جو کر نہیں سکتے اسے کہتے کیوں ہو۔۔۔ شمس جیلانی

جو آیا کہا اس نے بہت کچھ  مگر دکھا ئی کچھ نہں دیا ؟ یہ ہی سب کچھ ہم اب دیکھ رہے ہیں جو پہلے سے دیکھتے آئیں ہیں؟پہلا مو قع وہ تھا کہ بڑی منتوں کے بعد اللہ سبحانہ تعالیٰ نے برِ صغیر کے مسلمانوں کی سن لی اور ان کو اس وعدے کی بنا پر ایک بہت بڑا خطہ زمین عطا فر ما دیا کہ اس کو وہ ایک مثالی اسلامی ریاست بنا ئیں گے، جہاں کے اللہ کے قوانیں نافذ ہونگے اور حاکمیتِ اعلیٰ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہو گی؟لیڈروں نے قوم کو آواز دی آؤ اور اسے مستحکم بنانے کے لیے ہماری مدد کرو، ہمیں ہر قسم کے لوگ چاہیئے ہیں۔ مسلمان اپنے آبائی اور بھرے پرے گھر و بار ، نسلوں پرانے جمے ہوئے کاروبار اور ساکھ چھوڑ کر پاکستان چلے آئے یہ جانتے ہو ئے  بھی کہ بھا رت کی ہندو حکومت ان پرقبضہ کر لے گی۔ یہ میں ان کی بات نہیں کر رہا ہوں جو بیچارے فسادات کی بھینٹ  چڑھے اور جبراً نقل مکانی کر نے پر مجبور ہوئے؟ یہ میں ان کی بات کر رہا ہوں جو رضا کارانہ طور پر گھر بار چھوڑ کر آئے۔اس زمانے میں ذریعہ نقل مکانی صرف ٹرین ہی تھی  بحری اورہوائی جہاز نہ ہونے کے برابر تھے ۔ جیسے ہی وہ ٹرین کے ذریعہ پاکستانی حدود میں داخل ہوتے تو ہر اسٹیشن پر جو پہلی تبدیلی نظر آتی تو وہ یہ تھی کہ قبلے کی نشاندہی کے لیے تیر نما بورڈ لگا ہوتا تھا ، لوگ دیکھتے ہی سجدے میں اظہار تشکر کے لیے گر جا تے۔مگر وہ ریاست اسلامی اس وقت بھی نہیں بن سکی جس میں خلیفہ وقت امامت فرماتے اور تمام امت ان کے اتباع میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے سامنے با جماعت سجدہ ریز ہوتی؟ پہلی اسمبلی یہ ہی طے نہیں کر پائی کہ دستور کیسا ہو؟ یہ تھا پہلا تجربہ جو دستور ساز اسمبلی کی بر طرفی پر پانچ سال کے بعد ختم ہوا؟
پھر یہ ہوا کہ1973ء کے آئین کے خالق کو بر طرف کرکے جنر ل ضیاالحق صاحب تشریف لے آئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی اسلامی قوانین نافذ کر دیں گے؟ اورانہوں نے حدود آرڈینس نافذ بھی کر دیا۔ مگر ہم نے ان کے دس سالہ دور میں اور سب کچھ دیکھامگر کسی چور کے ہاتھ اور کسی ڈاکو کا پیر کٹا ہوانہیں دیکھا۔  البتہ ان کے سیاسی مخالفین کو ٹکٹی پر چڑھتے اوراسلامی کوڑے لگتے ضرور دیکھے۔ بعد میں وہ بھی کہنے لگ گئے کہ میرے پاس کو ئی گیدڑ سنگھی تو نہیں ہے جو میں ایک بگڑے ملک کو  ایک دن میں سنبھال سکوں؟ حالا نکہ یہ عذر غلط تھا جو وہ کرنا چاہتے تھے وہ ہو جاتا تھا؟کیونکہ تجربہ سے عملی طور پر کچھ اور ثابت ہوتا ہے کہ جو بھی ان سے ملتا تھا وہ انکا گرویدہ ہو جاتا تھا یہ نکی شخصیت کا کرشمہ تھا۔ جیسے کہ ہمارے دو مشفیق بزرگ نوابزادہ نصر اللہ خان اور حضرت مولانا وصیؒ مظہر ندوی جو کبھی کسی کے ہاتھ نہیں آئے؟ مگر ان کے چکر میں آگئے۔ ہم نے اپنے کانوں سے نواب زادہ صاحب کو یہ بعد میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی؟ مگر مولا نا بڑے سادہ لوح تھے وہ اپنے آخری وقت تک اس بات کے قائل رہے کہ وہ وعدہ ضرور پور کرتے مگر انہیں وقت نہیں ملا؟ آخران کے جہاز کو حادثہ نے آلیااورا ن کا وعدہ بھی  ان کے ساتھ چلا گیا۔
تیسرے وعدے کا دور اب چل رہا ہے وہ تھا ایک قدم اور آگے بڑھ کر عمران خان کا وعدہ؟ کہ میں آگیا تو پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنا دونگا؟ اللہ نے انہیں بھی موقع عطا فرمادیا اورانکا ایک وعدہ جوسادگی اپنانے کے بارے میں تھا وہ انہوں نے کسی حد تک پورا بھی کیاکہ وزیر اعظم ہاؤس میں انہوں نے قیام نہیں فر ما یا ۔ اور وہاں پلی ہوئی بھینسیں اور پرانی پر تعیش کاریں نیلام کردیں۔ مگر وہ کیا کریں کہ پنجاب کے وزیروں نے نئی کاریں بعد میں منگوالیں۔اور وہ کسی وجہ سے سمجھوتے پر مجبور ہو ئے  کیونکہ وہ اس پر خاموش رہے۔ چونکہ اللہ دلوں کے حال جانتا ہے وہ ا صل بات سے واقف ہوگا جو کہ ابھی تک ان کی مدد  کیئے جا رہا ہے؟ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہیں جس انداز سے بڑھی ہیں اس کا وہ جواب عوام کو مشکل سے ہی دے پائیں گے جس کے بارے میں وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے علم نہیں تھااور سخت ناراض بھی ہیں؟ ہم تو یہ بات مان لیتے ہیں کہ ہمیں حسن ظن رکھنے کا حکم ہے؟ مگر حزب اختلاف جوکہ اس بل کی محرک بھی تھی  وہ عوام کو بہکاتی رہے گی ممکن ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سازش بھی ہو۔ دوسرے کسی وزیر اعظم کاا تنا بیخبر ہونا یہ بھی  انکی سادگی میں شمار ہوگا؟  جبکہ مدینہ منورہ میں  ہم حضرت عمرؓ  کےدور  کودیکھیں تو ان کے پرچہ نویس ایک ایک لمحمہ کی انہیں خبر پہنچا تے تھے حالانکہ  تاربرقی جیسی سہولت بھی اسوقت نہیں تھی۔   جبکہ اس دور میں تمام اہلکاروں کے لیے یہ لازمی تھا کہ وہ موٹے آٹے کی روٹی کھا ئیں موٹا کپڑا پہنیں  ڈیوڑھی نہ بنائیں دروازے پر پٹے واالا نہ رکھیں وغیرہ وغیرہ۔ اور اس  کی خلاف ورزی پر وہ فوری طور پر گوشمالی کرتے تھے۔ چلیں جو سو ہوا، اب اس کا حل یہ ہے کہ وزیر آعظم صاحب عوامی سہولیات تیزی سے بڑھادیں، مثلا “ جس طرح وی آئی پیز کے علاج  عوام کے خرچے پر  آپ کے حکم پر ہورہا ہے ۔  اسے مساوات قائم کر نے کے لیے تمام قیدیوں کو بھی یہ ہی مراعات دیدیں۔ا ور جیسے پنجاب اسمبلی نے  پنے دن خود پھریں ہیں اسی طرح تمام پاکستانیوں کو اسلامی فلاحی ریاست بنا کر  مراعات عطا فر ما دیں اور ان کے دن بھی پھیر دیں ۔اس طرح سب کے آنسو پچھ جائیں  اور آپ کے وعدے بھی پور ے ہو جا ئیں  گے۔ ورنہ تو پنجاب اسمبلی کے اس سانحہ کے بعد ہمیں آثار اچھے نظر نہیں آرہے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے سامنے سورہ الصف کی آیت نمبر 2 اور 3 ہیں ۔ جن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانو کی سرزنش یہ کہہ کر فرما ئی  ہےکہ “ اے مومنو! ایسی بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو اور یہ بات اللہ کو سخت نا پسند ہے۔ دوسرے میرے آقا (ص) نے ایک حدیث میں فرما یا ہے کہ۔ بد عہد ہم میں سے نہیں ہے۔“ خدا نہ کرے کہ کسی پر بد عہدی کیا  الزام لگے؟ کیونکہ اس کی بد قسمتی میں کیا شک ہے جس کو رحمت للعالمین(ص) اپنا ماننے سے انکار فر مادیں۔ اللہ صبحانہ تعالیٰ ہر ایک کو اس صورت حال سے محفوظ رکھے ۔آمین؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.