خا نصاحب پہلے عفریتوں سے جان چھڑائیں؟ شمس جیلانی

ہم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں عمران خان صاحب کی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ پہلے تولو پھر بولو؟ اب مشورہ یہ ہے کہ پہلے “عفریتوں“ سے جان چھڑائیں ورنہ حاصل کچھ نہیں ہوگا اور حکومت چوزوں میں پھنس کر رہ جائے گی؟ اس قسم کے مشورے دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بقول کسے سیاستدانوں کو سیاست سکھا رہے  جوکہ بطخ کے بچے کو تیر نا سکھا نے کے مترادف ہے؟ ہمارے اس فعل سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سے یہ حماقت باربار سزد ہو کیوں رہی ہے اس لیے کہ ہم اپ کے بہی خواہ ہیں بد خواہ نہیں؟ اور ایک ماہ کے تجربے سے ہم پر یہ ا نکشاف ہوا ہے کہ حکومت میں تجربے کاروں کےبجا ئے زیر تربیت لوگو ں کی اکثریت آگئی ہے! ہمارے اس گمان کی وجہ یہ ہے کہ کبھی حکومت ریورس گیر
استعمال کرتی ہے تو کبھی فاورڈ اور مخالفین کو تنقید کرنے کا موقعہ مفت میں مل رہاہے؟ اس سلسلہ میں ہم حکومت کی صفائی میں یہ کہہ سکتے ہیں جو شروع سے کہتے بھی آرہے ہیں کہ “ بیچاروں کو کچھ وقت تو دو“
جبکہ جہاں کہیں جموریت ہے وہاں یہ بھی رواج ہے کہ جو سیاسی پارٹی بنتی ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ آج نہیں تو کل اسے حکومت ملنا ہے؟اس لیے وہ یہ طریقہ کار ختیار کرتی ہے کہ پہلے ہی سے ہرورکر کی صلاحیت دیکھ کر اس کو پارٹی کی شیڈو کبینیٹ میں وہی عہدہ عطا کردیتی ہے جس میں اسے  “کچھ شد بد“ ہوتی ہے ؟اور ورکر وزیر بننے  سے  پہلے ہی اپنے محکمہ پر پوری دسترس حاصل کرلیتاہے، کیونکہ ہر مسئلہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔ جبکہ کاروبارِ حکومت ہر جگہ نوکر شاہی ہی چلاتی ہے کیونکہ وہ  ہمیشہ  رہتی ہے؟ لہذا ناتجربہ کاری کہیں بھی حائل نہیں ہوتی ؟ مگر پاکستان کی پوری تاریخ میں کبھی کسی نے اس قسم کاتکلف نہیں کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کونسا محکمہ کسے ملے گا؟ بعض ا وقات ایسا بھی ہوا کہ شیروانی سلواکر کوئی لایااور اوپر سے حکم تبدیل ہوگیا؟ اور حلف کسی اور نےاٹھایا؟ کیونکہ وہاں وزارت کے لیے صلاحیت نہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کتنے اراکینِ پارلیمان کا گروہ ہے؟ اس طرح جو بھاری پڑجائے وہ وزیر بنتا ہے؟ نتیجہ یہ کہ علامہ اقبال(رح) کے وہ گدا وہاں بن ہی نہیں سکے  “جنہیں رہ رسمِ کج کلاہی آتی ہو “ بعضے تو ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی میں آنے کے ساتھ ہی حلف اٹھایا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ اب آسرا رہ جاتا ہے صرف پارٹی کے لیڈر میں؟ اور اگر اس نے بھی سابقہ حکمرانوں کی روایات دیکھتے ہوئے اپنے عہدے کا پارلیمان میں بیٹھ کر اور دل لگا کرہوم ورک نہ کیا ہو تو مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں؟ یہ ہی صورت حال اسوقت ہے؟
یہ بہت ہی مشہور فلمی شعر ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب ملاح کو کشتی میں بوجھ زیادہ لگتا ہے تو وہ بوجھ اتارا کرتا ہے۔
اب یہ  لیڈرکی فراست ہے کہ وہ کس بوجھ کو منتخب کرے کہ کشتی بھی ڈوبنے سے بچ جائے اور نقصان بھی زیادہ نہ ہو؟مثلاً ایسے موقع پر چوزوں کو سمندر میں نہیں پھینکتے؟ اس لیے کہ اس سے وزن نہیں گھٹتا ہے بلکہ کشتی پر خوراک کی کمی ہوجا نے کا خدشہ ہے؟ دوسرے چوزے چلا ئیں گے بھی بہت؟
میرے نزدیک پہلی فرصت میں قیادت کو ان عفریتوں کا حل ڈھونڈنا تھا۔ جو اچھی طرح چلتے ہوئے تباہ کی گئیں ؟ جیسے پی آئی اے ، اسٹیل ملز اور ریلوے اور وہاں سے  اس کیوں؟ کا جواب مل جاتا تو حکومت کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا جو اس کے کام  آتا؟ مگر نزلہ گرا سب سے پہلے ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ پر جہاں کہ ہونے والا خسارہ چوزے کے برابر ہے؟ کیونکہ ہزاروں کھربوں کے خسارے کے مقابلہ میں یہ تھوڑاساخسارہ کوئی وزن نہیں رکھتا؟ جبکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی میڈیا سے چھیڑ چھاڑ کبھی نہیں کرتی اور ہمیشہ ان سے بچ کر چلتی ہے۔ یہ کہنا کہ  ریڈیو کی سات منزلہ بلڈنگ کماکر بہت کم دیتی ہے جبکہ خسارہ  چودہ گنا ہے؟ یا یہ کہنا کہ اس کی افادیت ختم ہوچکی ہے ناتجربہ کاری کی دلیل ہے۔ اگر “ برگر گروپ“ کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ تخمینہ درست ہے ؟کیونکہ ان کے ہاں بد قسمتی سے سرونٹ کوارٹرز میں کسی کے پاس ریڈیو ہو تو ہو، ورنہ ان کے تو  ہر بچے کے بیڈروم میں ٹی وی موجود ہوتا ہے؟لیکن اگر اس پر کوئی تحقیق کرے تو یہ ماننا پڑیگا کہ ملک کے جس گوشے میں بھی جا ئیں تو ٹرانسسٹر  دیہات میں ہرکھیت کی منڈیر پر اور شہروں میں ہر ٹھیلے پر اور جھونپڑی میں  بجتا سئائی دے گا؟
دوسرےاس بلڈنگ سے بہت سوں کی تاریخی وابستگی ہے؟  دنیا کےہر ملک میں ایسی عمارتیں آثارات قدیمہ میں شامل کرکے سیاحت کے لیے محفوظ رکھی جاتی ہیں اور ان کے ذریعہ پیسا کمایا جاتا ہے۔ سوائے سعودی عرب کے جہاں سارے آثاراتِ قدیمہ کوبدعت کے نام پر ختم کر کے ہوٹل بنا دیئے گئے ہیں جو کہ زیادہ تر وقف براے اللہ سبحانہ تعالیٰ تھے اور وہ کسی دوسرے کام میں استعمال ہو ہی نہیں سکتے تھے؟ کیونکہ انہیں مسلم والیان ریاست یا روساء نے حاجیوں کے مفت قیام کے لیے بنوایا تھا، مال کمانے کے لیے نہیں؟ شاید وہیں سے یہ لوگ یہ نظریہ لیکر آئے ہوں جو کہ حال میں عمرے کے لیئے گئے تھے۔
ہم نے تین اداروں کا اوپر ذکر کیاہے؟ ان پر تحقیقاتی کمیشن بننا چا ہیئے کہ وہ اچھے بھلے چلتے ہوئے کیوں فیل ہوئے؟ اس سے وہ چہرے سامنے آجائیں گے جو کہ ا ن اداروں کے  “کمپیٹیٹر “ ہیں یا ان پر ضرورت سے زیادہ وزن لادنے کے ذمہ دار ہیں؟ اگر نیب ان پر کاروائی کر سکتی ہے جنہوں نے بجلی گھروں کی راہ میں روڑے اٹکا ئے ؟ تو ان کے بارے  میں کیوں نہیں کرسکتی ہے جو ان کی تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں؟ رہاتجربہ کار اور ناتجربے کاری کا فرق وہ ریلوے میں دیکھ لیں کہ شیخ رشید صاحب اپنی فیلڈ میں تجربہ کار تھے؟ وہ آج کل کہیں نظر نہیں آتے؟ اور اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں؟  نتیجہ یہ کہ انہوں نے ایک ہی مہینے میں ریلوے  میں زندگی کی لہر دوڑادی ؟ مگر میرا ان کو مشورہ  یہ ہے کہ رفتار تھوڑی دھیمی رکھیں برسوں کے کھڑے ہوئے ریک اور بوگیاں پہلے چیک کرالیں پھر لائین پر لا ئیں ؟ ورنہ بوگیوں کے پٹری سے بار بار نیچے اتر نے کی وجہ سے بدنامی ہوگی اور لوگ  ریل کے سفر کو غیر محفوظ سمجھئے لگیں گے؟ میری دعا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے (آمین)

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.