کے ووٹ کی قیمت کہاں تک گئی سب جانتے ہیں۔ اب عوام بھی سوچنے لگے ہیں کہ وعدوں کی بات چھوڑو وہ کبھی پورے نہیں ہوتے؟ یہ دیکھو کہ نقد کیا مل رہا ہے بجائے ادھار کے؟۔ جبکہ لوگ ان علاقوں میں جہاں ان کی حکومت ہے بڑے جلسے کر کے خود کو فریب دے رہے ہیں کہ ہمارا بیانیہ بہت مقبول ہورہا ہے۔ حالانکہ انہیں ان جلسوں اور جلوسوں کی حقیقت خود بھی معلوم ہے کہ وہ بڑے کیسے ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کوشش کر رہے ہیں کہ شاید کہ کوئی بے وقوف بن جائے دھوکا کھاجائے اس لیے کہ مرتا کیا نہ کرتا؟ اگر یہ بات سچ ہوتی کہ انکا بیانیہ مقبول ہورہا ہے۔ تو وہ مرغِ بادنما جو ہوا کا رخ پہچاننے میں ماہر ہیں وہ کب اپنے گھونسلے چھوڑ کر دوسرے گھونسلوں کی طرف پر واز کر تے ہوتے۔ بس تھوڑا سا انتظار فرما ئیے کہ ع پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ؟ جیسے ہی نگراں حکومت نظر آئے گی اورانتخابات کا یقین ہو جائے گا۔ تو سارے مرغ ِباد نما تیزی سے ادھر سے ادھر جاتے ہوئے نظر آئیں گے جہاں انہیں دانے دنکے کی امید ہوگی۔ابھی تو وہ اس کوشش میں ہیں کہ اِنہیں تلوں میں سے جتنا اور تیل نکال سکیں نکل والیں ۔ پھر دیکھئے گا کہ جیسے پہلے زمانے میں ہر دیوار پر طغرا ملتا تھا کہ ع “ باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے جن پر تکیہ تھا وہی پتہ ہوا دینے لگے“ اسوقت آپ دیکھیں گے کہ موسمی پرندوں کے غول کے غول تیزی سے ادھر سے ادھر جاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ جیسے کہ رُت کے تبدیل ہوتے ہی موسمی پرندے کبھی اُدھر سے اِدھر جا تے ہوئے نظرآتے ہیں تو کبھی اِدھر سے اُدھرجا تے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جب اللہ سبحانہ تعالیٰ تبد یلی لانا چاہے تو اسے کون روک سکتاہے؟ آثار کہہ رہے ہیں کہ وہ شاید اب تبدیلی چاہتا ہے۔ ورنہ جو شاطروں نے پیش بندی کی ہوئی تھی وہ ایسی تھی کہ کوئی بھی انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا تھا، چاہیں کوئی کچھ بھی کرلے؟ اب لٹیروں کو آخری امید یہ ہے کہ شاید ان کی یہ قلعہ بندی پھل لے آئے۔ جبکہ حزب اقتدار
اور حزبِ اختلا ف ملک کر رنگ لا ئیں اور کیر ٹیکر حکومت میں پہلے کی طرح اپنے آدمی لے آئیں۔ مگر اس عدلیہ کے دور میں یہ ناممکن ہے۔ کیر ٹیکر کتنا ہی کسی کا ممنونِ ا حسان ہوعدلیہ کی بالا دستی طوعاً یا کریہہً تسلیم کرے گا کیونکہ وہ کسی کے لیے توہینِ عدالت میں جیل جا نا کیوں پسند کریگا۔ کہ وہ ایک سنیٹر صاحب کی طرح سر سے پیر تک ایسا کرکے نہال ہو جا ئے ؟ کیونکہ یہ مربی تو کام نکلنے کے بعد منہ پھرلینے کے عادی ہیں۔
اگر چیف جسٹس صاحب اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرکے اسے معاف نہ کردیتے تو وہ بیچارہ سینٹری سے توگیا تھا ہی،روٹی سے بھی چلا جاتا؟ پاکستان کے عوام کوشکر گزار ہونا چاہیے اس پروردگار کا جس نے کہ ایک چیف جسٹس نہیں بلکہ ان کے ساتھیوں کی ایک پوری ٹریل عطا فرمادی ہے جو مستقبل میں کئی سالوں تک موجودہ چیف جسٹس کی ہی پیروی کرتے رہیں گے۔ کیونکہ وہ جو اب تک فیصلے کرتے رہے ہیں وہ سب نظیر بن کرPLDمیں شامل ہو جائیں گی؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ جس سے جوچاہے کام لے اسے توفیق دیکر نوازے؟ ع یہ اس کی دین ہے ،جسے پروردگار دے؟ ۔کہ قرآن میں اپنے نبی (ص)سے فرماتا ہے۔ کہ تم دشمن کو معاف کر کے تو دیکھو وہ تمہارا دوست بن جا ئے گا،مگر ایسا صرف جواں مرد ہی کرتے ہیں ۔ اس معاملہ میں انہوں نے حضور(ص) کے اسوہ حسنہ پر عمل فرماکر قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کردی ہے؟ وہی کرکے دکھایا۔ جیسا کہ حضور (ص) نے اپنے دشمنوں کو معاف کر کے دکھایا تھ اوراپناانہں جانثار دوست بنالیا تھا، مگر اس دور میں حیا ء تھی اب اس دور میں وہ ناپید ہےاور اب صورت حال یہ ہے کہ جو حضور (ص) نے ایک حدیث میں فرمایا کہ “ تو حیاء چھوڑ دے پھر جوجی چاہے کرتا پھر“اسی کو علامہ اقبال ؔ یوں کہہ گئے ہیں کہ“ ع پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کاجگر مرد ناداں پر کلام نرم نازک بے اثر ۔ آئیے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعاکر یں کہ وہ اسی طرح ہم پہ مہربان رہے اور پاکستان کواور اس کے بچانے والوں کو لٹیروں کے شر سے محفوظ رکھے ۔(آمین)کیاکوئی پختونوں کی فریاد بھی سنے گا۔۔۔ شمسؔ جیلانی

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.