رمضان خود کو بدلنے کا مہینہ ہے۔۔۔شمس جیلانی

جس ساعت میں یہ ملک بنا تھا وہ انتہائی مبارک رات تھی جس میں اس نے عمل کرنے کے لیے ہمیں قرآن شریف عطا فرمایا تھا  یعنی وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی جسے شبِ قدر کہتے ہیں؟ اس وقت ہم میں نیکوں کا تناسب سو فیصد نہ سہی تو ننیانوے فیصد ضرور تھا؟اگرایسا نہ ہوتا تو نہ ہماری دعائیں قبول ہوتیں نہ ملک بنتا؟ اور یہ ایک دو دن کی دعاؤ ں کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ صدیوں کی دعاؤ کا نتیجہ تھا۔ تب کہیں جا کر یہ دن دیکھنا نصیب ہوا تھا۔ یہ اس کا کرم تھا؟ کہ مانگنے والوں کی عاجزی اور انکساری کی بنا پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کو رحم آگیا اور اس نے  صدیوں کی محرومی کے بعددنیا کا سب سے بڑاملک عطا کر دیا؟ جبکہ ہم اک چھوٹا سا تکڑا مانگ رہے تھے،  اس وعدے کے ساتھ کہ ہم وہاں تیرا نام بلند کریں گے؟ تیرے دین کو سر بلند کریں گے؟ جبکہ اسے معلوم تھا کہ کل کیا ہوگا؟اس قوم کے ساتھ بھی وہی ہواجو دوسری قوموں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ جس کی وجہ سے حضرت عمرؓ اپنے دورِ اقتدر میں پریشان تھے؟اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا فرما یا کرتے تھے کہ“ اے اللہ ہمارے اور ایران  کے درمیان آگ کے دریا حائل کردے تاکہ ان کی زرپرستی کااس امت پر سایہ نہ پڑے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرے سادہ لوح بندے ان کے رنگ میں رنگ جا ئیں اور دولت آنے کے بعد سادگی چھوڑ کر کہیں انہیں جیسے نہ ہوجائیں جس کی اطلاع حضور(ص) دے چکے تھے کہ“ میں اسوقت سے ڈرتا ہوں جبکہ یہ زمین سونا اگلے گی“
مگر اس کا اپنا پلان تھا جوپورا ہونا تھا؟ اور اسے وہ وعدے پورے کرنا تھے جو اس نے اپنے نبی (ص) سے کیے تھے،اور ان وعدوں کی بنا پر نبی  (ص)نے اپنے تابع فرمان لوگوں کوناامیدی کے دور میں بتا دیئے تھے؟ جیسے کہ خندق کی مٹی سے مختلف ممالک کی ا ُنہیں (ص) خوشبوئیں آنا، یا حضرت سراقہ ؓ  کے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن پہنائے جانا؟ کیونکہ اس کی شان ہی یہ ہے کہ جب دینے پر آئے تو اپنی شایانِ شان ہی دیتا ہے؟
قصہ مختصر وہ ساری پیشنگو ئیاں ایک یک کر کے پوری ہونا تھیں جو پوری ہوئیں؟ چونکہ تقویٰ کا وہ معیار جو مومنوں میں حضور(ص)نے خوداختیار فرماکر اور اپنے صحابہ کرام ؓ سے عمل کرواکر دنیاکو دکھادیا تھا۔  جوکہ بعد میں نئے آنے والوں کی یلغار کے سامنے قائم نہیں رہ سکا؟ اور قوم ان ہی کی راہ پر گامزن ہوگئی؟ یہ ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے کہ ہم بہتر سال  میں  بجا ئے تقویٰ  میں ترقی کرنے کہ وہاں پہنچ گئے کہ اب کہیں پتہ چلتا ہے کہ کوئی نیک اور صاحبِ تقویٰ ہے تو پورا ملک دوڑ پڑتا ہے کہ چلو دیکھیں تو سہی کہ صادق اور امین ہوتا کیسا  ہے؟ آپ نے اندازہ کیا کہ ہم جب غلام تھے تو کتنے بلند تھے؟ اب جب آزاد ہیں تو کتنے پست ہوچکے ہیں؟جو بھی آتا ہے ہم اس سے بے حساب امیدیں باندھ لیتے ہیں؟ مگر یہ مشہور کہاوت بھول جا تے ہیں کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا؟ نتیجہ یہ ہے کہ مایوسی پہ مایوسی ہوتی ہے جوکہ ہمارا مقدر ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک من حیثیت القوم ہم خود کو درست نہ کر لیں؟ اس کے لیے ہمیں خود احتسابی اختیار کرنا ہو گی۔ تب ہم اس قابل ہوسکیں گے ہم اپنا تجزیہ خود کرسکیں؟  اس صورت میں ہمیں معلوم ہوجا ئے گا کہ ہم میں خامیاں کیا ہیں اور اب ہم ہیں کیا؟ کیونکہ ہم گمان تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے ہیں مگر کام سارے وہ کررہے ہیں جو ناپسندیدہ بندے کیا کرتے ہیں؟  حل یہ ہے کہ اس ا نا کو اپنے اندر سے کھرچ کھرچ کے نکالنا ہوگا  تاکہ ہم دوبارہ پسندیدہ بندوں میں شمار ہونے لگیں؟ اس کی  پہلی منزل ا جتماعی توبہ ہے؟
اس لیے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ “  کوئی بندہ میری طرف بڑھے تو اس کا راستہ آسان کردیتا ہوں “  لہذا وہ آسانیا ں پیدا کردے گا اور آپ کے دن پھیر دے گا۔ رمضان شریف میں آپ چند دن کے بعد داخل ہونے والے ہیں، یہ بہترین موقع ہے شاید پھر کبھی  نہ ملے کہ اس وقت آپ کے پاس ایک ایسا لیڈر ہے جو اور کچھ کرے یا نہ کرے ایماندار تو ہے۔اگر یہ موقع بھی کھودیا؟ تو آپ  ہمیشہ کی طرح ایسے لیڈروں کو بھی ترسیں گے کیونکہ وہ اکیلا کیا کریگا؟جبکہ اس کے ہاتھ پاؤں وہی ہیں جوا سے وراثت میں ملے ہیں۔اس کے بغیر کوئی تبدیلی آجا ئے یہ سوچنا بھی احمقانہ بات ہے؟ کیونکہ اللہ کی شرط یہ ہے کہ“میں اس قوم کی کبھی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتی“ اور یہ بھی فرما دیا کہ میں اپنی سنت کبھی تبدیل نہیں کرتا؟۔آپ کے لیے آئی ا یم ایف کی سیکڑوں شرائط ماننے کے بجا ئے جس میں یہ بات یقینی بھی نہیں ہے کہ اپ کامیاب رہیں گے؟ بہتر یہ ہے کہ اللہ کی بات مان لیجئے جو اپنے وعدے پورے کرنے پر قادر ہے وہ سارے دکھ دلدر اکیلے ہی دورفرما دیگا۔ کیونکہ آپ کے ساتھ پورے رمضان کی برکتیں بھی ہونگی ستا ئیسویں شب کی برکتیں بھی اور عید  کے انعام کے طور پر وہ آپ کو جنت کا حقدار بھی بنا دے گا۔ کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ میں کسی کو سزا دیکر خوش نہیں ہوں؟ صرف میری بات مان لیا کرو؟ میں اپنی یہ درخواست قوم کی خدمت میں بہادر شاہ ظفر  کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں کہ
ع ظفرآدمی  اس کو نہ جانئے گا وہ کیسا ہی ہو صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.