جھوٹ پر تکیہ ہے جن کاوہ فتح پا جائیں ہیں ۔شمس جیلانی

جی تو چاہتاہے کہ ہم پاکستان کی سیاست پر لکھنا ہی چھوڑ دیں مگر کیا کریں کہ ہماری یہ عادت ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے کہ ہم ا سے لکھتے آرہے ہیں اور ہماری گھٹی میں سیاست پڑی ہوئی ہے مگر اس وقت کی سیاست شرفا کے ہاتھ میں تھی شریفوں کے ہاتھ میں نہیں؟ا نگریزوں نے ہمیں دوسو سال سے غلام بنا یا ہوا تھا؟ ان کا اصول یہ تھا نوکر شاہی بھی شرفا میں سے ہی ہونا چاہیئے۔ پیسہ اس وقت بھی چلتا تھا، مگر رشوت کے طور پر نہیں بلکہ بخشش طور پر جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتا تھا؟  جواب نمک میں آٹے کہ برابر ہوگیا ہے۔  جبکہ بخشش بھی صرف نچلے طبقے میں چلتی تھی یعنی کلرک تھانیدار اور پٹواری کی سطح پر۔ اس سے ا ونچی سطح پر پیسہ چلتے دیکھا نہیں گیا۔ اس وجہ کی وجہ یہ تھی اس سے اوپر کے لوگ قناعت پسند اس لیے ہوتے تھے کہ وہ بھرے پیٹ والوں میں سے ہوتے تھے۔ا گر کوئی بچہ آئی سی ایس کا امتحان پاس بھی کر لے تو جب تک اس ضلع کا ڈپٹی کمشنر یہ تصدیق نہ کردے کہ یہ اچھے گھرانے کا بچہ ہے اور اس کی پرورش بھی اچھے طریقہ سے ہوئی ہے؟ اس وقت تک بات آگے نہیں بڑھتی تھی؟ یعنی صرف اچھے گھرانے کا ہونا  ہی کافی نہیں تھا بلکہ اس کی پرورش بھی اچھے طریقہ پرہونا ضروری تھی کیونکہ اکثر بچوں کے باپ پچپن میں اللہ کو پیارے ہو جا تے تھے۔اور جائیداد بڑوں کے قبضہ میں آجاتی تھی بچے کا قصور یہ تھا یتیم ہو نے کی وجہ سے اس کی پر ورش اس طرح نہیں ہوتی تھی جیسی کہ اس طبقہ کے دوسرے بچوں کی ہوئی ہوتی تھی۔ اس پابندی کی وجہ سے ہر شخص کو اپناکردار بہت اونچا رکھنا پڑتا تھا۔ سیاست میں لوگ کمانے کے لیے نہیں خرچ کرنے آتے تھے۔ اب نہ وہ لوگ ہیں، نہ وہ نوکر شاہی ہے۔نہ ہی کہیں قناعت دکھا ئی دیتی ہے۔ بقول اللہ سبحانہ تعالیٰ  کے ارشاد مطابق اب وہ صورتِ حال ہے کہ“ اگر میں کسی کو ایک سونے وادی عطا کردوں تو وہ دوسری مانگنے لگتا ہے اور پھر تیسری؟ یعنی انسان کی ہوس کی کھوپڑی جو ہے وہ بھرتی نہیں ہے؟ ستر سال سے لوگ آتے رہے اور اسلام کانام لیکر حکومت کرتے رہے مگر اصل اسلام نافذ کسی نے بھی نہیں کیا؟ اب جناب عمران خان صاحب تشریف لا ئے جن کی منزل مدینہ کی ریاست ہے، جن کی دیانتداری اور سچائی پر بھی کسی کافر کو ہی شک ہوسکتا ہے، کسی مسلمان کو نہیں وہ نہ دن کو سوتے ہیں نہ رات کو سوتے ہیں لیکن ان کے چاروں طرف بھی وہی لوگ ہیں جو پہلے سے چلے آرہے یا ان کی اولاد ہے اس لیے عمران خان کوبار یاد دلانا پڑ رہا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا؟ اس سے کسی کو انکار نہیں ہے پہلے تھا ؟ قوم اب بھی اس پر قائم ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کی دستور کے سرورق پر اللہ کانام لکھا ہو ا ہے ، اسکی پارلیمان کے دروازے پر اللہ کا نام اور کلمہ طبیہ بھی لکھا ہوا۔ جہاں بیٹھ کر لوگ  اس کےحق ووٹ دیتے ہیں کہ شراب کھلے عام فروخت ہو نا چا ہیئے ۔ اور یہ کہ یہ ایمانداری اور صداقت ہمارے بس کی بات نہیں اس لیے دستور کی شق 62 اور 63کو نکال دینا چا ہیئے ؟اور یہ مطالبہ کرنے والے بالکل نہیں شر ما تے کہ  یہ کس کی امت ہیں ا ور کیا کہہ رہے۔ اور انہیں کیا کہنا چا ہئے ؟ جبکہ عمران خان کی یہ حالت ہے کہ ان کی راہ میں انتی مجبوریاں حائل ہیں کہ وہ جس طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ بقول ایک صاحب کے کہ بد معاشیہ راہ میں سدِ راہ بنی ہوئی کھڑی نظر آتی ہے۔ اور وہ ا نہیں اتنا ڈراتی ہے کہ اگر کوئی معمولی اعصاب کاانسان ہوتا تو وہ کبھی کا حکومت چھوڑ کر اور سب پر لعنت بھیج چلاگیا ہوتا؟ مگر وہ چونکہ عوام کا آخری سہارا ہیں عوام سوچ لے کہ پھر بد معاشیہ پہلے سے زیادہ شیر ہو کر شکار  کو نکلے گی اور کوئی اس کا ہاتھ  پکڑنے والا نہیں ہوگا؟۔جو کہ یہ سوچ کر گئی تھی کہ ہمارے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا؟ مگر عمران خان نے چلالیا اس لیے کہ ان کی ساکھ دنیا میں اچھی ہے۔ اس پر بھی طعنے مل رہے ہیں؟ کہ وزیر آعظم کشکول گدائی لیے قرضے پر قرضہ لیے جا رہے ہیں ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ قرضہ دینے والے تو پہلے بھی تھے؟ آپ نے بھی ملک بچا ؤ اسکیم چلا ئی تھی مگر ساکھ اچھی نہ تھی اول تو کسی نے دیا اور کہیں ملا بھی تو اس کا حساب آپ نے نہیں دیا؟لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے اپنے تجربے کی روشنی میں کچھ بتا ئیے؟ اس کا جواب ہمارے پاس  توکیا کسی سیاسی پنڈت کے پاس بھی نہیں ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ سانپ والے لوڈو کا کھیل جاری ہے چاروں طرف سانپ ہیں یا سیڑھیاں ہیں اور ان سے بچا کے گوٹ کو آگے بڑھانا جو کہ پلاسٹک کی ہے فولاد کی  بنی ہوئی نہیں ہے۔  جبکہ پلاسٹک کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر طرف بآ سانی مڑ جاتا ہے؟ وہاں مڑنے والا حکمراں چاہیئے۔ مگر وہ مدینہ کی ریاست میں فٹ نہیں ہو تا۔ وہاں حکمراں کا عالم تھا کہ جب ایران فتح ہو ا اور مال غنیمت لیکر صحابہ کرام میں سے دوا شخاص مال وجواہر سے لدے پھندے پہنچے تو حضرت عمرؓ فاروق رو دیئے ! لوگوں نے پوچھا کہ اے امیر مومنین یہ تو خوشی کا موقعہ مگر آپ رو رہے ہیں؟ تو فر مایا کہ میں رو اس پر رہا ہوں کہ اتنا بڑا خزانہ ایران سے چل کر مجھ تک پہنچ گیا میں کتنا خوش قسمت ہو ں کہ میرے دور میں اتنے پاک باز اوردیانتدار لوگ ہیں؟ جب عمران خان کو اس کے برعکس وہ امت ملی ہے جن کے ہاضمے بڑے اچھے ہیں، یعنی اینٹیں پتھر سب ہضم  ۔ حتیٰ کہ زکات مال ہضم ، وقف املاک ہضم اور جانے کیا ہضم؟ جبکہ ہر حکمراں کے ہاتھ پا ؤں  وہی ہیں ؟اس کا میرے خیال میں کوئی حل ہے تو صرف و ہی ہے کہ اس جموریت کولپیٹ کر رکھدیا جا ئے اور جس کے نام پر یہ ملک بنا ہے اسی کا نظام نافذ کردیا جا ئے؟ مگر یہ ہو گا کیسے  اورکرے گا کون ؟ وہ خود ہی کر دے تو کردے جیسے ملک بنادیا تھا ؟ بظاہر توآثارنظر نہیں آتے؟ کیونکہ عوام سے یہ پوچھیئے کہ تم میں وہ کونسی خوبی ہے جو مغضوب قوموں میں تھی اور تم میں نہیں ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.