ڈا کٹر طاہرالقادری صاحب یوں تو جذباتی آدمی ہیں، جبکہ ہر مذہبی آدمی کو انتہائی حلیم اور صابر ہونا چاہیئے کہ یہ ہی اسوہ حسنہ(ص) ہے۔لیکن اس مرتبہ جو انہوں نے الیکشن کابا ئیکاٹ کیا ہے اور اس کی وجہ جو انہوں نے بتا ئی ہے کہ پہلے احتساب پھر انتخاب اس بات میں وزن ہے؟ چونکہ ہمیں حکم ہے کہ جہاں سے بھی کوئی اچھی بات ملے وہ لیلو اور یہ نہ دیکھوکہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ قوم اگر اس کو ماننے کا فیصلہ کرے تو وہ یہ بھی تو بتا ئیں کہ اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اور احتساب کے لیے اس ملک میں وہ مشینری اتنی بڑی تعداد میں کہاں سے میسر ہوگی جو احتساب کرنے والوں کے ہاتھ پاؤں بن سکے؟اگر وہ یہ راز بھی بتلادیں تو ہمیں یقین ہے کہ چیف جسٹس صاحب جن کی طرف پوری قوم ہر معاملہ میں دیکھتی ہے ضرور ان کی رائے کو اہمیت دیں گے اوران سے اس سلسلہ مدد بھی چاہیں گے اور اس سے فائدہ بھی اٹھائیں گے؟ کیونکہ وہ ہر اس آدمی کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں جوکہ ملک کی بہتری کے لیے کوئی اچھی تجویز پیش کرے؟یا وہ منصوبے جو سیاست گردی کے نتیجہ کے طور پر رکے ہو ئے ہوں ان کی نشاندہی کرے تو وہ ان پر فوراًکام شروع کروادیں؟ کیونکہ وہ ملک کے عوام کے لیے ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں؟مگر اس وقت ملک کے باشندوں کا جو اخلاقی معیار ہے،اس میں جو اچھوں کی تعداد ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے لہذا ایسی مشینری فراہم کرنا جو ئے شیر لانے سے کم نہیں ہے؟
جب تیس سال پہلے ہم وہاں تھے تو اخلاقی حالت اتنی پست نہیں تھی، اس میں جتنی ترقی ان گزشتہ تیس سالوں میں ہوئی ہے اس کا جواب نہیں ہے۔ اس وقت کا ہم ایک واقعہ آپ کو سناتے ہیں کہ ہمارے دوست جو اس مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جس کے رکنیت کا معیار تقویٰ تھا۔ ایک دن ہمارے پاس آئے کہ ایک شخص فلاں شخص پر بڑا ظلم کر رہا ہے اس کی آپ مدد کریں؟ ہم نے کہاکہ ہم اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو ظالم کے خلاف ضرورمدد کی جائے؟ لیکن مولانا ہمارا طریقہ یہ ہے کہ کسی کی مدد کرنے سے پہلے ہم خود محلے میں جاکر تحقیقات کرتے ہیں کہ وہ ظالم ہے یا مظلوم ہے؟ کیونکہ یہ ہمسایوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا ہے؟۔ہمیں آپ پر اعتبار ہے آپ اگر محلے میں جاکر اور تحقیقات کرکے ہمیں اطمینان دلادیں تو ہم مدد کرنے کو تیار ہیں۔ جب وہ واپس آئے تو بہت شرمندہ تھے۔ کہنے کہ جیلانی صاحب وہاں جاکر کے پتہ چلا کہ ظالم تو وہ خود ہی ہے، جس کی میں نے سفارش کی تھی۔ میں نے کہا مولانا اس دور میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اگر میں آپ کی بات مان کر اس کی مدد شروع کردیتا تو ہم دوں نو ظلمِ ِ ناحق میں شریک ہو جاتے اور وہاں ہماری پکڑ ہوتی؟ یہ تھی اسوقت کی بات اب توپانی سر سے گزر چکا ہے؟اِس وقت جو بھی انصاف کے لیے اٹھے گا تو وہ یقینااللہ والاہے؟ کیونکہ نہ وہ خود محفوظ ہے نہ اس کا خاندان محفوظ ہے نہ عزت اور آبرو محفوظ ہے سب خطرے میں ہے؟ جہاں ٹارگیٹ کلنگ ہوتی ہو، جہاں کرایہ کے قاتل ملتے ہوں؟ ایسے ماحول میں کچھ کرنے والے کا ایمان اس آیت پر کتنا پختہ ہوگا آپ خود سوچ لیجئے؟ جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ‘‘ ہم اپنے نبی (ص)اور اپنے بندوں کو ہمیشہ غالب کرتے ہیں‘‘
جبکہ میڈیا اور عوام کا دونوں کا عالم یہ ہے کہ وہ بہ یک وقت ظالموں کی بھی حمایت کرتے ہیں اور مظلوموں کی بھی؟ یہ ان ظالمو کے لیے بھی وہی معیار چاہتے ہیں جو کبھی سچ نہیں بولتے؟ اورجو ان کے خلاف گواہی دے اس کا سرنہیں بچتا، جبکہ عدالتیں فیصلہ یا تو گواہوں کے بیان پر کرتی ہیں یا ستاویزی ثبوت پر جب دونوں چیزیں نہ ملیں تو عدالتیں کیا کریں؟ اس پر ظلم یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہاں مجرم حیلے بہانوں سے انصاف کو سالوں ٹالتے رہتے ہیں اور بلا وجہ عدالتوں کاوقت جہاں تک ہوسکے ضائع کر تے ہیں؟
آپ کے سامنے اس سلسلہ کا یہ تازہ واقعہ ہے کہ کورٹ نے فیصلہ سنانے کے لیے تاریخ 6 جون مقرر کردی ہے؟ مگر اسے بھی ملتوی کرنے کے لیے یہ موقعہ غنیمت جانا گیا کہ کورٹ سے درخواست کی جا ئے کہ وہ ایک ہفتہ کے لیے فیصلہ ملتوی کردے؟ کیونکہ ان صاحب کی خواہش ہے کہ وہ اس وقت تک وہاں رہیں کہ جب تک وہ اپنی شریک حیات سے دوباتیں نہ کرلیں؟ دوسرے یہ کہ وہ بقول ان کے ڈکٹیٹر نہیں ہیں جو بھاگ جائیں؟ وہ فیصلہ کورٹ میں حاضر ہوکر سننا چاہتے ہیں اگر عدالتِ وقت ان کی مرضی کے مطابق دن مقرر کردے تو؟ جبکہ فیصلہ کے بارے میں وہ اور ان کے حواری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں انصاف کی امید ہی نہیں ہے؟ مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے کورٹ کے سامنے سوائے موشگافیوں کے کوئی اپنے حق میں میں ثبوت ہی نہیں پیش کیا جبکہ نیب کے قانون میں بار ثبوت ملزم کے سر ہوتا ہے؟ رہی شریکِ حیات سے بات کرنے کی بات، وہ اس دن سے دہر ارہے ہیں جس دن سے دودن کی کورٹ سے اجازت لیکر گئے تھے، یہ ایسی خواہش ہے کہ جو انسانوں کے ہاتھ میں تو ہے نہیں؟ صرف خالقِ کا ئنات کے ہاتھ میں ہے، اس کے لیے وہ بقول ان کے دعا بھی مانگ رہے ہیں؟ جبکہ اس نے جتلادیا ہے کہ وہ دعا کس کس کی قبول کرتا ہے اور قبولیت کے لیے اس کی شرائط کیا ہیں؟ان میں دوشرطیں تو لازمی ہیں‘‘ حلال کھانا اور سچ بولنا‘‘ اس کے بغیر وہ فرماتا ہے کہ‘‘ تم دعائیں کروگے مگر دعائیں قبولیت کے درجہ کو نہیں پہونچیں گی‘‘۔ الیکشن کا وقت جب بھی آتا ہے عوام ووٹ دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ کس نے کون کون سے جھوٹ بولے تھے۔ کیا کیا جھوٹے وعدے کیئے تھے؟ حدیثِ مبارکہ ہے کہ‘‘ مومن ایک راستہ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا‘‘ اور وہاں روز ڈسے جاتے ہیں؟ اس لیے کہ ہم مسلمان سب سے زیادہ لالچی ہیں،لالچ ہم پرقابو پا لیتا ہے؟ ورنہ چھلنی کے بجا ئے دودھ دوہنے کے لیے کوئی ایسا برتن منتخب کرتے،جس میں چھید نہ ہوں؟ ورنہ لوگوں کا ہمیں مورکھ کہنا بجا ہوگا۔
آج کی خبر یہ ہے کہ خدا کاشکر ہے کہ پہلی دفعہ کسی سیاسی ملزم کو بد عنوانی کے جرم میں سزا ملی ہے اور وہ بھی قید با مشقت، ہمیں یقین ہے کہ الیکشن میں لوگ جذبات کے بجا ئے عقل سے کام لیں گے ا ور باتوں میں نہیں آئیں گے۔ بس ووٹ اچھے لوگوں کو دیں گے،اگر اچھے نہ ملیں تو تھوڑے خراب بھی چلیں گے ،کیونکہ وہاں اب کوئی چیز خالص نہیں ملتی ہے انشا ء اللہ اگلے ا نتخاب تک یہ جنسِ نایاب بازار میں ملنے لگے گی؟ مگر عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسوں کو ووٹ نہ دیں جو کھائیں بھی اور غرائیں بھی؟ مجھے امید ہے کہ عوام عقل سے کام لیں گے؟میں نے ا پنے انہیں کالموں میں پہلے لکھا تھا کہ‘‘ ابھی یا پھر کبھی نہیں‘‘ اللہ نے وہ حالات پیدا کردیے کہ جن کی امید نہ تھی کہ پیرانِ تسمہ پاسے جان چھٹنے والی ہے؟ اب دوسرے سیاستداں بھی عبرت پکڑیں؟ اور خودکو سدھار لیں؟ اس سے پہلے کہ اس کی پکڑ میں آجائیں؟ میں اپنی بات اس قطعہ پر ختم کرتا ہوں؟
جو دودھ دوہو ئے ہے چھلنی میں وہ مورکھ ہے کہلا ئے
اپنے پرائے سب ہی کو سیں اور وہ نکّو ہے بن جائے
پاس نہ ہو گر اس کے اپنی بدھی توعقل کہاں سے لا ئے
جو بندہِ تکبر پاپی ہواورظلم کرے ، کون اسے سمجھائے
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے