ابھی نتخابات پورے بھی نہیں ہوئےکیونکہ صدر کا انتخاب ہونا باقی ہےکہ ہرطرف سے غوغا آرائی شروع ہوگئی ہر ایک مصروف پیکار ہےاور وعدے یاد دلانے پر لگا ہوا ہے؟ چلیئے میڈیا کی تو یہ مجبوری ہے کہ یہ اس کی یہ غذا ہے، اسے اپنے پرگراموں کا پیٹ بھرنا ہے۔ اور آج کے دور میں تین قسم کی میڈیا ہے جبکہ پاکستان بناتھا تو لے د یکر صرف ایک ریڈیو اسٹیشن لاہور تھا جس کی آواز دنیا تک جاسکے؟ باقی جو ریڈیو اسٹیشن تھے ووہ کھلونے تھے جن کی آواز اپنے علاقے سے آگے بمشکل سنی جاتی تھی اور انکی نشریات بھی بہت مختصر تھیں جو نیوز بلٹین تک محدود تھیں۔یا پھر اخبار تھے جن کے صفحات بھی محدود تھے۔ زیادہ تر رات کو12 ببجے تک موصول ہونے والی خبریں ہی ان کی زینت بنتی تھیں؟اس وقت آنے والی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے عوام کو کئی سال لگے تب کہیں جاکر قائد اعظم کاایک جملہ عوام تک پہنچا کہ“ مجھے کیا پتہ تھا کہ میری جیب کے سارے سکے کھوٹے ہیں“ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہوا اس میں عوام تک صرف وہی کچھ پہنچا جو سرکار ی سرپرستی میں تیار ہوئے اسکولوں کے سلیبس میں شامل کر کے عوام تک پہنچا گیا؟مگر آج صورتِ حال قطعی مختلف ہے۔ تعلیم کاتناسب بہت بڑھ چکا ہے۔ میڈیا بہت مضبوط ہوچکا ہے۔ جس میں سے دو کو توکسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ وہ ہیں سرکاری میڈیا اورنجی میڈیا پھر نجی کی بھی دو شاخٰیں ہیں ایک غیر جانبداراور دوسری جانبدار؟ ایسا کیوں ہے؟ اس لیےکہ پوری قوم کامزاج ہی یہ ہے۔ حالانکہ مومن کی پسند اور نا پسند صرف اسلام کے تابع ہونا چاہیئے۔ جبکہ سوشیل میڈیا کو کنٹرول کرنا کسی کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اور اس کے لیے صرف ایک موبائیل فون چا ہیے ہوتا ہے جو ہر بچے کے پاس ہے۔ جس کے ذریعہ ہر خبر کی ویڈیو بن کر دنیا میں ایک منٹ میں پہنچ کر گردش کرنے لگتی ہے۔
اس لیے آج کے دور میں حکمرانوں کو بہت ہی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بات کو کہنے سے پہلے اچھی طرح سوچیں، پھر بولیں؟ورنہ عوام حکومت کی کارکردگی سے جلد ہی مایوس ہو جائیں گے۔ جس سے نئی حکومت کا بچ کر چلنا بہت ضروری ہے۔ لاپرواہی وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ حکومت مجموعہ ہو کئی جماعتوں کا اور بھی مشکل کام ہے؟جبکہ نتخابات کے زمینی حقائق ایسے تھے کہ جماعتوں کو جمع کرنا موجودہ حکومت کو اقتدر تک پہنچنے کے لیے ضروری تھا۔ اس نے انہیں جمع کیا مگر وہ جماعتیں اقتدار میں تو حصہ دار ہیں لیکن وعدوں میں نہ ہی وہ فریق ہیں اور نہ ہی وہ انہیں پورا کرنے کی پابند ہیں ؟
اس صورت حال پر نئے وزیر اعظم کس طرح کنٹرول کریں گے؟ جبکہ نہیں کریں گے تو نتیجہ کیا ہوگا بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ خود دانا اور بینا ہیں؟ سامنے بے رحم حزبِ اختلاف ہے۔ جس میں سے کچھ جماعتوں کا اصول کھانا اور کھلانا تھا۔ اور جنہوں نے اس تیس چالیس سال میں قوم کا مزاج یہ بنا دیا کہ مال کما ؤ، کھاؤ اور کھلاؤ۔ ایسے میں وہ لوگ جو متقی ہیں کیوں سامنے آئیں گے؟ اگر وہ آنا بھی چاہیں تو اقتدار کے ساتھ میں لگے ہوئے بد عنوان لوگوں کی اکثریت انہیں وزیر اعظم تک کب رسائی دیگی؟ ایسے میں اگر حزب اختلاف اسی طرح سرگرم رہی اور وزیر اعظم اپنے دور میں بے را ہ روی کو کنٹرول نہ کر سکے تو کیا ہوگا وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے؟
ہمارے خیال میں اس کا حل وہ حدیث ہے کہ “ اپنے بارے میں کسی کو بدگمانی کا موقعہ مت دو“ اس سلسلہ میں وہ واقعہ بھی مشعل راہ ہے کہ حضور (ص) اپنی ایک زوجہ محترمہ(رض) کے ساتھ رات کے وقت تشریف لے جارہے تھے۔ کہ ایک صحابیؓ کا ا دھر سے گزر ہوا تو حضور(ص) نے ا نہیں روک کر فرمایا کہ یہ میری زوجہؓ ہیں۔ انہوںؓ نے کہا کہ حضور (ص) ہم اور بھلا آپ پر شک کریں گے! حضور(ص) نےفرمایا کہ “ شیطان ہر وقت انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ کبھی اپنے بارے میں بدگمانی مت پیدا ہونے دو“ دراصل سبق تھا امت کے ہر فرد کے لیے؟ کہ وہ اپنے بارے میں کسی کو بھی غلطی فہمی میں مبتلا نہ ہونے دے اور حتی ٰالامکان ایسا کوئی موقعہ نہ آنے دیے کہ جس سے اس کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو؟
اس غوغا رائی کا توڑ یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب ایک حکم جاری فرما دیں کہ کوئی خود کو میرا عزیز، بھائی اور ووست بتائے اور آپ کے پاس کسی بھی کام کے لیے آئے تونہ کریں اورفوراً مجھے اطلاع کریں۔ دوسرے ہرالزام کی وضاحت کے لیئے ایک باخبر بورڈ بنا دیں وہ جواب دے؟ جبکہ وزیرِ اعظم پر الزام ہو تو وضاحت خود فرمائیں؟
دوسرے یہ کہ انسان بہت سی باتیں کہہ جاتا ہے مگر بعد میں اسے پتہ چلتا ہے کہ ان پر پوری طرح عمل کرنا ممکن نہیں ہے؟ یہاں پھر یہ حدیث ہے کہ “ میری امت کی بھول چوک معاف ہے۔“اور قرآن میں ایسی قسمیں توڑنے کا کفارہ بھی ہے۔آپ کے لیے سکوریٹی بہت ضروری ہے آپ کے اپنے لیے بھی، عوام کے لیئے بھی اور اسلام کے لیے بھی اور ان ملازمین کے لیے بھی جو سکوریٹی پر مامور ہیں ۔تازہ مثال سامنے ہے کہ بے نظیر شہید ہوگئیں مگرموردِ الزام بنے سکوریٹی ملازمین ، ان میں سے کئی ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ آپ کو سکوریٹی کے مقررہ کوڈ کے خلاف کام کرنے کی کیسے اجازت دیں گے؟ اس سلسلہ میں اسلام رہنمائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ۔ “جو کر سکتے ہو وہ کرنا لازمی ہے جو نہیں کرسکتے ہو وہاں مجبوری کی وجہ سے رخصت ہے ؟ جب تک کہ وہ مجبوری دور نہ ہوجا ئے“اس کا فیصلہ خود آپ کو کرنا ہے کہ آپ کہاں مجبور ہیں اور کہاں نہیں ہیں، اوروہ خدا کوحاضر اور ناظر جان کرکر نا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپکا حامی اور ناصر ہو اور قدم قدم پر آپ کو کامیابیاں عطا فرما ئے (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے