چیونٹیوں اپنے بلوں میں چلی جاؤ۔۔۔۔ شمس جیلانی

ونٹیوں اپنے بلوں میں چلی جاؤ۔۔۔۔ شمس جیلانی جن لوگوں نے سورہ النمل قرآن میں پڑھی ہے ا نہو نے چیونٹیوں کی ملکہ کا یہ فرمان ضرور پڑھا ہوگا کہ‘‘ حضرت سلیمان ؑ کا لشکر آرہا ہے کہیں کچل نہ جاؤ عافیت اسی میں ہے کہ اپنی خیر مناؤاور بل میں چلی جاؤ‘‘ چونکہ وہاں چیونٹیوں کی ملکہ کی قیادت پراتفاق تھا۔ اس کے حفظِ ماتقدم کے طور پر یہ بات کہہ کر خبر دار کرنے سے سب محفوظ رہیں۔ مگر پاکستان میں وہ ملت ہے جس کے رب نے اتحاد کا حکم دیا تھا مگرا س نے اللہ کا حکم بھی نہیں مانا اور ٹکڑیوں میں بٹنا پسند کرلیا؟ اب المیہ یہ ہے کہ ا نکا کوئی سردار ہی نہیں ہے ہر ایک نے اپنی ڈیرھ انیٹ کی مسجد الگ بنا رکھی ہے۔ ہمارا ان کو مشورہ ہے کہ ہرا یک اپنے بچاؤ کی اب خود ہی فکر کرے؟ کیونکہ ا ونٹ کا پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس کروٹ بیٹھے گا؟اس لیے کہ یہ اس کے بیٹھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے؟
وہاں ہوکیا رہا ہے؟ وہ انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔یہ ا ندازہ تو سب کو تھا کہ اکثریت کسی کو نہیں ملے گی اور پار لیمنٹ بری طرح بٹی ہوئی ہوگی لہذا حکومت چلانا مشکل ہوگا؟دوسری طرف عمران خان نے وعدے اتنے اچھے کیئے ہوئے تھے کہ‘‘ ہم مدنی ریاست بنا کر دکھا ئیں گے‘‘ جبکہ ان کے پاس وہ مشینری ہی نہیں ہے جس کی پہلی کوالیفکیشن اہلِ تقویٰ ہونا قر آن میں لکھی ہوئی ہے، جیسے کہ وہ مقدس گروہ تھا، جنہیں صحابہ کرامؓ کہتے ہیں اور ان کے دل میں خوفِ خدا کا عالم یہ تھا کہ عہدے کو ذمہ داری سمجھنے کی وجہ سے کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا؟ جبکہ یہاں اس کا الٹ ہے کہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو عہدے پر جان دیتے ہیں؟ ایسے میں عمران خان کوا قتدار تو مل گیا کہ مسلمانوں کے لیے مدینہ منورہ میں بڑی کشش ہے؟ چونکہ وہ دُھن کے پکے ہیں۔ انہوں نے آتے ہی چو مکھی لڑنا شروع کردی جبکہ وہاں وعدہ کرنے کا رواج تو شروع سے ہے، مگر عمل کرنے کا نہیں؟ پھر یہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جدید مشینری کے بغیر کوئی بلڈنگ بلڈوز کرنے چل پڑے؟ جبکہ زمینی حقائق یہ تھے کہ وہ وہی کچھ کر سکتے تھے جو کہ انکے اپنے اختیار میں ہے؟ یعنی وہ سب کچھ تو اکیلے قطعی نہیں کرسکتے تھے؟ کیونکہ اکثریت اپنی موت آپ مرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتی ہے؟جبکہ وہاں کسی نہ کسی قسم کی بد عنوان معافیہ کی ہر طرف حکمرانی ہے۔ ایسے میں انہوں نے غضب یہ فرماکر کر دیا کہ کہ میں تمام بد عنوان لوگوں کو جیل میں ڈال دونگا؟ اور اپنے وعدوں پرا نہوں نے نمونے کے طور پرآتے ہی عمل بھی کرنا شروع کر دیا ۔ جیسے کہ بجا ئے وزیر اعظم کی رہائش گاہ استعمال کرنے کے وہ انیکسی میں چلے گئے۔ گورنر ہاؤسوں کو تفریح گاہ بنا دیا، سب سے پہلے یہ شرف پنجاب کے گورنر ہاؤس کو حاصل ہوا؟ اسے تفریح گاہ بنا تے ہوئے یہ تصور کرلیا گیا کہ ہمارے عوام بھی ا مریکہ یا یورپ کے عوام جیسے ہیں جو اسی طرح سرکاری املاک کو اپنی ملکیت سمجھیں گے۔ جیسے وہ سمجھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کانمائشی لکڑی کا پل زیادہ لوگوں کے چڑھ جانے کی وجہ سے پہلے ہی دن ٹوٹ گیا؟ اور اس کے لان میں پھولوں والی جھاڑیا ں لمبی لمبی لیٹ گئیں۔ جبکہ اس وعدے پر عمل کرنے کے لیے ضروری یہ تھا کہ یا تو داخلے سے پہلے عوام کو تربیت دیتے۔ یا پھر ڈنڈے دیکر چوکیدار کھڑے کر دیتے، تاکہ اس کا حسن بر قرار رہتا؟ مشکل یہ تھی اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک کام کرتے، تو اپوزیش جوکہ ان کی تاک میں رہتی ہے فوراً میڈیا کو اعداد و شمار دیدیتی کہ اس سے اتنا خرچ بڑھ گیا؟ جبکہ خانصاحب کے منشور میں اخراجات کم کر نا بھی شامل ہے۔
اب آجائیے دوسرے اداروں کی طرف کہ پٹے والے سے لیکر سکریٹری تک سب کانپ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا؟ہماری مہینہ بھر کی تنخواہ میں تو ہربچے کے حصہ میں ایک برگر بھی نہیں آتا ہے۔ بچے کیا کھا ئیں گے ،اگر ہم رشوت نہیں لیں گے؟ جبکہ ہر نیٹ ورک وہاں کسطرح چلتا ہے؟ وہ ہم سن1958کی ایک مثال دیکر سمجھا ئے دیتے ہیں؛ کہ اس وقت ضلع سانگھڑ میں ایک بیدار مغز ڈپٹی کمشنر آگئے اور وہ اپنے یہاں ریفارم لے آئے کہ بجا ئے اپنی حیثیت کے مطابق رشوت لینے کے،ہر ٹیبل کرایہ پردیدی کہ روزانہ تمہیں اتنی رقم ہمیں دینا ہی دینا ہے،اور انہیں بھی نہیں بخشا جن کے پاس ٹیبل تھی ہی نہیں صرف اسٹول تھا جس پر وہ دروازہ گھیر کر بیٹھا کرتے تھے۔ انہیں بھی دس روپیہ روزانہ شام کو دینا تھا۔ جبکہ وہ زمانہ ایوب خان کے پہلے مارشل لاء کا تھا۔ چونکہ وہ پہلا مارشلاء تھا اس وقت ا س کی دہشت بھی بہت تھی؟اب اس نظام نے کتنی ترقی کر لی ہوگی وہ آپ اسی سے انداز ہ کرسکتے ہیں۔
اب آئیے اس طرف کے ہم جو چونٹیوں کو خبردار کر رہے ہیں جو کہ ہمارا آج کا عنوان ہے؟ وہ کیوں؟ اس لیے کہ ہاتھی یا اونٹ بڑا ہوتا ہے۔ وہ تو ہمیشہ بچا رہتا ہے مگر نزلہ ہمیشہ چیونٹی پر گرتا ہے۔لہذا چیونٹیاں ہوشیار رہیں؟ اور بلوں سے باہر نہ نکلیں ورنہ اپنی ہلاکت کی خود ذمہ دار ہونگی۔ کیونکہ آج حکومت ایک بات کو “ نہ“ کہتی کل کو وہی کرنا پڑتی ہے۔مثلاً مرکزی احتساب کمیٹی پر ضد م ضدا تھی کہ اپوزیشن کہہ رہی تھی یہ ہمارا حق ہے ہم لیکر رہیں گے؟ جبکہ حکومت کہہ رہی تھی کہ ہم نہیں دیں گے کیونکہ ہماری مونچھ کٹ جائیگی ؟مگر مرکز اور پنجاب ،دونوں میں دینا پڑیں؟ دوسری مثال بیچارے کئی وزیروں نے ملکرا یک ریفرنس داخل کرایا آج وہ بھی واپس لینا پڑا، کیوں؟پتہ نہیں۔ ہاں! ان کی سبکی مفت میں ضرورہوئی جو ٹی وی پر کل تک بیٹھے ڈینگین مار رہے تھے؟ ہمارا میڈیا کو بھی یہ ہی ہے مشورہ کہ وہ بھی ہوشیار رہے اور ہر خبر چھان پھٹک کر چلا ئے؟ کیونکہ اس سے دین اور دنیا دونوں خراب ہوجاتے ہیں حدیث میں جھوٹاکہلانے کے لیئے بس اتنا کافی ہے کہ‘‘ سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھا دے‘‘ کل نیب کے سربراہ کہہ رہے تھے کہ نیب کسی این آرو کا حصہ نہیں بنے گی دوسرے انہوں نے کہاکہ ہمیں‘‘منشا بم‘‘ سے تشبیہ دیدی؟ دینا تھی تو ایٹم بم وغیرہ سے دیتے؟ اس سے ان کی حسِ مزاح پہلی دفعہ ظاہر ہوئی اور اس طرح پاکستان کی تاریخ میں جسٹس کیانی مرحوم کے بعد یہ دوسرے ہیں؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.