ہماری تو یاداشت خراب ہے ہی کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ہماری عمر کا تقاضہ ہے۔ مگرہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بلا تفریقِ سن وسال ہر عمر کے لوگوں کا حافظہ روز بروز خراب ہوتا جارہا ہے اور کسی کو یاد نہیں رہتا کہ ہم نے کل کیا کہاتھااور آج کیا کہہ رہے ہیں۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں جوکہ فرانس سے بوتل پند پانی منگواکر پیتے ہیں اور وہ بھی جو گٹرکے گندے پانی اور کےk.D.A ۔ کے خالص پانی کو ملا کر اور کاک ٹیل بنا کر پیتے ہیں۔ چونکہ ملک کی ا کثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے؟ اور انہیں حکم یہ ہے کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہوسکتا پھر بھی جھوٹ بولتے ہیں تو وہ جانیں؟جبکہ ہمیں حکم یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھیں! ا س لیے ہمارا دل یہ ماننے کو بھی تیار ہی نہیں ہوتا ہے کہ ملک کی اکثریت جھوٹ بولنے لگی ہے؟
ہاں! ایک بات کا امکان ہے کہ بھائیوں کے ساتھ اس میں بہنوں کاذکر علیحدہ نہیں کیا گیا ہے، ممکن ہے کہ بہنیں استثنیٰ حاصل ہونے کی وجہ سے بلا خوف وخطر جھوٹ جھوٹ بولنے لگی ہوں؟ جن کی آبادی اکیاون فیصد ہے اس لیئے ہمیں اکثریت کاگمان ہوتا ہو؟ جیسے کہ کچھ لوگ اسمبلی میں کچھ کہتے ہیں باہر نکل کر کچھ اور، جبکہ کورٹ میں جا کر کے استثنیٰ کی آڑ لے لیتے ہیں۔ کہ ہم نے ا سمبلی میں جو کچھ کہا تھاوہ قابلِ گرفت تھوڑی ہے، جو کورٹ کے ریکارڈ میں شامل کیا جائے؟ یہ ہی صورتِ حال مدتوں سے تھی اب اس میں ایک اور اضافہ سوشیل میڈیا کا ، خاص طور پر“ ٹیوٹر“ کا ہوگیا ہے۔اس میں یہ سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے کہ جب جی چاہے اپنے لکھے کومانیں اور نہ چاہے تو نہ مانیں اور کہہ دیں کہ ہمارے نام سے جعلی اکاونٹ کسی نے کھول لیا ہے، آپ اس کا یقین نہ کریں اس ایمانداری کی وجہ سے؟ جبکہ سوشیل میڈیا کے لیے یہ مصیبت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ اپنے یہاں ہر اکاونٹ رکھنے والے کا دس نمبریوں کی طرح شجرہ اور تصویر اپنے یہاں رکھیں تاکہ سند رہے اور بر وقتِ ضرورت کام آئے؟جبکہ ٹوئیٹر کی مقبولیت کا یہ عالم ہے۔ کہ ایک ملک کے صدرتو یہاں تک اس کے عادی ہوچکے ہیں کہ بجا ئے با قاعدہ “ہائر“ا ور“ فائر“ کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے ا سے ٹیوئٹ کردیتے ہیں جس طرح پہلے سیٹھ ماچس کی ڈبیا پر ہنڈی بھیج دیتے تھے۔ اب جس کے بارے میں وہ حکم صادر ہوا ہوتا ہے اس کو تب ہی کہیں جاکر اطلاع ہوتی ہے۔ کہ اس کے دفتر کا چوکیدار جس کو وہاں سکوریٹی آفیسر کہتے ہیں؟ اس کو اپنے ہی دفتر میں جانے سے روکدیتا ہے۔ کہ میں نے آپ کے سلسلہ میں فرمانِ صدرِ محترم ٹیوٹر پر دیکھ لیا ہے کہ “ اب آپ اپنے عہدے پر فائز نہیں رہے“ اگر وہ صاحب دور اندیش نہیں تھے تو جو ذاتی چیزیں دفتر میں کل چھوڑ آئے تھے، آج لے بھی نہیں سکتے ۔ ہا ئےرے انسان کی مجبوریاں ؟
خیر یہ تو ان ترقی یافتہ ملکوں کی باتیں ہے جن کے یہاں سے ہم نے جمہوریت امپورٹ کی ہے۔ جبکہ ہمارے اپنے گھر کی حالت یہ ہے کہ بنک اکاونٹ کسی کا اور اسے مہینوں تک چلا تا کوئی اور ہے؟بیوی کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ یہ محل کہاں سے شوہرِنامدار بنا رہے ہیں؟ اور بیٹی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے ابو جو جائیدد اس کے نام کرتے جارہے ہیں وہ کہاں سے آرہی ہے۔ جب پتہ چلتا ہے تووہ چپ کا روزہ رکھ لیتی ہے۔اور ٹوئیٹر پر یہ بتاتی ہے کہ میں اس وجہ سے چپ تھی کہ “ یہ ابو نے کیا کیا“ اور جب ابو کو سزا کورٹ سبنادیتی ہے ۔ تو فیصلےکاصرف اوپر کا حصہ انہیں دکھائی دیتا ہے۔ جس میں بری کیا گیا ہے وہی وہ ٹیوٹ کرتی ہے۔ کیونکہ پوری پارٹی نے وہی حصہ پڑھا ہے باقی نظر انداز کردیا ہے؟ جبکہ اسی فیصلے کے آخر میں سزا سنادی ہے اور ابو سرکاری مہمان ہوچکے ہیں ۔ جو پارٹی کے خیال میں بہت بڑی ناا نصافی ہے؟
جبکہ ایک اور صاحب بھی وہیں پائے جاتے ہیں؟پہلے بھی ایک دفعہ پھٹے ڈھولوں کو للکارے تھے اور پھرملک سے چلے گئے تھے ؟ ایک عرصے کے بعد واپس آگئے کہ نیت ابھی بھری نہیں؟ واپس آکر کہتے ہیں اب کے تو مار ؟ کوئی بات بھی کسی کی وہاں کسی کے سمجھ میں نہیں آتی ہے ، بس ہم اپنے فیملی ڈاکٹر کی طرح یہ کہنے پر کہ یہ ہماری عمر کے تقاضہ ہے جوسمجھ نہیں پاتے ہیں ورنہ ہم بھی یہ ہی کرتے جیسے آجکل وہاں سب کر رہے ہیں ۔کہ ہر ایک پہلے بڑھکیں مارتا ہے اور پھر بھاگ بھی جاتا ہے؟ چلیں یہ جن کا کام ہے انہیں کرنے دیں؟
ہم نے یہ پہلے بھی تحریر کیا تھا کہ چیف جسٹس صاحب نے قوم پر یہ بڑا احسان فرمایا ہے کہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر آنے والی حکومت کے لیئے زیادہ تر راستےمیں بچھے ہوئےکانٹے دور فرما دیئے، جس کے لیئے قوم ہمیشہ احسانمند رہے گی۔ لیکن ہمیں ایک بہت ہی پرانے اور متوازن ایڈیٹر کی زبان سے یہ بات T.V پرسن کر بڑی حیرت ہوئی کہ حکومت کو اس مقدمہ کا بوجھ اپنے اوپر نہیں لینا چا ہیئے تھا، عدلیہ پر ہی پڑے رہنے دینا تھا۔ جو کہ اس نے E.C.Lمیں ڈالکر اپنے اوپر لے لیا؟ اول تووہ اپنے اوپر نہ بھی لیتی توانتہا ئی نا شکرے پن اظہار ہوتا۔ اوران معززیں میں ایک بھی بھی اگر فرار جاتا تو بھی ا ین ۔آر۔او کاا لزام حکومت پر لگتا؟جبکہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کاا لزام حکومت پر لگانے والے لگا رہے ہیں اس لیے کہ پہلے سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے ۔ جبکہ یہاں تو تحقیق ہی ایف آئی اے نے کی ہے۔ جو کہ وزیراعظم کےماتحت ہے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے