کچھ دنوں پہلے ایک بہت اچھا منظر دیکھنے کو ملا جس میں وزیر اعظم بھی موجودتھے،عدلیہ ا ورانتظامیہ بھی۔جبکہ میزبان چیف جسٹس صاحب تھے۔اور سمینار تھا ضبط تولید کے سلسلہ میں جس میں وزیرآعظم نےان کے اس طرح کے بہت سے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ چیف صاحب نے وہ کام بھی انجام دیئے جو کہ ان کی ذمہ داری نہیں تھے؟ جبکہ چیف صاحب نے آنے والی حکومت کی راہ میں حائل ہونے والے بہت سے مسائل پہلے ہی دور کر دیئے ہیں جنکی فہرست طویل ہے اوراس کی ذمہ داری بھی رواجی طور پر کسی اور پر ڈالنے کہ بجائے خود ہی ا ٹھا لی ہے جس کی مثال پاکستان میں مفقود ہے۔ اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ صرف عاقبت پر یقین رکھتے ہیں؟ اگر یہاں کاا نکا کوئی ایجنڈہ ہوتا تو وہ بھی بچ کر چلتے اور اس ملک میں نہ قانون کو بالادستی کبھی ملتی جو مدنی ریاست کاپہلا اصول ہے اور نہ ہی انصاف۔ اگر عمران خان بھی اس روش پر چلتے رہے جو انہوں نے اپنائی ہوئی ہے۔ توانشاء اللہ وہ بھی ضرور کامیاب ہوں گے؟ اور چیف جسٹس صاحب کا تعاون ان کے لیئے سونے پر سہاگے کا کام دیگا؟ کیونکہ انکا بھی کوئی اورایجنڈہ نہیں ہے سوائے اسلام کی خدمت کرنے کے۔مگر مشکل یہ ہے کہ جیسا کے میں نے پہلے بھی یبارہا لکھا ہے۔ کہ وہاں ماحول مدینہ کی ریاست سے قطعی مختلف ہے۔ اس لیے ا نہیں قدم قدم پر مشکلات پیش آرہی ہیں۔ میرے خیال میں پہلا مقدمہ انکے دور میں پاکپٹن شریف والا تھا جس کا چیف جسٹس صاحب نے نوٹس لیااور با لکل درست لیا اور میرے نزدیک اس طرح سے عمران خان کی انہوں نے مدد کی؟ کیونکہ وہاں ہوتا یہ ہے کہ بادشاہ سے اس کے حواری آگے بڑھ جاتے ہیں وہ کچھ کرگزر تے ہیں شاباشی ملنے کی امید پر، جو اگر عمران خان جیسے صاحبِ معاملہ کو پتہ ہوتا تو کبھی ا جازت نہ دیتے؟ پھر دوسرا واقعہ سواتی صاحب کاہوگیا اس میں بھی احتیاط نہیں برتی گئی؟ نتیجہ یہ ہوا کہ تلخیوں نے جنم لیا؟ اب انشا ء اللہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ عدلیہ جاگ رہی اور وہ جاگتی رہے گی۔ اس معاملہ میں بھی اللہ کی نصرت عمران خان کو حاصل ہے کہ پہلے سے نگرانی کے لیے ا یک فعال عدلیہ موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا بار بار کیوں ہو رہاہے؟جواب یہ ہے کہ وہاں ا کہترسال سے ایسا ہی ہوتا آرہا تھا اورلوگ اس کے خوگر ہوچکے تھے۔ کہ لوگ مال خرچ کرکے آتے ہی اسی لیے ہیں کہ تمام ا فسران،ممبران قومی اور صوبا ئی ا سمبلی سے پوچھ کر ضلع میں تعینات کیئے جائیں تاکہ وہ ان کی انگلیوں پر ناچیں؟ جب میں وہاں تھا تو میری گناہ گار آنکھوں نے عجیب عجیب منظر دیکھے؟ کہ ایک صاحب تشریف لائے اور انہوں نے اپنے مخالف کے ظلم کی شکایت ممبر قومی اسمبلی سے کی، ا نہوں نے اپنے سکریٹری کوحکم دیا کہ‘‘ بابا تھانہ ملاؤ‘‘ اور انہوں نے تھانے دار کو حکم دیدیا کہ ا س کے مخالف کو گرفتار کر لیا جائے؟ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دوسرا فریق آگیا اس نے بتایا کہ صاحب میں تو آپ کا پرانا آدمی ہوں اور تھانے دار نے میرے بھائی کو پکڑ لیا ہے؟ اب یہاں ظالم اور مظلوم کا مسئلہ ختم ہوگیا؟ لہذا پھر تھانہ دارکو فون پر یاد فرمایا گیا اور‘‘ سائیں‘‘ کا حکم صادر ہوا کہ اسے چھوڑ دو؟ اس سے بھی دلچسپ بات آپ کو سناؤں! بھٹو صاحب کا دور تھا اور رسول بخش تالپور گورنر سندھ تھے جبکہ ممتاز بھٹو وزیرِا علیٰ تھے۔ کہ میر پور خاص میں لسانی فسادات ہو ئے۔ ساڑھے تین سو آدمیوں کی جلدی میں ناقص فہرست بننی جس میں افراد کی ولدیت پتے تک نہیں تھے اور پیشگی پچاس سادہ وارنٹ گرفتاری پہلی قسط کے طور پر گورنر صاحب کے دستخط شدہ پولس کو عطا کر دیئے گئے؟ پولس کے ہاتھ میں‘‘دھر‘‘ پھنس گئی جو بھی ہم نام اسے نظر آیا اس نے پکڑلیا پیسے بنا ئے اور چھوڑ دیا آخر میں شور مچ گیا؟ اب صورت حال یہ تھی کہ پچاس وہ بے گناہ جیل میں تھے جن کے پاس دینے کو رقم نہیں تھی؟ جبکہ گناہ گار وں کے لیے وارنٹ نہیں بچے تھے؟ چونکہ مزید وارنٹ جاری کرنے سے گورنر صاحب نے ا نکار کردیا تھا کہ بابا میری بھی کوئی عزت ہے؟ اسی سلوک کے عادی ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی لوگوں کی عادتیں بدستور خراب ر ہیں جوکہ انگریز وراثت میں چھوڑ گئے تھے اور قائدآ عظم کو بھی پاکستان بننے کے بعد کہنا پڑ ا تھا کہ مجھے نہں پتہ تھا کہ‘‘ میری جیب کے سب سکے کھوٹے ہیں‘‘ اس پرانے نظام کا خوگر ہونے کی وجہ سے کچھ وقت تو لگنا ہی ہے، لوگ چلا ئیں گے بلبلائیں گے بھی؟ اگر اس مرتبہ کھانے پینے کو نہیں ملا تو آپ دیکھیں گے کہ پارٹیوں کو اگلی دفعہ امیدوار ہی نہیں ملیں گے؟ یہ جو الیکٹ ابیل کی نسل چلی آرہی ہے وہ بازار سے غائب ہوجائیگی۔ لیکن اس کڑے امتحان سے گزرنے سے پہلے عمران خان کوجن کانٹوں کی سیج پر سونا پڑیگا، اس کے وہ خود ہی گواہ ہونگے۔کیونکہ مفت میں وہاں کون کام کرتا ہے اپنامال لگا کر؟ فرق ا گر کسی کو دیکھنا ہے تو یہاں آجا ئیے کہ وہاں تو سرکاری ملازمت لوگ دام دیکر خریدتے ہیں؟یہاں سرکار کوملازم نہیں ملتے ہیں کہ باہر تنخواہیں زیادہ ہیں اوراوپر کی آمدنی نام کی کوئی چیز یہاں نہیں ہے۔ عدل کا یہ عالم ہے کہ ناحق کووئی نہیں پکڑا جاتا۔ مجرم جو پکڑا جائے وہ چھٹتا نہیں ہے؟لوگ شوق میں حکومت میں اگریہاں بھی آجاتے ہیں تو چند سال کے بعد وزارت جیسے عہدے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ‘‘ ہماری فیملی لائف متاثر ہورہی ہے‘‘ یہاں سیاسی لوگوں کی بیویوں کاطلاق لینا اور وہاں اس کے برعکس چار چار شادیاں کرنا ایک عام سی بات ہے کہ انہیں شکایت رہتی ہے کہ ہمیں پورا وقت نہیں ملتا۔ رہی یاری دوستی اس کا یہ عالم ہے کہ آپ کسی کو نہیں جانتے ہیں اور اپنی قابلیت صرف اپنی زبان سے ثا بت کر دیتے ہیں تو نوکری پکی ہے؟ اور اگر جان پہچان ہے تو دوست پہلے ٹھوک بجا کردیکھے گا؟ کہ کہیں کل کو میرے اوپر کوئی حرف نہ آجائے؟ جبکہ انہوں نے اسلام کا صرف ایک اصول اپنایا ہوا ہے توا نصاف کا یہ عالم ہے کہ جلدسے جلد اور سب کے لیے یکساں عدل موجود ہے؟ مدنی ریاست کے سارے قوانیں اگر وہاں نافذ ہوں تو پاکستان کا عالم کیا ہوگا۔ دعا کیجئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اس راہ کے مسافروں کو ان کے مقصد میں کامیاب کرے(آمین) کیونکہ اس وقت عدلیہ بھی کہہ رہی ہے،فوج بھی کہہ رہی ہے اور وزیر اعظم بھی کہہ رہے ہیں کہ اب ہم پاکستان کو پاک کر کے چھوڑیں گے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے