انگریزی کا مقولہ ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف نہ ملنے کے مترادف ہے‘‘ حال ہی میں عدلیہ کی جوڈیشل کونسل نے چیف جسٹس صاحب کی صدارت میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ماڈل ٹرمینل کرائم کورٹ ہر ضلع میں قائم کی جائیں جن کی تعداد114 ہوگی۔تاکہ منشیات اور قتل کے ملزموں کو جلد جیل سے چھٹکارا مل سکے اور وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے مقدمہ کا فیصلہ سن سکیں گے۔ جبکہ ایسے بھی کیس میڈیا میں رپورٹ ہوچکے ہیں کہ بعض ملزم عدالت سے جب باعزت بری ہوئے تو بصدافسوس اس کے گھر والوں کو کہنا پڑا کہ وہ بیچارہ بے گناہ پھانسی پر چڑھ چکا ہے۔ موجودہ عدلیہ نے گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کا نام دنیامیں بہت بلند کیا ہے۔ جہاں بھی حکومتی نظام میں خرابی نظر آئی اس نے بروقت مداخلت کی؟ ورنہ تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ حکومت کی رٹ نام کی کوئی چیز ملک میں کہیں بھی موجود نہیں تھی۔ جس طرف دیکھیں مافیا کا زور تھا۔ قتل ایک معمولی بات تھی قاتل پکڑے نہیں جاتے تھے ایک طبقہ پیشہ ور قاتلوں کا پیدا ہوگیا تھا، پیسے دواور جس کو چاہو قتل کروالو۔ کسی کی جائیداد بھی محفوظ نہ تھی۔ صبح کو کو ئی گھر چھوڑ کر جائے تو یہ بات یقینی نہ تھی کہ شام کو واپسی پر وہ اسی حالت میں ملے گا اور قبضہ گروپ کا کہیں ادھر سے گزر ہوگیا تو ممکن تھا کہ کسی اور کے نام کی تختی شام کو گیٹ پر لگی ملے، پھرتا حیات قبضے کے لیئے وہ عدالتوں کے چکر لگاتا رہے؟
وجہ یہ تھی کہ ساری معافیہ کسی نہ کسی کی آلہ کار تھی لہذا ان کے پکڑ ے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا؟ جو چیز بھی بازار میں فروخت ہورہی تھی وہ بھی سب نمبر دو کی تھی حتیٰ کہ جان بچانے والی دوائیں اور سیل بند پانی بھی ان میں شامل تھا۔شاید اللہ سبحانہ تعالیٰ کو رحم آگیا اور گزشتہ دور میں عدلیہ اور آمریت آپس میں ٹکراگئی۔ چونکہ وہ آمریت کا دور تھا اس لیئے عد لیہ کو شروع میں بہت کچھ جھیلنا پڑا؟ مگر اس کانتیجہ یہ ہوا کہ اس کے حق میں عوام اٹھ کھڑے ہوئے؟آمریت مجبور ہوگئی کہ جمہوریت بحال کرے؟اس کے بعد آمر کو جمہوریت بحال کرنا پڑی اور عدلیہ انتہا ئی طاقور ہوکر ابھری؟ پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مہربانی سے عدلیہ میں سیٹ اپ بھی ا یسا آگیا کہ جو بھی چیف جسٹس بعد میں آئے وہ پہلے والوں سے بہتر ثابت ہوئے اور وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ابھی تک وہی آمر ہی قابض ہوتا؟ پھریہ عدلیہ کا ہی فیض تھا کہ ا نتخابات منصفانہ اور وقت پرہوگئے اوراس طرح چارعشرے سے بھی زیادہ پرانی پارٹیاں جڑ سے اکھڑ گئیں؟ اس سے عمران خان جیسے لیڈر کو حکومت بنا نے کا موقعہ مل گیا جو کچھ کرنے کے لیئےآجکل کوشاں ہیں؟اس طرح کہیں جاکر عدلیہ کو اب اپنے شعبہ میں اصلاح کرنے کا وقت ملا۔ ویسے تواس سلسلہ میں جج صاحبان پوری طرح معلومات سے با خبر ہیں کہ مسائل کیاہیں اور ان کا حل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر مرض کی تشخٰیص ہوجا ئے تو علاج آسان ہوجاتا ہے؟البتہ وہ رواج انہیں ضرور بدلنا ہونگے جو کہ عدل میں حارج ہوتے ہیں؟ مثلاً ہمارے ہاں پہلا رواج یہ ہے کہ رپورٹ درج کرانے کے لیئے بھی سائل کو بازار سے کاغذ کا دستہ خود لاکر دینا پڑتا ہے اور چائے بھی پلانا پڑتی ہے اوراہلکاروں کی جیب میں بھی صرف کچھ نہیں، بلکہ بہت کچھ اور وہ بھی منہ مانگا ڈالنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر رپورٹ لکھی جاتی ہے۔ پھر بات آگے بڑھتی ہے؟ دوسرے اکثر موقع کے گواہ بھی تھانے والے خود فراہم کردیتے ہیں جو تھا نے میں ہی یا تھانے کے باہربیٹھے ہو ئے مل جا تے ہیں؟ اور وہی کیس بگاڑ نے کا باعث بھ ہوتے ہیں اس لیے کہ ان سب کے ریموٹ پولس والوں کے پاس ہوتے ہیں اوران کو دوسرے فریق سے مال زیادہ مل جا ئے تو گواہ ان کے دباؤ کی وجہ سے بیان بدلتے رہتے ہیں؟۔ دوسرے جھوٹے گواہ اور جھوٹی کہانی سچ کی طرح پائیدار نہیں ہوتے؟ لہذاجراح کے دور ان ایک کی دوسرے سے تضاد بیانی کیس کاستیاناس کر دیتی ہے؟ اگر جھوٹے گواہوں اور جھوٹی رپورٹیں در ج کرانے والوں کو بھی عدالتیں موقعہ پر ہی سزا سنادیں تو مقدمہ بازی کا سلسلہ ہی بند ہوسکتا ہے؟ پھر دوسری وجہ وکیل ہیں وہ ایسی ترکیبیں بتاتے ہیں کہ مقدمے سالوں چلتے ہیں۔ کہ کبھی وہ غیر حاضر ہوجاتے ہیں یہ کہہ کہ میراآج خون کا ایک مقدمہ فلاں کورٹ میں لگا ہوا ہے؟ اور جج صاحب تاریخ دینے پر مجبور ہوجا تے ہیں؟اس کا حل نکالنے کی لیے لاہور کے سابق چیف جسٹس صاحب نے کوشش کی تھی کہ سارا ریکارڈ کمپیوٹرپر رکھا جائے تاکہ عدلیہ خود چیک کرسکے یہ تمام مسائل کا بہترین حل تھا اور ان تمام حربوں ک توڑ بھی مگر وہ تبدیل ہوگئے؟ اب پتہ نہیں اس کاکیا بنا کیونکہ اس کے بھی وکیل مخالف تھے اور عدلیہ کے اس قدم کے بھی ہی مخالف ہیں اور شاکی بھی کہ ان سے مشورہ نہیں کیا گیا؟ جبکہ تمام عدالتوں کے ہاتھ اور پاؤں وہی ہیں اور ہر ریفارم سے زَد ان پر ہی پڑتی ہے؟ پھر عدالتوں میں بھی کلرکوں کے درمیان لین دین کا سلسلہ صدیوں سے چلارہا؟ اور یہ کارِ خیر بھی وکلاء یاان کے منشیوں کے ذریعہ ہی انجام پاتا ہے۔ دوسرے اکثر پولس پیشی پر نہیں آتی ہے۔ ان سب کا حل صرف کمپیوٹر کے استعمال میں پوشیدہ ہے؟ کیونکہ جھوٹ بولنے سے پہلے پھر ہرآدمی ڈریگا کہ عدالت جھوٹ پکڑنہ لے؟ ورنہ ان تمام ہتھکنڈوں کے جاری رہتے ہوئے تین مہینے کے اندر کیس مکمل سن کر اس کا فیصلہ کر نا ججوں کے لیے بہت ہی مشکل ہو گا۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے