پارلیمان کااجلاس پھر طلب۔۔۔ شمس جیلانی

خبر ہے کہ پارلیمان کا جلاس بلانے کے لیے نون لیگ کے79ارکان نے پھر دستخط کر کے اسپیکر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیئے؟ اور یہ بھی خوشخبری سنادی کہ جب اسپیکر صاحب تاریخ دیں گے تو شہبازشریف صاحب کو پیش کرنے کے لیے نیب کو ہدایت کرنے کی اسپیکر صاحب سے درخواست کی جائے گی؟ اس سے پہلے یہ خبریں میڈیا میں سنی گئیں کہ ایک مرتبہ شہباز شریف کو پیش کر نے پر تقریباً دس کروڑ روپیہ خرچ ہوتے ہیں؟ کیا قوم اس بات پر یہ پوچھ سکتی ہے کہ گزشتہ اجلاس کا ایجنڈہ کیا تھا وہ کونسا کام رہ گیا جوادھورا ہے جس کے لیئے ا سمبلی کا اجلاس دوبارہ بلا نا ضروری ہے؟ اگرا یجنڈے پرحکومت کو صرف گالیاں دینا تھا اور ایک دوسرے پر الزام لگانا تھا وہ 17 تاریخ کو ہی مکمل ہوگیا تھا۔ وہ ملک جوکہ سابق حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اور ایک ایک کوڑی بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وہ کیسے اس کا روا دار ہوسکتا ہے کہ اتنی بڑی اسمبلی کو بغیر کسی ایجنڈے کے روز بلا ئے اور ان سب کی آمد رفت کے کرائے اور الاؤنس دے۔ جبکہ قوم یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہے کہ وہ ایمرجنسی کیا تھی جس کے لیے گزشتہ اجلاس فوراً بلایا گیا؟ کیونکہ پارلیمان بلانے کے لیے اسپیکر کے پاس 14 دن ہوتے ہیں؟
میں پارلیمانی امور کا ماہر تو نہیں ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ پارلیمان کے قواعد میں یقیناً ایسا کوئی نہ کوئی حل ضرور رکھا گیا ہوگا کہ کوئی اسے بلا وجہ نہ بلائے؟ اس لیے یہ ناممکن ہے کہ پارلیمان کے اسپیکر کے پاس صوابدید ی اختیار ات نہ ہوں کہ وہ قومی خزانہ کو لٹنے بچا سکے؟ جو دوسرے لوگ پارلیمان کے تقدس کی بات کرتے ہیں، انہیں بھی اس کا احترام کرنا چاہیے؟ دانشوروں اور اداروں کو بھی جاننا چاہیے کہ ملک کے حالات جس طرف لے جائے جا رہے ہیں؟ کیا یہ راستہ وہی تو نہیں ہے؟ جو کبھی مشرقی پاکستان میں آزمایا گیا تھا، جہاں کے ڈپٹی ا سپیکر شاہد مرحوم کوپارلیمان کی صدارت کرتے ہوئے شہید کردیا گیا تھا۔ یہاں بھی جو کچھ پچھلے دنوں پنجاب اسمبلی ہوا وہ اس کا ایک چھوٹا سامظاہرہ تھا۔ فرق اتنا تھا کہ ا س وقت اسمبلی جگہ اور کردار مختلف تھے اور آج اور ہیں مگر انکے مشیر وہ ہی ہیں جو پہلے تھے۔ جب لوگ زیادتی پر اترآ ئیں تو برا وقت لانے سے پہلے کچھ کرنا بہتر ہوتا ہے، بجا ئے اس کے پانی سر سے گزر جانے کے بعد افسوس کیا جائے؟
اب جوا جلاس کو بلانے کے لیے جواز بن بنا یا گیا ہے کہ ا پوزیشن عوام کے غم میں اتنی پریشان ہے؟کہ ابھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا نہیں ہے ا س سے پہلے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ضرورت پیش آگئی؟ تاکہ کل کو حکومت یہ اعلان واپس لیلے تو اپنی فتح کے شادیانے بجا ئے جا سکیں؟
جبکہ قوم کو چاہیے کہ وہ کچھ تو صبر کرے! اگر موجودہ حکومت گرادی گئی یا خود اس نے تنگ آکر اسمبلی توڑدی تو سوچیئے تو سہی کہ پھر کیا ہو گا؟ کیا وہی واپس نہیں آجا ئنگے جو کہ تین عشروں سے مسلط تھے؟ اور وہی کچھ نہیں کر یں گے جو اب تک کرتے آئے ہیں۔ اتنی جلدی کوئی نئی پارٹی بننے اور آنے سے تو رہی، اور اگر آ بھی جا ئے تو جادو جگا نے سے رہی؟ موازنہ کرکے کوئی دیکھے تو سہی کہ کس نے اس وقت تیل کی قیمتیں نہیں بڑھا ئیں جبکہ دنیا میں تیل سستا تھا اور حکومت کو عوام کو ریلیف دینا چا ہیے تھا؟ جبکہ یہ حکومت اس وقت آئی ہے کہ تیل کی قیمت اور ڈالر کی قیمت آسمان کی طرف پچھلی حکومت کے دور سے جارہی تھی، ایسے میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہے؟ کہ ڈالرکی قیمت بڑھے گی تو ہر چیز مہنگی ہوگی؟ کیونکہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے؟ نہ کوئی ملک آج کی دنیا میں اپنی آزادانہ پالیسی وضع کر سکتا ہے، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ دنیا سے کوئی ملک کٹ کر رہ سکے۔ ابھی تک ہمارے لوگوں کو بدلتی ہوئی صورتِ حال کاادراک نہیں ہے؟ جبکہ نوبت یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ آج ہم‘‘ہائی برڈ سیڈ‘‘کے لیے بھی محتاج ہوچکے ہیں؟ جس ملک کے ہاتھ میں اس نڈسٹری کی باگ ڈور ہے وہ اگر ہماری بیج کی سپلائی بند کر دے تو ہم دو دن میں توبہ کر جا ئیں؟ صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ ہم دیسی خربوزے چھوڑ کر کیونکہ وہ بد مزہ تھے،اب اپنے یہاں ‘‘ہنی ڈیو اور کنٹیلوپ‘‘ اگا کر کھانے کے عادی ہوگئے ہیں کہ یہ قسمیں زیادہ شیریں ہیں؟ مگر یہ بہت کم پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ اس کابیج کلیفورنیا سے لیکر آتے ہیں؟ تب وہ ہمارے یہاں ا گایا جاتا ہے جو صرف ایک مرتبہ اگنے کی صلاحیت رکھتا ہے دوبارہ نہیں؟ قصہ یہ ہے کہ ہمیں ہی نہیں دنیا والوں کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ ہر چیز کااصلی بیج آہستہ آہستہ دنیاسے غائب کر دیا گیا؟ا نہیں میں دھان اور گندم بھی شامل ہے؟ ذرا اپنے محکمہ زراعت سے توپوچھیں کہ اس قسم کی صورتِ حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے اب تک ا نہوں نے کیا کیا ہے؟ سوائے انہیں کا تبا ع کرنے جن کا اتباع ہم نہیں کرنے کے نعرے لگا تے ہیں؟
ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ عوام نئی حکومت کے پیچھے کھڑے ہوکراسکی ہمت افزائی کرتے؟مگر وہ بیچارے بھی کیا کریں کہ ان سے تو ان کاخالق بھی اس عادت کی وجہ سے نالاں ہے اور قر آن میں سورہ الالنبیاء کی آیت 37 میں فرما رہا ہے جس کا اردو میں مفہوم یہ ہے کہ” انسان بہت جلد باز ہے” کہ مجھ سے عذاب کے لیے جلدی کرتا ہے جبکہ میں نے وقت معینہ کا تعین کرکے اسے مہلت دے رکھی ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.