مسئلہ ہے کمیشن اور کریدٹ کا۔۔۔ شمس جیلانی

ہم ان لوگوں میں سے ہیں جویہ سوچ کر پاکستان آئے تھے کہ اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کی خد مت کریں گے اور اسوقت سب بلا امتیاز اسی خیال کے حامی بھی تھے۔ حتیٰ کہ وہ غریب قلی جنکی ا جرت ہر پھیرے کی آٹھ آنے تھی اور انہوں نے پاکستان سے جانے والے تارکین وطن سے ٹرین میں جگہ گھیر نے کے سو ڈیر ھ سو روپیہ تک وصول کر نا شروع کردیئے تھے کہ 1951 میں نہرو لیاقت پیکٹ ہوگیا اور اس کے احترام میں وہ واپس ا سی آٹھ آنے پر آگئے کہ ہمارے لیڈر نے معاہدہ کر لیا ہے اب ہم زیادہ پیسے نہیں لیں گے، کیونکہ مسلمان وعدہ خلافی نہیں کرتا؟ بس کم و بیش یہ ہی حال ہر محکمہ تھا۔ مگر ہماری بد قسمتی دیکھئے کہ ہمیں جو پہلا محکمہ ملا وہ ایسا تھا کہ وہاں آج جیسی تو نہیں، مگر لوٹ مار مچی ہوئی ضرور تھی۔ لہذا ہم با الکل وہاں جاکر ان فٹ ہوگئے۔ اس زمانے میں نوکریا ں بہت اور کام کرنے والے کم تھے نوکریاں بازار میں بکتی بھی نہیں تھیں۔ہم نے دوبارہ بہت ہی غور وخوص کے بعدجو دوسرا محکمہ منتخب کیا وہ ایساتھا جس کی پاکدامنی پر کسی کو شبہ تک بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہاں بھی ہیر پھیر چلتی ہوگی؟ مگر جب داخل ہوئے تو یہ بات ہمارے علم میں آئی کہ وہاں یہ عالم تھا کہ 55 فیصد آفیسروں کا کمیشن اور45 فیصد میں ٹھیکدارا ور مٹیریل تھا۔ جبکہ اس وقت اس کا انچارج انگریز تھاا ور اس کے بھی 15 فیصد مقررتھے۔ ہم وہاں بھی ان فٹ رہے ہمارا جو‘‘بوس‘‘تھا ووہ کہتا تھا کہ تم بڑے اچھے آدمی ہو؟بس تم میں ایک خرابی ہے کہ تم اپنے آپ کو ہم سے بہتر سمجھتے ہو!بس ہمارے جیسے بن جا ؤ تو تم سے اچھا کوئی آدمی نہیں ہے؟ مگر ہم نے اپنی برائی چھوڑی نہیں ا ورا ن جیسے بنے نہیں، جب وہ سالانہ رخصت پر جاتے تواس دوران امن رہتا اور باقی ٹائم میں ہمارے اور ان کے در میان جنگ جاری رہتی۔ چونکہ وہاں استعفیٰ دینا آسان نہ تھا لہذا ہم نے وہاں دو سال کچھ مہینے اور سات دن اسی طرح گزارے، مگر ہم نے یہ عجیب بات دیکھی کہ جب ہمارے سنیر آفیسر صاحب سالانہ چھٹیوں پر جاتے۔ تو وہ چارج جونیر ہونے کے با وجود ہمیں دے کر جاتے تھے کہ انکو ہماری برائی کا احساس تھا اور وہ مطمعن ہوکر جا نا چاہتے تھے کہ ان کا کمیشن محفوظ رہے گا؟
یہاں ہماری اپنی یہ بپتا سنانے کا مقصدصرف یہ تھاکہ ہم احساس دلائیں کہ کمیشن وہ بلا ہے کہ برائی اچھا ئی ور اچھائی برائی بن جاتی ہے۔ مگر اس وقت صرف کمیشن مد نظر رہتا تھا،یہ مسئلہ نہیں تھا کریڈٹ کسے جائیگا کہ ملک میں جمہوریت اسوقت تک آئی نہیں تھی دستور ساز اسمبلی سے پارلیمان کا کام لیا جاتا تھا کیونکہ اسے قا نون بنانے میں آج کی طرح دلچسپی ہی نہیں تھی؟ لہذا اس مسئلہ نے بہت بعد میں شدت اختیار کی کہ کریڈٹ کسے جا ئے گا؟ کیونکہ یہ جمہورت کے ساتھ آیا؟ اور یہا ں تک بڑھاکہ بے شک فنڈ ز پڑے رہ جا ئیں سال گزر جائے، مگر جب تک یہ نہ طے نہ ہو جا ئے کہ اس کاکریڈٹ کسے جا ئے گا اور کمیشن کیسے ٹھکانے لگے گا؟ عوام پیاسے مریں، سڑکیں‘‘موئن جو دڑو‘‘ بن جا ئیں، مگر کریڈٹ کوئی غیر نہ لے جائے؟
یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ بھٹو صاحب ملک کو 1973 کا آئین دے گئے کیونکہ ان کو مطلوبہ ا کثریت پاکستان آدھا رہ جانے کی وجہ سی مل گئی تھی۔ پھران کے بعد ان کے جانشین زرداری صاحب نے ا پنے دور صدارت میں اپنے سارے اختیارات وزیر اعظم کودیدئیے اور خود بے ختیار ہوگئے جس طرح کہ گاندھی جی کانگریس میں تھے؟ مگر سب کو شکایت یہ ہی رہی کہ سارے اختیارابھی تک انہیں کے پاس ہیں؟ دوسر ان کا اہم کارنامہ یہ تھا کہ صوبوں کو خود مختاری دیدی مگر انہیں بھی آج تک شکایت یہ ہی ہے کہ ہمیں کچھ نہیں ملا۔ کیونکہُ اس پیسے کے ساتھ مرکز کے منظورِ نظر جو کچھ کرتے رہے اس میں فنڈ ز ملے کام بھی ہوئے مگر ان کے اثرات کہیں دکھا ئی نہیں دیئے۔ نتیجہ یہ کہ عوام جہاں پر سن1947 میں تھے وہیں کے و ہیں رہے؟
البتہ پہلے سب مل جھل کر رہتے تھے۔ اب بڑوں کے علاقہ ا لگ ہوگئے جیسے کہ کلفٹن، یاڈیفینس کالونی وغیرہ کہ وہاں رہنے والوں کی اپنی ہی ایک شان ہے؟ ایک صاحب نے ہمیں حال میں ایک واقعہ سنا یا کہ ایک اجنبی سے ان کی ملا قات ہوئی تو ا نہوں نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہو ئے اپنا تعارف کرا یا کہ فلاں۔۔۔ فر ام ڈیفنس ؟ تو انہوں نے بھی جواب میں اپنا تعارف کرانا پڑا کہ فلان۔۔۔ فرام لالو کھیت؟ یہ آپ کو تعارف عجیب سا لگے گا کہ پرانے زمانے کی بات ہے جب انگریز یہاں ہوا کرتے تھے۔تو لاکھوں کے حساب سے والیانِ ریاست تھے، جن میں 613 پرنسلی ا سٹیٹ کہلاتی تھیں جو ایس سے لکھی جاتی تھیں ان کی شان اور شوکت خود تعارف کراتی تھی، بقیہ نان پرنسلی ا سٹیٹ تھیں، جن میں ایس سے پہلے E سے لگا ہوتاتھا مگر معنی کا فرق صرف رازداں ہی سمجھتے تھے۔ ویسے ہی ان کے والیوں کے ساتھ سلوک کیا کرتے تھے جب وہ اپنا تعارف کراتے نظر آتے تھے۔ کہ فلاں۔۔۔ فرام فلاں اسٹیٹ۔ اس وقت بھی پاکستان میں یہ ہی عالم ہے کہ پتہ چلتا ہے کہ اصل حکمراں کون ہے جس کا حکم چلتا ہے ؟اورعوام جس کا حکم چلتا دیکھتے ہیں سب باجماعت اسی کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ جبکہ آجکل صورتِ حال مختلف ہوگئی ہے کہ جس کی دم پر پیر پڑتا ہے وہ اچھل پڑتا ہے۔ جبکہ عوام یہ سوچ کر ہر الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں کہ یہ ہمیں کچھ دیگا کہ ایماندار آدمی ہے؟ وہ یہ نہیں جانتے کہ جو جتنا ایماندار ہے وہ اتنی ہی جلدی ناکام ہو گا ؟کیو نکہ وہ موجوودہ نظام میں فٹ نہیں ہوتا؟ ایک صاحب کا یہ جملہ اسلامی تاریخ میں بڑا مشہور ہے جوکہ انتہائی معتبر مورخ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ‘‘ اب حکومت وہ کریگا جس کی دو داڑھیں ہونگی ایک کھانے کی اور دوسری کھلانے کی “ جب سے حکومت ،تمام مسلم ممالک میں اسی اصول پر چل رہی ہے۔کیونکہ وہ حکمراں جو ملک کے بیت المال کو اپناذاتی مال نہیں سمجھتا ہے وہ اس نظام میں جلد ہی ناکام ہو جاتا ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.