سئلہ کشمیر اور ہماری ذمہ داریاں۔۔۔۔ شمس جیلانی ابھی چند دنوں پہلے پوری دنیا نے یومِ کشمیر منایا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ابھی تک ا نسانوں میں رحم باقی ہے؟ چاہیں وہ فلسطین کا مسئلہ ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو یا بر ما کا، دنیا رحم کھاتی نظر آئی ؟ درمیان میں ایک دور ایسا بھی گزرا کہ دنیا میں سب کے لیے رحم تھا مگر مسلمانوں کے لیے نہیں؟ کیونکہ ان پر وقت نے شدت پسندی اور دہشت گردی کا ٹھپہ لگادیا تھا ؟اس میں کچھ تو مفاد پرستوں کا پراپیگنڈہ تھا، کچھ مسلمانوں کی اپنی غلطی تھی کہ وہ ان مفاد پرستوں کےہاتھوں میں کھیل رہے تھے؟ جبکہ ہمیشہ سے مسلمانوں کاامیج ایک باصول حق پسنداور امن پسند قوم کا تھا۔ مگر جب انہوں نےاسلام کو چھوڑ دیا تو ان سے جینے کاحق بھی دنیا نے چھین لیا؟ اس لیےکہ دنیا سمجھی کہ پھٹ پڑنا ہی شاید اسلام ہے؟ جبکہ ایسے لوگوں کی تعداد مسلمانوں میں نہ ہونے کے برابر تھی؟ مگر اس سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ دنیا نے یہ جاننا چاہا کہ اسلام ہےکیا ؟ ، جب مطالعہ کیا تو انہیں پتا چلا کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جو کچھ چند ملکوں میں ہورہا ہےاور نہ ہی یہ اسلام ہے؟ اور جہاں تک مسلمانوں میں زندگی کا معاملہ ہے، وہی تو ان میں مفقود ہوگئی ہے جو انہیں یہ دن دیکھنا پڑا ؟ورنہ مسلمان صرف نعرے لگا تے کہ “ہم زندہ قوم ہیں“ جبکہ عمل کچھ بھی نہ ہوتا؟ یہ ناممکن تھا؟ ان میں زندگی کے آثار عملی طور پر بھی نظر آتے وہ ا پنی اصل تعلیمات کی طرف واپس جاتے ؟ کیونکہ زندہ قومیں صرف نعرے نہیں لگاتی ہیں وہ اپنے عمل سے بھی زندہ ہونے کا ثبوت دیتی ہیں ۔ اسی حالتِ جمود میں پچھلے کئی سالوں سے پاکستان بھی تھا۔ گو کہ اس کے دستور میں حاکمیت اعلیٰ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی ہے، وہاں کشمیر کمیٹی بھی تھی اورا یک مولانا اس کے صدر بھی تھے؟ مگر اس میں زندگی تو کیا زندگی کی آخری رمق تک بھی کہیں نہیں پائی جاتی تھی۔ بلکہ بے حسی کا یہ عالم تھا۔2016 میں ہم نے انہیں کالموں میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا کہ” کاروبار چل رہا ہے اور کشمیر جل رہا ہے” ہوا یہ تھا کہ ا یک ا خبار نویس نے کشمیر ڈے پر مولانا سے غلطی سے پوچھ لیا تھا کہ آپ چونکہ کشمیر کمیٹی کےصدر ہیں لہذا کشمیریوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ اس پر مولانا نے قہقہہ لگاتے ہو ئے جواب دیا تھا “کیا کروں میں، کیا ہندوستان پر حملہ کردوں؟جبکہ اس وقت خیر سے وزیرِ آعظم بھی کاشمیری تھے؟ لوگوں کو امید تھی کہ جس طرح ا یک کشمیری “الاصل پنڈت“ نہرو نے اپنے کشمیری ہونے کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پیدا کیا تھا، یہ اسے ختم کر دیں گے؟انہیں پتہ نہیں تھا کہ کاروباری، کارو باری ہوتے ہیں ،وہ وہیں گر تے ہیں جہاں کہ چا ر پیسے کا فائد ہ ہو؟ وہی مولانا جن کا دعویٰ تھا کہ ہمارے بغیر کوئی حکومت نہ بن سکتی ہے نہ چل سکتی ہے؟ وہ آجکل وہیں جوڑ توڑ میں پھر لگے ہوئے ہیں اور ان کے وزیر اعظم جیل میں ہیں، اور وہیں رہنے پر مصر بھی ہیں اس لیے انہں اسپتال سے وہیں واپس کردیا گیا، شاید وہ قفس سے مانوس ہوگئے ہیں؟ ۔اسی لیے بڑے ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ بڑا نوالہ کھالو مگر بڑا بول مت بولو! اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تو یہاں تک بندوں کو ہوشیار کردیا تھا کہ“ تکبر میری چادر ہے اور کبریائی صرف مجھی کو ہی زیبا ہے۔ جو اس میں داخل ہونے کی کوشش کریگااسے میں ذلیل و خوار کردوں گا“ پھر بھی لوگ نہیں مانتے ہیں اور فرعون جیسے بن جا تے ہیں؟ جس کو نشان عبرت بنا کر اب تک اس نے میوزیم میں رکھوایا ہوا ہے تاکہ جو وہاں تماشا دیکھنے جائیں تو عبرت بھی حاصل کرتے آئیں کہ “ ہم ایسوں کو ڈبوکر نشانِ عبرت بنانے پر بھی قادرہیں“
جبکہ اس سال کشمیر کمیٹی بھی نہیں ہے اور وزیر اعظم بھی کشمیری نہیں ہیں؟ مگر اللہ جسے توفیق دے، موجودہ وزیراعظم جو یہ نعرہ لگاکر آئے ہیں کہ میں قوم کا جمود توڑونگا وہ بلا امتیاز مسلمانوں میں آپس کا تفرقہ ختم کر نے کے لیئے کوشاں ہیں ۔اگر نہیں تو مسلماان خود نہیں ہیں۔ ورنہ اس کام کے لیے کتھولک چرچ کے پوپ صاحب بھی نکل آے ہیں جوکہ کم ہی نکلتے ہیں ۔ یہ قر آن کی وہ زندہ پیشگوئی ہے کہ تمہارے لیے ور قوموں کے مقابلہ میں عیسائی بہتر ہیں اس لیے کہ“ وہ اور انکے درویش اور علماء رحمد دل ہیں “ جبکہ مسلمان، مسلمانوں پر رحم کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان سب کو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں،قوم نہیں۔ یہ وہ ہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے جن کی تعریف قرآن میں یہ فرمائی ہے کہ “ محمد رسول(ص) ا للہ اور ان کے ساتھی آپس میں نرم دل ہیں اور وہ کفار کے لئے سخت ہیں “ کیونکہ اللہ کا لکھا تبدیل نہیں ہوتا؟ اس لیئے صرف خرابی مسلمانوں میں ہی کہیں ہے جو وہ ایسے نہیں ہیں اور وہ اس معیار پر پورے نہیں اتر تے ہیں، جیسا کہ انہیں ہونا چاہیئے کیا ہی اچھا ہو کہ مسلمان بھی توبہ کرلیں اورا پنی اصل کی طرف لوٹ آئیں اور دنیا دوبارہ امن کا گہوارہ بن جئے؟ چونکہ ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ کھوٹا سکہ بازار میں نہیں چلتا ہے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے