سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ میں اپنی عمر کے88 سال میں چل رہا ہوں اور میں نے یہاں آنے کے بعد زیادہ تر اپنی زندگی حزبِ ختلاف میں گزاری ہے۔ پاکستان کو بنتے دیکھا ہے، ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کے بنانے میں کیا عوامل کارفا تھےا ور کون ذمہ دار تھا اور اسی طرح یہ بھی کہ توڑنے میں کس نے کیا کردار ادا کیا اور کون کون ذمہ دار تھا۔ مگر بہتر یہ ہے کہ اب ہم سب مستقبل کی فکر کریں ماضی کو ٹٹولنے میں ملے گا کیا؟ دوسرے میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی چاپلوسی اس لیے نہیں کی کہ نہ میں کبھی دولت کا خواہش مند رہا نہ عہدوں کا نہ شہرت کا؟ لہذا جو لکھا سچ لکھا اور جو جیسا تھا اس کو ویسا ہی لکھا! کیونکہ میرے آقا (ص) کا ارشادِ گرامی ہے کہ“ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا؟ جبکہ میرا مشن یہ ہے کہ سارے مسلمانوں کی نجات اس میں ہے کہ وہ حضور (ص) کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرلیں اسی میں فلاح یعنی نجات، عزت عظمت ، خوشحالی سب کچھ ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن کی سورہ احزاب کی آیت نمبر21 میں فرمادیا ہے کہ“ یقینا“ تمہارے لیے رسول(ص) اللہ کے اسوہ حسنہ میں بہترین نمونہ موجود ہے، اس شخص کے لیئے جو آخرت پر یقین رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے ۔ یہ تھا میرا تعارف جو میں نے پیش کردیا؟ اب آئیے حقائق کی طرف ؟
یہ گانا بہت پرانا ہے کہ“ یہ ہم سب کا پاکستان ہے مگر بد قسمستی سے کچھ نے مان کے نہیں دیا “ حالانکہ یہ تاریخی حقیقت کہ اس کو ہم سب نے مل کر بنایا تھا۔ بہت سے وہ لوگ تھے جو اسکے بنانے کی کوششوں میں تباہ اور بر باد ہوگئے۔ وہ وہ ، ہیں جنہیں بے وطن ہونا پڑا اپنے پیاروں سے ہاتھ دھونے پڑے؟ اگر اس وقت جبکہ یہ متحدہ ہندوستان تھا ایک صوبہ یا محکمہ بھی اس کے لیے قربانیاں نہ دیتا تو پاکستان بننا ناممکن تھا اور بننے کے بعد چلنا اور بھی ناممکن تھا؟ دشمنان پاکستان کے یہ ہی اندازے تھے کہ پاکستان اگربن بھی گیا تو چلے گا نہیں۔
لیکن پاکستان کے مسئلہ پر پورے ہندوستان کے مسلمان ایک مٹھی کی طرح متحد ہوگئے؟ تو تاریخ نے اپنے آپ کو دہرا دیا!اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ملک بھی عطا فرمادیا؟ پھر پوری مسلم قوم کے دماغ اور اس کی توانائی اس نو زائیدہ مملکتِ خداد کی خدمت کے لیئے چاروں طرف سے امنڈ آئی، جو جس شعبے میں تھا سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں؟ سب سے پہلے فوج نے سرحدیں سنبھال لیں، سول ملازمین نے اپنی پنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور یہ بھی نہ سوچا کہ تنخواہیں کہا ں سے ملیں گی، بچے ساتھ ہیں کون کہاں رہے گا؟ ریلوے ویگنوں، کیمپوں میں ،جھونپڑوں رہے، اس کے باوجود نہ رشوت خوروں نے رشوت خوری کی، نہ اچکے کسی کا سامان اٹھا کے لے بھاگے، نہ بند گھروں میں لگی ہوئی سرکاری سیلوں کوتوڑا اور نہ کسی نے ان پر ناجائز قبضہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا۔
یہ معجزہ بغیر نبی(ع) کے کیسے رونما ہوا، کیونکہ ہر معجزے کے لیے نبی (ع) ہونا ازل سے ضروری تھا۔ یہ اس لیئے ہوا کہ یہ آخری نبی (ص) کی امت تھی؟ جس کو حضور(ص) تبلیغ سے لیکر اپنا تمام ورثہ اس کے سپرد کر گئے ہیں۔ لہذا جب انہوں نے حضور(ص) کی پیروی کرتے ہوئے دین کے لیے ہجرت کی تو ان میں وہ اخوت بھی آگئی جو مکہ کے مہاجروں (رض) میں تھی جو مدینہ منورہ کے انصار (ص) میں تھی ،اور اپنی رحمت سے ان کی راہ کی ساری مشکلات اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دور کردیں ۔ میں نے اپنے گزشتہ مضمون میں لکھا تھاکہ جب بھی یہ قوم اسطرح متحد ہوئی تو پھر یہ کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لائی؟ یہ ہی وجہ تھی کہ یہ معجزہ اس خطہ کے لوگوں کے ہاتھوں سرزد ہوا؟ پھر کیا ہوا! وہ یہ کہ ہمارے رہنما اللہ سبحانہ تعالیٰ سے کیئے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے میں ہیر پھیر سے کام لینے لگے ؟ جونتیجہ ہونا تھا وہی ہوا کہ سب سے ڈرنے لگے؟ اور حفاظت کے لیے خود کو ایک سپر پاور کی جھولی میں زبردستی ڈالناپڑا؟ کیوں کہ اس وقت صرف دو ہی سپر پاور تھیں۔ ہندوستان کا جھکاؤ ہم عقیدے ہونے کی بنا پرایک سپر پاور کی طرف تھا۔ جبکہ ہمارا عقیدہ کتاب پر تھا، اس لیے ہماری قیا دت کےپاس کوئی اورچارہ نہ تھا۔ اور کسی کی گود میں جانا یوں ضروری تھا کہ اللہ سے کیئے ہوئے وعدے پورے نہیں کیئے تھے۔،اس کی نصرت ان کے ساتھ اب نہیں تھی ،اسی لیے وہ عوام سے بھی چھپتے پھرتے تھے۔ لہذا پہلے کی طرح عوام سے بھی کام نہیں لے سکتے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ جس سپر پاور پرتکیہ تھا اس نے کبھی انہیں برابر کا درجہ نہیں دیا، نتیجہ یہ تھا کہ جو وہ اعلان کردیتے وہ ہمارا اعلان بن جاتا، جو وہ اچھا یا براکرتے وہ بھی ہمارا کار نامہ اس طرح بن جاتا؟ کیونکہ انہوں نے کبھی ہم سے نہ نہیں سنی اور نہ ہی وہ اس کے عادی تھے؟
سترسال کے بعد اب ملک کو وہ قیادت ملی ہے کہ جو کسی سے نہیں ڈر ہی ہے سوائے اپنے رب کےاور عوام کو پہلے کی طرح ساتھ لیکر چلنا چاہ رہی ہےجبکہ پوری قوم سوائے چند مفاد پرستوں کے پہلے کی طرح متفق ہے ۔ کیونکہ قیادت کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اور معاملات میں وہ جبر کی قائل بھی نہیں ہے جو اس سے ثابت ہے۔ اکہتر سال میں ہر خاتون اول بے پردہ نظر آ تی رہی ہے ۔ اب خدا کا کرنا یہ ہوا کہ “ خاتون اول باپردہ ں نظر آرہی ہیں“ کیونکہ قائد اس کا قائل ہے کہ کسی پر کوئی چیز تھوپی نہ جا ئے۔ خاتون اول کا عقیدہ اگر یہ ہی تو ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ آج کے دور خواتین کا نہ ہونا اور بات ہے مگر قیادت کا رویہ قابلِ ستائش ہے۔ اگر اکہتر سال پہلے کے دور میں چلے جائیں تو پہلی خاتون اول بیگم رعنا لیاقت خان برقعے اتروانے کی ذمہ دار ہیں جو کہ پہلے سے ہی نہیں پہنتی تھیں ۔ کیونکہ رعنا لیاقت بننے سے پہلے وہ “مس پنڈت پنتھ “تھیں اس کے بعد دین چونکہ امرا کا چلتا ہے سب نے ان کی روش اپنالی۔ جبکہ اُس دور میں مسلمانوں کے مڈل کلاس اور ایلیٹ کلاس میں سخت پردہ تھا کوئی خاتون بے پردہ نہیں تھیں؟ میڈیا کو ان کاپردہ عجیب لگ رہا ہے؟انہیں دوسرا عتراض یہ ہے کہ یوم دفاع و شہدا ئے پاکستان پر وزیر اعظم نے “فل ا لبدیہہ“ تقریر کیوں کی احتیاط کا تقاضہ یہ تھا کہ وہ حسبِ روایت کسی کی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے؟ تو شاید وہ“ یہ نہیں کہتے کہ پاکستان جس مصیبت سے دوچاروہ ہماری جنگ نہیں تھی اور آئندہ ہم کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے “ وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے انہوں نے کھرے لیڈر نہیں دیکھے ؟ برجستہ بات کرنے والے کی خوبی ہی یہ ہوتی ہے کہ جو وہ زبان سے کہہ رہا ہوتا ہے اس کے اپنے مجموعی تاثرات سے بھی( یعنی باڈی لینگوئج) وہی ظاہر ہو رہا ہورہاہوتا ہے۔ وہ عوام کو اپنے پیچھے اپنی سچائی کی وجہ سے چلاتا ہے اور کوئی دوسرا اسے نہیں چلاسکتا ہے ،تو پھر وہ دوسرے سے ڈکٹیشن کیسے لے سکتا ہے۔ باقی باتوں کو جانے دیجئے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا فر مائیے کہ کل کی تقریب میں جو ہمیں پہلے دفعہ فوج اور سیاستدانو ں میں اتحا د نظر آیااللہ سبحانہ تعالیٰ اسے نظرِ بد سے بچا ئے (آمین) تاکہ پوری قوم اس “ گھوس “سے جان چھڑاسکے جو اندر اندر راستہ بنا کر ملک کی ساری دولت باہر منتقل کر ر ہی ہے ؟ حتیٰ ک کہ وہ اپنے کارخانے بھی یہیں کے بنکوں سے ادھار لیکر چلاتے ہیں ،مگر منافع باہر بھیجنا کبھی نہیں بھولتے کہ وہ اسےوہاں محفوظ سمجھتے ہیں۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے