چاک جنکا کہ گریباں ہے انہیں کیا کہنا؟ شمس جیلانی

جناب عمران خان عجب مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کیا کریں اور کیانہ کریں؟ یہ بالکل اسی طرح کہ ایک مثل جو کہ عوام میں ایک بزرگ کے نام سےمنصوب ہے اور وہ بزرگ ملا دوپیازے کے نام سے عوام میں جانے جاتے ہیں ۔ جبکہ مثل وہ اس طرح ہے کہ انہوں نے اپنے انتقال کے وقت اپنے پاؤں موڑ لیے تھے اوروہ ویسے ہی ٹیڑھے رہ گئے جب ان کو سیدھا کر نے کی کوشش کی جاتی تو سر اٹھ جاتااور جب سر کو تکیہ پر رکھتے تو پیر اٹھ جاتے؟ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ سارا انتظام شہنشاہ اکبر کو ہنسانے کے لیے کیاتھا؟بالکل ایسا ہی انتظام جانے والی حکومت بھی کر کے گئی ہے، دنیاکو ہنسنے اور ہنسانے کے لیے؟ کہ وہ ملک میں کوئی چیز چلتی ہوئی نہیں چھوڑگئی ہے ؟قرضوں کے سوا ،کہ ان کے سود کا میٹر بڑی تیزی سے گردش کر رہا ہے؟ اور اس کو ادا کرنے کے لیے سوائے مزید قرض لینے کے موجودہ حکومت کے پاس اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ہے؟ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کبھی اپنے وعدوں پر پورے نہیں اترے اور انہوں نے ا ن کے ساتھ ملکر حکومت مخالف محاذ بنا یا ہوا ہے جواپنے دور میں کہتے تھے کہ وعدے کوئی قرآن اور حدیث تو نہیں ہیں؟ چونکہ اب سب کا مفاد اسی میں ہے کہ احتجاج کریں، اس لیے کہ یہ انکا آزمودہ نسخہ ہے؟ یعنی پہلے احتجاج سے احتساب ہمیشہ رک جا یا کرتا تھا، جب بھی وہ حکومت کو سب مل کر بلیک میل کرتے تھے، اس لیے پھر وہی آزما رہے ہیں؟ جبکہ موجودہ وزیرآعظم بندے دوسری قسم کے ہیں اور یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ اب کوئی NROنہیں ہوگا؟یہ غلط فہمی مخالفین کو اس وجہ سے ہے کہ ان کو زمینی حقائق کا یا تو ادراک ہی نہیں ہے یا ادراک وہ حاصل کرنا نہیں چاہتے ہیں؟ اوروہ اس دور کو اسی دور پر قیاس کر رہے ہیں جس میں کہ سپر پاورز کومنی لانڈرنگ کی اپنے منصوبوں کو کامیابی سے چلانے کے لیے ضرورت تھی؟ جو اب نہیں رہی۔ جیسے کہ ا نہیں ایک دور میں مجاہدین کی شدید ضرورت تھی اور آجکل وہی شر پسند کہلاتے ہیں؟ لہذا وہ اس وقت اس کارِ خیر میں دنیا کی ہمت افزائی کر رہے تھے۔ اب منی لانڈرنگ کے خلاف نئی قانون سازی اور معاہدات کر رہے ہیں۔ ایسے میں کسی قسم کے مک مکاؤ کا کسی کے ساتھ ہونا ممکن ہی نہیں ہے؟ ہر ایک اپنی جان بچانے کی فکر میں ہے؟ جن میں نوکر شاہی بھی شامل ہے کہ بال بچے دار وہ بھی ہیں۔ جنہیں سابق حکمرانوں نے یہ سوچ کر مراعات اور بڑی بڑی تنخواہیں دیں تھیں کہ وہ عیش کریں اور بر وقتِ ضروت کام آئیں؟ لیکن کوئی بھی کسی کے لیے ایک حد تک توجاسکتا ہے ،مگر اپنے اور اپنے بچوں کی قیمت پر نہیں؟
اب آئندہ چل کر آپ دیکھیں گے کہ اتنے گڑے مردے اُکھڑیں گے کہ انہیں کہیں دفن کرنے کی جگہ نہیں ملے گی؟جبکہ مخالفین ا بھی تک اسی دنیا میں ہیں جبکہ دنیا بدل چکی ہے؟بڑے بھائی کا نعرہ تھا کہ میں پوچھتاہوں مجھے نکالا کیوں؟ انہوں نے جتنا پوچھا اتنے دھنستے چلے گئے آخر جیل جاکر دم لیا؟ اب چھوٹے بھائی کی بار ی ہے اور سب ملکرکہہ رہے ہیں کہ انہیں کیوں گرفتار کیا؟ حالانکہ کہ وہ خود جانتے ہیں کہ انہیںNAB نےکیوں گرفتار کیا؟ وجہ یہ تھی کہ وہ اشرافیہ کے دورِ اقتدار میں NAB کو لفٹ نہیں کرارہے تھے ،بجا ئے ان کے سوالوں کے جواب دینے کہ الٹے ان سے سوال پوچھ رہے تھے اور ساتھ میں ناراض بھی ہوتے تھے کہ روز رووز مت بلایا کرو؟ ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نہوں نے انہیں وہیں رکھ لیا کہ انہیں آنے جانے کی زحمت نہ ہو؟ کیونکہ ان پر عوام اور میڈیا کا دباؤ بے انتہا تھا کہ ہمیشہ کی طرح ٹہلاؤ نہیں کچھ کر کے بھی دکھاؤ؟
دوسری مشکل یہ تھی کہ اب راجا اور پرجا ایک ہی بیج پر تھے اور اس کلیہ پر متفق بھی کہ جب تک چھلنی کے سوراخ اور اس میں سوراخ کرنے والے دونوں بند نہ ہوں گے ملک دیوالیہ ہونے سے نہیں بچ سکتا؟ رہی ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات وہ کوئی شعبدہ باز وقتی طور پر پہلے والوں کی طرح کر کے دکھاسکتا تھا، مگر ویسا آدمی ان کے پاس تھا ہی نہیں؟
اب رہا یہ مسئلہ کہ عمران خان نے وعدے کیوں کئے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے جھوٹ کے پلندوں کو دیکھ کر ؟اس میں اتنے ہیر پھیر تھے اور وہ اتنی اعداد
و شمار کی ماہر تھی کہ کوئی بھی حالت ایسی ابتر نہیں سمجھ رہا تھا؟ جو پردہ اٹھنے اور حکومت بدلنے کے بعد حکومت ملنے والوں کونظر آئی؟ امید ہے کہ عوام اس مجبوری پر تھنڈے دل سے غور کریں گے اور سب ملکر کوشش کریں گے توانشا ءااللہ حل بھی نکل آئے گا، صرف تھوڑانتظار کرنا ہوگا؟
جو بیمار سرکاری ادارے تھے انہیں بجا ئے سدھارنے کے اس پر اپنے آدمیوں کابوجھ جو بھی آیا ااس نے اور بڑھا دیا ؟ جبکہ ملازمین کے احتجاج کے ڈرسے ان اداروں سے جان چھڑانے کے لیے ان کے دور میں کچھ بھی نہیں کیا گیا؟ اور نہ ہی اپنے خرچے کم کیئے ان کے خراجات کا یہ عالم تھا کہ جہاں حکمراں رہتے تھے وہاں توہزاروں آدمی ملازم تھے اور جہاں نہیں رہتے تھے، صرف کبھی لمحہ دو لمحے کے لیے چلےآ تے تھے اس کیلیے پانچ چھ سو آدمی تو تھے ہی تھے؟ اب نئی حکومت وہ خراجات کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو وہی لوگ پھبتیاں کس رہے ہیں کہ دنیا میں بھینسوں کانیلام ،مذاق بنا ہوا ہے؟ یہ پتہ نہیں کہ دنیا اس پہ ہنس ر ہی ہے کہ بھینسیں وزیراعظم ہاؤس میں کیوں تھیں نہ کہ اس پر کہ ان کا نیلام کیوں ہوا۔ اس کو سمجھانے کے لیے میں صرف چھوٹی سی مثال پیش کرتاہوں کہ اگر صورت حال یہ ہو کہ کھانے کے لیے گھر میں دانے بھی نہ ہوں ؟اور قرض اتنا چڑھا ہوا ہو کہ کوئی مزید ادھار دینے کو بھی تیار نہ ہوتو اس گھر کے مالک کی پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ جس شرط پر بھی ملے ا ور جہاں سے بھی وہ پہلے کھانے کے لیے راشن فراہم کرے اور قرضدار جو دروازے پر کھڑے ہیں ان سے اپنی عزت بچائے۔ پھر جو جمع پونجی ہے اسے چوروں سے محفوظ رکھنے کے سامان بھی کرے، تب کہیں جاکر کچھ وقت کے بعد تبدیلی آسکتی ہے ورنہ نہیں؟ رہے باتیں بنانے والے ان سے پوچھیں کہ پیسہ تم نے کہاں خرچ کیا کیوں نہیں سوچا کہ جب سارا کام قرضے پر چلے گا تو پیسہ آئے گا کہاں سے اور ملک کیسے چلے گا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.