ووٹ جھوٹوں کو جو دوگے، دکھ سہوگے۔ شمس جیلانی

پاکستان میں جھوٹ ایسا جڑ پکڑ کر تن آور درخت بن گیا ہے، خصوصا سیاست میں کہ“ کوئی اسے معیوب نہیں سمجھتا ؟ ہر جھوٹا دوسرے کو جھوٹا کہتا ہے؟کوئی بھی اپنے گریبان میں منہ ڈالکر نہیں دیکھتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور خود کیا کررہا ہوں؟ لیکن ہمیں دکھ جب ہوتا ہے کہ جب کوئی کہے کہ عدالت نے نا انصافی کی ہمیں جھوٹا قرار دیااور ہمارے مخالف کو بری کردیا اس لیے کے وہ لاڈلا ہے؟ جب کے جو کہہ رہے ہیں 36 سال تک خود کسی کے لاڈلے رہے ہیں، یا ہمیں ناحق سزادی؟ رہے عوام ان کو مسائل میں اتنا الجھایا ہوا ہے کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ تحقیق کر سکیں کہ وہ کس جرم کی سزا بھگتے رہے ہیں؟ لہذا وہ اپنی لاعلمی کی بناپر ظالم کو بھی مظلوم سمجھنے لگتے ہیں ؟ جبکہ آج کا دور وہ دورہے کہ اگر آپ گھر پر ہی بیٹھے رہیں اور صرف ٹی وی پر سیاسی ٹاک شو دیکھتے رہیں۔تو کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ چند موٹی موٹی باتیں ہم بتائے دیتے ہیں۔ جھوٹ کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ خود بولنے کو بھی یاد نہیں رہتا کہ کل اس نے کیا بولا تھا اور آج کیا کہہ رہا ہے؟اور کوئی اگر اجتمائی طور پرجھوٹ بول رہا ہو تو ایک شخص ایک بات کہے گا اور دوسرا دوسری ؟اس لیے ان کے بیانیہ میں آ پ کو یکسانیت کہیں نہیں ملے گی؟ اس دور میں جبکہ ہر بات منہ سے نکلتے ہی ریکارڈ ہوجاتی ہے جو پھر بھی جھوٹ بولتے ہیں بڑی جرات کام کرتے ہیں۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہیئے جو جھوٹ بولنے پر سب سے بڑاایوارڈ دے؟ وہ بھی دوسرے اعزاز یافتہ لوگوں کی طرح سینہ ٹھونک کر کہہ سکے کہ “ میں سب سے بڑا جھوٹا ہوں“ ہمارے خیال میں اعزاز کا نام “ کذابِ اکبر “ ہونا چاہئے ؟
کیسے کیسے جھوٹ بولے جاتے ہیں وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر؟ اگر پرانی باتیں میں دہراؤں تو ممکن ہے کہ عوام کی یاداشت میں اب نہ ہوں لہذا میں الٹے پیر چلتا ہوں تاکہ یاد تازہ ہوتی رہے؟ جیسے کہ لوگ بڑوں کے دربار سے الٹے پیر واپس آتے ہیں اور اسے گاڑھی ااردو میں رجعتِ قہقری کہا جاتا ہے؟
ایک صاحب جن کے اوپر بہت سے الزام تھے۔ انہیں صرف ایک چھو ٹا سا کام کر نا تھا کہ وہ ذریعہ جس ذریعہ سے ادا ئیگی ہو ئی تھی وہ عدلیہ کے سامنے پیش کردیں اور باعزت بری ہوکر گھر چلے جائیں۔ مگر وہ دوسال ا ور نو مہینے تک صر ف عدالت کو گھماتے رہے اور قوم کا پیسہ اور وقت برباد کرتے رہے؟لیکن عدالتوں نے انہیں کچھ نہیں کہا؟ اس لیے کہ عدلیہ پرالزام لگ جاتا کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیئے جا رہے ہیں اور ملزموں کو صفائی کا پورا موقع نہیں دیا گیا؟ بالکل آخری مرحلہ پر جب انہوں نے اپنی بیمار بیوی سے ملنے کی اور بیٹی نے ماں سے ملنے کی اجازت چاہی تو وہ دیدی گئی ؟ جو کہ دو دن سے بڑھ کر لا منتاہی مدت کی طرف چلنے لگی؟
کہتے ہیں کہ سو سنار تو ایک لوہا ر کی؟ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے فیصلہ لٹکا رہے گا جب تک وہ چاہیں؟ مگر عدالت نے نہ صرف فیصلہ سنادیا بلکہ اس کو مشروط بھی کردیا کہ “پہلے خود کو سرینڈر کرنا پڑے گا پھر اپیل کی اجازت ہوگی“ اب واپس آنا انکی مجبوری تھا کیونکہ پھرا نکا یہاں کچھ نہیں بچتا اور سب ضبط ہو جاتا؟ تو اعلان ہوا کہ میں پاکستان کے عوام کے لیے آرہا ہوں؟ اور جوا کہتر سال سے ہوتا رہاہے۔ ان نا انصافیوں کوکو دور کرنے کے لیے آرہا ہوں سب سڑکوں پر نکل آئیں؟ ایمانداری کا تقاضہ یہ تھا کہ وہ کہنے سے پہلے سوچتے کہ انہیں سیاست میں کون لایا پھر اپنے چھتیس سال اکھتر سال میں سے نکالتے پھر کچھ کہتے؟
وجہ یہ تھی کہ ان کا منصوبہ کچھ اور تھا ؟ دوسرے وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ پاکستان پہنچنے پر عموام کا طوفان ان کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود ہوگا؟ اور وہ ہیرو بن جائیں گے، مگر ہوا الٹ ؟ کہ لوگ گھروں سے نہیں نکلے ۔ اوروہ بہت آرام سے جیل پہنچا دیئے گئے؟
اس کا کریڈٹ صوبائی اور مرکزی نگراں حکومتوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی خداداد فراست سے پاکستان کوا یک بڑی تباہی سے بچا لیا؟اور انکی یہ حسرت دل میں رہ گئی کہ یہاں وہ کچھ ہو،اور ان کے دوست مدد کو آئیں جس کی دبے لفظوں وہ پہلے ہی دوبار دھمکی دے چکے تھے؟ ادھر جانثاروں کا عالم یہ تھا کہ جو لاہور سے باہر تھوڑے سے لوگ نکلے تھے انہیں نکلتے نکلتے ااتنی دیر ہوگئی کہ وہ راستہ سے ہی واپس چلے گئے، یاپھر شہروں کے مقامی لیڈر شہروں میں ہی انہیں گھماتے رہے اور اپنی الیکشن مہم مکمل کرکے وہیں سے نیں کھانا کھلاکر رخصت کردیا؟
جو جانثار اعظم لاہورمیں تھے وہ ہوائی ڈے تک پہنچ ہی نہیں سکے ؟ جبکہ جہاز آیا بھی دو گھنٹے لیٹ ؟ اس میں تین روایتیں ملتی ہیں؟ ایک تو یہ ہے کہ جلوس اتنا بڑا تھا جو آگے برھا ہی نہیں ،دوسرا بیان ایک معتبر سابق وزیر کا یہ تھا۔ کہ “یہ تو دودن پہلے ہی فیصلہ ہو گیا تھا ہوائی ڈے پر جانا ہی نہیں ہے“جس کا مطلب یہ ہواکہ لاہور والوں نے اپنے ہی چاہنے والوں کو چکر دیا اور ناحق گھماتے رہے؟ اور ہیرو جیل پہنچ گئے؟ پھرپہلی خبر آئی کہ ان کو چیف سکریٹری صاحب کے حکم پر تمام سہولیات جیل میں دیدی گئیں ہیں جس کی تفصیل طویل تھی؟ پھراس سے بھی عوامی ہمدریاں سمیٹنے کی پالیسی بنی؟ تو خبریں لٹ آنے لگیں کہ بیچاروں کو بیڈ اور بستر بھی نہیں ملے ؟ جانثار ِاعظم نے اس مضمون کا ایک خط صوبائی نگراں حکومت کو لکھ ڈالا؟ وہ بھی ادبی آدمی ہیں جواب دیا کہ آپ جو جیل کی حالت اور جیل مینوئیل بطور حکمراں چھوڑ کرگئے ہیں، وہ ہی فراہم کی گئیں ہیں؟
یہ تھے حالیہ واقعات اب پیچھے کی طرف لوٹتے ہیں ۔ جب بہت پہلے میڈیا کو اس جائیداد کی بھنک ملی تو ان فریقوں میں سے ایک سے پوچھا تو جواب عطا ہوا کہ“ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے نہ جانے کہاں سے میڈیا والے ہماری جا ئیدادیں نکال لا ئے ہیں، میں تو اپنے والد کے پاس رہتی ہوں؟ پھر دونوں صاحزدے آتے ہیں اور کہتے ہیں الحمد للہ یہ فلیٹ ہمارے ہیں، ہمارے دادا نے خرید کر دیے ہیں؟ پھر والد صاحب پارلیمان میں نمودار ہوتے ہیں اور پارلیمان کے سامنے فرماتے ہیں ۔ کہ “ یہ جائیداد ہے جوکہ بچوں کے نام ہے ۔ اور ایک کاغذ لہراتے ہوئے فرماتے ہیں یہ اس کی ادائیگی کا ثبوت بھی ہمارے پاس ہے“ مزید صفائی پیش کرنے کے لیے خود ہی عدالت سے کمیشن بنا نے کی درخواست کرتے ہیں۔ جبکہ حزب اختلاف کہتی رہ جاتی ہے کہ معاملہ پارلیمان میں ہی طے ہونا چاہئے؟ پھر عدالت بھی یہ ہی کہہ کر معذرت کر لیتی ہے ۔ دوبارہ جب وہ مصر ہوتے تو عدالت سماعت شروع کردیتی ہے ۔ وہاں ا پنی صفائی میں وہ کو ئی ثبوت یا گواہ پیش ہی نہیں کرتے؟ سوائے ایک خلیجی ریاست کے شہزادے کے خط کے جوکہ ان کی بھی سنی سناہی باتوں پر مشتمل ہے؟تب عدالت تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد سزا سناتی ہے؟ جس میں ایک نہیں پچیس چارجیز ہیں جن پر فیصلہ دیتی ہے جوکہ 170 زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ مگر کہہ یہ ہی رہے ہیں کہ ہمارے خلاف کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوا، تو پھر ہوا کیا؟ہم اسے یہیں آپ کے لیے بلا تبصرہ چھوڑ دیتے ہیں ، کہ کو ئی بتلا ئےتو ہمیں، بتلائیں کیا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.