اورپاکستان کے سر سے ایک بڑا خطرہ ٹل گیا؟ وہ خطرہ کیا تھا وہ میں نوازشریف صاحب کی قائم کردہ روایت کی پیروی نہ کرتے ہوئے بتاؤنگا نہیں! اس لیے کہ میں صرف حضو(ص) ک پیرو کار ہوں جن (ص)کی پیروی کرنےکا حکم قرآن میں ہے۔ دوسرے یہ کہ قومی راز سے دشمن فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ ملک جس خطرے سے بچا ہے اس مشکل میں وہ دوبارہ پڑ سکتا ہے؟ میں نے اپنے پچھلے ایک کالم میں یہ لکھا تھا کہ ہے کوئی جو پختونوں کی فریاد سنے وہ سب کی فریاد سننے والے نے سن لی اور وہ بل پارلیمان نے پاس بھی کردیا اور اب وہ ایکٹ بن گیا اب تک کی خبر ہے کہ وہ بخیر خوبی سنیٹ سے بھی پاس ہوگیاہے امیدہے کہ وہ تمام مراحل سے گزر کر دستور کی ترمیم نمبر 31 بن کر انشا للہ جلد ہی دستور کاحصہ بن جائے گا؟ میں فاٹا والوں کو اس پر مبارکباد اور مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آج انہوں نے یوم تشکر منالیا ہے یعنی دورکت نوافلِ تشکر ادا کرلئے ہیں تو ٹھیک ہے کہ جمعہ تھا۔ ورنہ اگلے جمعہ کو یوم تشکر منائیں جیسے مسلمان مناتے ہیں تاکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ان کو مزید نوازے اس لیے کہ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر (7) میں یہ اس کا وعدہ ہے وہ پوراکرے? جسکا جز میں آگے پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں کہ‘‘۔۔۔ تم جنتاشکر کروگے اتنا زیادہ دونگااور اگر کفر (ناشکری) کرو گے تومیرا عذاب بھی یقیقاًشدید(سخت) ہے۔ کیونکہ اور کسی نے سنی یا نہ سنی مگر اس نے تمہاری سن لی اور وہ بل معجزاتی طور پر پارلیمان سے پاس ہوگیا؟ جس کی اس پارلیمان سے کوئی امید نہیں تھی؟ اورتمہیں پاکستانیوں کا درجہ مل گیا۔ تم جو کہ پاکستانی ہوتے ہوئے اپنے حقوق سے محروم تھے۔ اب بقیہ پاکستان کے ساتھ ترقیاتی کے دھارے شامل میں ہوگئے ہو؟ ہم نے اُسی کالم میں عوام سے فیصلہ چاہا تھا؟کہ جو پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ قابل تحسین ہیں یاوہ پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہیں جو ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں؟ ہمیں تشویش یوں تھی کہ ہمیں اس مسئلہ کاپس منظر معلوم تھا جوکہ نئی نسل کو نہیں معلوم ہے اور مسئلہ کے الجھے رہنے کے خوفناک نتائج بھی نکل سکتے تھے ،ہم ڈررہے تھے کہ ہمارے دوست نما دشمن اس سے فائدہ نہ اٹھا جائیں؟ اورکہیں ہم اپنے غلط رویہ سے ا پنے بھائیوں کے ساتھ نا انصافی کے مرتکب ہوکر انہیں ناراض نہ کردیں؟ اور یہ معاملہ جوں کا توں الجھا رہ جا ئے جو 71 سال سے الجھاہوا تھا۔اور دشمنوں کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل جائے جس کوکہ قائدآعظم نے اپنی فراست سے 1947 میں وقتی طور پر حل کردیا تھا؟
جبکہ وہ لوگ جن کی اسمبلی میں اکثریت ہے وہ اپنی راج ہٹ پر اڑے ہوئے تھے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان انہیں کووراثت میں ملا ہے؟اور اس پر حکومت کرنے کاصرف انہیں ہی کو حق حاصل ہے؟جبکہ وہ اپنا حکومتی ریکارڈ اتنا صاف رکھتے ہیں کہ سبحان اللہ؟ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ“ چونکہ وہ قائد اعظم کی مسلم لیگ کے مجاور ہیں لہذا صرف انہیں کو پاکستان پر حکومت کرنے کا حق ہے۔ جبکہ اوروں کو نہیں ۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ قائد اعظم جس مسلم لیگ کے صدر تھے وہی ابھی تک چلی آرہی ہے۔جبکہ ان کی مسلم لیگ کے ساتھ‘‘ ن‘‘ لگاہوا ہے جو کہ خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ مسلم لیگ کے نام پر بنایا گیا وہ دھڑا ہے جو کہ جب جناب نواز شریف صاحب سیاست میں لا ئے تو انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ سابق اور حاضر مسلم لیگیوں کو جمع کرکے اپنے نام سے مسلم لیگ بنا لی تھی؟ پہلےاگر اس میں کوئی اس زمانہ کا مسلم لیگی تھا بھی، تو وہ اب نہیں ہے؟ کیونکہ عملی طور پر اب یہ قومی جماعت نہیں رہی بلکہ خاندانی جماعت بن چکی ہے۔ان کے علاوہ بھی جو دھڑا ہے وہ بھی یہ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ میری والی مسلم لیگ قائد اعظم والی مسلم لیگ ہے۔ وہ بھی عمداً یا سہواً جھوٹ بول رہا ہے۔ اگر سہو اً بول رہاتو اپنا ریکا ڈدرست کرلے اور آئندہ نہ کہے؟ اگر قصداً بول رہا ہے تو پھر وہ بہت بڑی غلطی کررہا ہے۔ اس لیے کہ کوئی عدالت میں چلا گیا تو وہ“ صادق اور امین نہیں رہے گ“اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں وہ اپنی سیٹ کھو بیٹھے گا؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم جس مسلم لیگ کے پاکستان بنتے وقت صدر تھے وہ آل انڈیا مسلم لیگ تھی؟ جس کے پہلے صدر سر سلطان محمد آغا خان تھے؟ وہ بھی قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعدتحلیل کردی تھی یہ فرماکرکہ“ مسلم لیگ کا مقصد حاصل ہوگیا اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی‘‘ اس کا ثبوت وہ خبر اور پوسٹر بھی ہیں جس پر قائد اعظم اور لیاقت خان کے دستخط بطور صدر اور سکریٹری جنرل تھے۔جو مجھے لفظ بہ لفظ تو یاد نہیں مگر لب لباب یہ تھاکہ‘‘آل انڈیامسلم لیگ کا جو مقصد تھا وہ حاصل ہوگیا ہے ہم اسے تحلیل کر رہے ہیں۔ پاکستان بن گیا ہے اب ہم وہاں جارہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانو!اب تم ہندوستان کے وفادار رہو! خدا حافظ‘‘ جو کہ ہر دیوار پر چسپاں تھا اور اس وقت کے مسلم لیگی اخبارات جنگ او رانجام دہلی اور تنویر لکھنؤ میں بھی شائع ہوا تھا جو کہ مسلم لیگ آرکائی میں موجود ہونا چاہئے۔ انجام تو اپنی خود دااری ی کی وجہ سے پکستان سے شائع ہوکر بند اورتنویر بھی چودھری خلیق الزماں مرحوم کے پاکستان جانے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ شاید جنگ کے مالکو ں سے بھی وہ ثبوت مل جائے۔اگر کوئی کسی وجہ سے وہ ریکارڈ نہ دینا چاہے۔ تو عملی ثبوت انڈیا کی پارلیمان کے ریکارڈ سے مل جائے گا؟ کیونکہ آل انڈیا مسلم لیگ بعد میں بھی باقی رہی اس کے صدر کے حیثیت سے اسمٰعیل صاحب کا نام آتا رہا، جبکہ مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کا لیڈر شہید ملت لیاقت علی خان چودھری خلیق الزماں مرحوم کو منتخب کرواکر آئے تھے۔ دوسرا ثبوت یہ ہے کہ آل ا نڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے اسمٰعیل صاحب کانام آنے لگا جو کیرالا سے تھے او ر ہندوستان کے کئی انتخابات تک وہ مسلم لیگ کے صدر بھی رہے اور ان کے علاقہ سے ہمیشہ تین مسلم لیگی ممبر بھی منتخب ہوکر انڈین پارلیمنٹ میں برابرآتے رہے۔ جبکہ یہاں مسلم لیگ کے صدر شہید ملت لیاقت علی خان قائد اعظم کے انتقال کے بعد مسلم لیگ بنا کر بنے تھے؟ پھر یہ روایت قائم ہوگئی کہ ہر مسلم لیگی وزیر اعظم مسلم لیگ کا صدر بھی بنتا رہا۔اس کے بعد اس کو بھی اسکندر مرزا کی راتوں رات بننے والی ریبلکن پارٹی نے نقب لگاکر،اس کا عدم اوروجود برابر کردیا ؟
لیکن میاں ممتاز دولتانہ نے جو اس وقت صدرِ مسلم لیگ تھے انہوں نے اسے زندہ رکھا۔ پھر ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹ کر دستور توڑ کرکے تمام سیاسی جماعتوں کو کل عدم قرر دیکر مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ کچھ دنوں کے بعد انہیں بھی سیاستدانوں کی ضرورت پڑی تو انہیں نے ایک کنوشن بلاکرمسلم لیگ بنالی، جس کے کنوینر چودھری خلیق الزماں بنے۔ بعد میں ایوب خان خود صدر بن گئے۔ ان کے زمانے میں دوبارہ اسی مسلم لیگ نے کچھ زور پکڑا جو کہ کونسل مسلم لیگ کہلاتی تھی۔ ا ور اس کے ٹکٹ پر محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف الیکشن بھی لڑا۔ پھر جنرل یحیٰی خان آگئے۔ متحدہ پاکستان میں انہوں نے آخری اور پہلے الیکشن ایمانداری سے کرائے؟مگر اس الیکشن میں ممتاز دولتانہ کی مسلم لیگ جو کنونشن مسلم لیگ بننے کے بعد سے کونسل مسلم لیگ کہلاتی تھی وہ بری طرح ہار گئی۔ عوامی لیگ کو ایسٹ پاکستان میں اور پی پی پی کو ویسٹ پاکستان میں اکثریت ملی نتیجہ میں ملک ٹوٹ گیا؟ کیوں؟ اس لیے کہ اس وقت تک مسلمان اسلام کے دو نوں سنہری اصول‘‘ عدل اور اخّوت‘‘چھوڑ چکے تھے۔ جس نظریہ پر پاکستان بنا تھا؟ میاں ممتاز دولتانہ کو بھٹو صاحب نے ہائی کمشنر بناکر لندن بھیجدیا۔ اس کے بعد وہ مسلم بھی ختم ہوگئی۔
ان دونوں مسلم لیگوں کی کوکھ سے بہت سی مسلم لیگیں بنیں جن میں سے کسی کا شجرہِ سیاست قائد اعظم والی مسلم لیگ سے نہیں ملتا ہے، جو ہندوستان میں رہ گئی تھی۔ اِس وقت بھی تین مسلم لیگ پارلیمان میں ہیں؟ ایک نواز شریف صاحب کی اور دوسری چودھری بردران کی اور تیسری جنرل ضیاء الحق والی۔ جبکہ پارلیمان سے باہر اور بھی بہت سی ہیں۔کہتے سب یہ ہی ہیں کہ“ قائد اعظم والی اصل مسلم لیگ میری والی مسلم لیگ ہے؟ جبکہ قائدِ اعظم نے پاکستان آکر اپنی کوئی پارٹی،نہ ہی بنائی اور نہ ہی ان کی پارٹی تھی؟ کیونکہ ان کے پاس جو عہدے تھے ان کی پہلی شرط غیر جانب دار ہونا تھا۔ اور وہ تھے بھی ایمااندار نسان اس لیے وہ ہیر پھیر نہیں کرسکتے تھے؟ ورعہدے یہ تھے (۱) پارلیمان کی صدارت جوکہ اس وقت دستور ساز اسمبلی کہلاتی تھی جسے منتخب عوام نے اپنی پارلیمان کے لیے چناتھا، دوسرے گورنر کا جنرل کا عہدہ۔
یہ با لکل ایسا ہی ہے کہ آپ حیدر آباد سندھ چلے جائیں تو وہاں کی‘‘حاجی صاحب کی ربڑی مشہور ہے‘‘ جبکہ ربڑی کی لاتعداد دکانیں روزانہ کھلتی اور بند ہوتی رہتی ہیں۔ مگر جس سے بھی پوچھیں گے وہ یہ ہی کہے گا قدیم دکان میری ہے اور اصلی حاجی صاحب یہ رہے جو‘‘ گلے بیٹھے ہیں‘‘ باقی سب جعلی ہیں۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے