شہادت ہو تو ایسی ہو ، قیادت ہو تو ایسی ہو۔۔۔ شمس جیلانی

حالیہ سانحہ نیوزی لینڈ نے جو تاریخ دہرائی ہے مدت ہوئی کہ مسلمانوں کا یہ کردار دنیا بھول گئی تھی، وہ اسے دو بارہ یاد دلادی ۔ کیونکہ بقول علامہ اقبال ؒ کے مسلمان تو دنیا میں بہت بڑی تعداد میں موجود تھے اور ہیں، مگر ان میں روحِ بلا لیؓ نہیں رہی تھی؟  مگر جناب نعیم راشد شہیدؒ جیسے بہادر مسلمان نے اپنی اور بیٹے طلحہ (شہید ؒ )کی جان دیدی اور انکی کی پیروی نہیں کی جوو وہاں سے اپنی جانیں بچانے میں مصروف۔ تھےاورفرار ہو رہے تھے ورنہ ایک آدمی کو سب ملکر چمٹ جاتےتو اس دہشت گرد کو زندہ پکڑ نا مشکل نہ تھا؟  مگر روح بللالی کے حامل   ان میں دوہی تھے اور جو کہ اس قرآنی آیت کی عملی تفسیر  بنے کہ“ ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانا ہے اور ایک انسان کو قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنا “ (سورہ المائدہ آیت نمبر32 )  جبکہ گزشتہ کئی عشروں سے میڈیا جو اسلام کی تصویر پیش کر رہی وہ اس کے برعکس  اورانتہائی بھیانک تھی۔ اس کے مطابق اسلام نام تھا بر بریت کا جبکہ اس کا عملی ثبوت چند نام نہاد مسلمانوں نے خود فراہم کیا ہوا تھا اور اس پر پوری دنیا جن میں خود مسلمان بھی شامل تھے کنفیوژڈ تھی کہ کونسا اسلام مانیں اس لیے کہ اسلام کی جو عملی شکل تھی وہ تھا جنابِ محمد رسول للہ (ص) کااسوہ حسنہ جو انہوں(ص) نے عملی طور پر کرکے بھی دکھادیا تھا۔  جس کو مسلمان مدت ہوئی چھوڑ کر فرقوں میں بٹ چکے ہیں؟ جو جسطرح ہمارے سامنے  اپنا نیا اڈیشن بناناکر پیش کرنا چاہے وہ پیش کرسکتا ہے؟ کیونکہ ہماری اکثریت اصل سے واقف ہی نہیں ہے نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا جو  مخالفین نے ہمارا موجودہ کردار وقتی مصلحت کے تحت لکھدیا وہی اسلام سمجھا جاتا ہے اور یہ غلط فہمی صدیوں تک پھیلتی پھولتی رہی جس کے پیچھے نہ جانے کتنے قلم مصروف رہے ، کتنے لوگ محنت کرتے رہے، جس پر بے ا نتہا مال بھی خرچ ہوا۔ اس تمام جھوٹے پر اپیگنڈے کو جسکا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ لوگوں ذہنوں پر چھا کر اسلام فوبیہ کی شکل اختیار کر گیا۔
لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہر تدبیر سب سے زیادہ طاقتور اور بے مثال ہوتی  ہے اور وہ جب کچھ کرنا چاہتا ہے تو ساری دنیا کا بنایا ہوا مکر بھی ایک پل میں ختم کردیتا ہے؟ اس ایک سانحہ کے ذریعہ اس نے ایک لمحہ میں  صدیوں کا  پرا پیگنڈہ غارت کردیا؟ اسلام مخالفوں کی سب تد بیریں دم توڑ گئیں؟ اور جو لوگ اسلام فوبیہ پھیلا نے میں پیش پیش تھے اب اس کے برے اثرات دیکھ کر اسے ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
اس پر ایک مسلم خاتون محترمہ عنبرین صاحبہ نے  جو کردار پیش کیا ہےاور جو صبر کا مظاہرہ کیا وہ بھی بے مثال ہے کہ ا نہوں نے اپنے شوہر اپنے بیٹے کو کھونے کے باوجود ان کے قا تل سے بجا ئے نفرت کرنے کہ اس لیے ہمدردی کااظہار کیا ہے کہ بیچارہ درندوں کے پراپگنڈے کا شکار ہوگیا؟ اس پر وہاں موجود وزیرآعظم نیوزی لینڈ نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا جوکہ خود بھی ایک رحمدل خاتون ہیں؟  انہیں حیرت اس بات پر ہوئی کہ اس عظیم نقصان پر انہوں  نے ایک  خاتون کو شاید پہلے دفعہ مسکراتے ہوئے دیکھا ،آنسو بہاتے نہیں؟  محترمہ عنبرین کے چہرے کی معصومیت یہ بتا رہی تھی کہ ابھی تک کسی شہید کی موت ایک مسلمان عورت کے لیے مقام فخر ہے مقام رنج نہیں؟ کیونکہ اسلامی عقیدے کے مطابق شہید مرا نہیں کرتے وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان کا رزق ان کے پرور دگار کے پاس ہے بشرطِ  کہ مرنے والے نے شہادت صرف اللہ کی راہ میں دی ہو خالص اسی کے لیے بھی ؟ شر پسندی کی راہ میں نہیں، فتنہ پروری کی راہ میں نہیں؟  یہ سبق بھی مدت ہوئی مسلمان بھول چکے تھے۔ سلام ہو اس خاندان پر جس نے انسانیت کے لیئے قربانیں دیکر لوگوں کی یاد دشت  کو تازہ کر دیا؟ کیا  اس عظیم خاتون کو پاکستانی حکومت کسی خطاب سے نوازے گی؟ جبکہ شوہر کو نووازنے کی بات ہورہی ہے۔ اور وہ دنیا میں ہیرو قرار دیئے جاچکے ہیں۔
اب آئیے اس حقانیت کی طرف جس میں مجھے قر آن کی اس آیت کی عملی تفسیر نظر آئی جیسی کہ وہاں لکھی ہوئی ہے کہ  “تم حضرت عیسٰی علیہ ا لسلام کے ماننے والوں کو رحمدل پا ؤگے “    سورہ المائدہ آیت نمبر(82 )وہ ہیں محترمہ جیسنڈا آرڈران وزیر آعظم نیوزی لینڈ جنہوں نے اس میدان میں انتہا کردی کہ وہ مساجد کے ارد گرد گھومتی رہیں اپنی اور اپنی رعیت میں سے ایک چھوٹی سی اقلیت کے درمیان سیاہ لباس پہن کر بغیر فوج اور  سکو ریٹی اور پرٹو کول کے، متاثرین کے گھر گھر جا کر متعلقین کے آنسو پوچھتی رہیں اپنی پارلیمان کاا جلاس تلاوت قر آن پاک سے شروع کرا یا ، چونکہ واقعہ ،جمعہ کو ہوا تھا لہذا دوسرے جمعہ کو نہ صرف وہاں کی مساجد کھلی رکھیں بلکہ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر آذان بھی نشر کی گئی اور آفرین ہے ان کے ساتھ ان کے عوام کو بھی کہ وہ برابر کے پارک میں نماز کے وقت اپنے مسلم ہم وطنو سےاظہار یکجہتی کے طور پر ان کے شانہ بہ شانہ نہ صرف کھڑے تھے بلکہ مساجد کے دروازوں پر بھی پہرا بھی دے رہے تھے؟   شاید یہ ہی وجہ تھی وہ اپنے عوام میں اتنی مقبول ہیں کہ ان کے دل میں یہ خدشہ بھی پیدا نہیں ہوا کہ میرے ملک کی اکثریت کہیں میرے خلاف نہ ہوجا ئے؟ کیونکہ یہ بھی اللہ کی دین ہے کہ جس کے دل میں چاہے  وہ رحم ڈالدے؟  جبکہ اب تمام مسلمان خواتین میں وہ کردار تقیرباً مفقود ہوچکا ہے جوکہ محترمہ عنبر ین نعیم راشد صاحبہ نے دکھایا جو پہلے عام تھا ؟ جبکہ ایک نہیں بہت سی آیتوں میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فر ما یا ہے کہ“ اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے“کیا مسلمانو کی اکثریت ان ہستیوں سے کوئی سبق حاصل کر ے گی  کیا وہ مسلم ممالک  کےحکمراں جو اپنی عوام میں بڑھی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے بغیر حفاظتی دستوں کے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں ، خلفائے راشدین کی طرح محلات سے اس اعتماد کے ساتھ باہر نکل سکیں گے جیسے کہ وہ عوام میں گھلے ملے رہتے تھے؟ شاید انہیں یہ مشکل لگے؟  چلیں کیا وہ اُن ملکوں سے سبق لیں گے جس طرح اور معاملات میں لیتے ہیں جو ترقی یافتہ ہیں اور اکثر بغیر سکوریٹی کے عوام میں گھلے ملے دکھا ئی دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس واقعہ کا دنیا ضرور اثر لے گی کیونکہ ا للہ سبحانہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہی ہے؟لیکن ہم نہیں جان سکیں گے اس لیے کہ دلوں کا حال اور علم غیب صرف اللہ ہی کو ہے؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.