حج کے موقعہ پرتین خارجیوں نے تین حضرات کے قتل کی سازش کی جن میں حضرت علی (ع) سرِ فہرست تھے پھران کا قاتل کوفہ پہو نچ گیا جہاں اس کو ایک خارجی عورت بشکل بیوی مل گئی اور اس کے ذریعہ سے اس کا ایک رشتہ دار وردان نامی مل گیا۔ جبکہ ایک دوسرا شخص ابن ِ ملجم کا دوست بن گیا اور اس سازش میں وہ بھی شامل ہو گیا۔ سازش کی تکمیل کے لیئے 17رمضان المبارک کی تاریخ بد بختوں چونکہ پہلے سے مقرر کر رکھی تھی لہذا وہ تا ریخ آنے کا انتظار کر نے لگے؟ چونکہ یہ حدیث ہے کہ “ ہر کام کے لیئے ایک وقت معین ہے اور ہر وقت کے لیئے ایک کام “ لہذا اس منصوبے کے لیئے بھی تاریخ17رمضان اور وقتَ نماز فجر ازل سے مقرر ہوچکی تھی۔
جبکہ یہ وہ دور تھا کہ حضرت علی (ع) با لکل دلبرداشتہ ہو چکے تھے اور انہوں (ع) نے ایک محفل میں ذکر فر مایا بھی تھا کہ میں ایسے ایسے شہید کیا جا ؤ نگا تو ان میں سے بہت سے لو گ طیش میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہم ایسا کر نے والے کے پو رے خاندان کو نیست و نابود کر دیں گے؟ مگر حضرت علی (ع) نے اپنی قسم دیکر فر مایا کہ ایسا ہر گز نہ کر نا کہ تم کسی بے گناہ کو میرے لیئے قتل کرو؟ کیونکہ ان کے سامنے حضرت عمر (رض) کی مثال تھی جس میں ان کے صا حبزادے عبید اللہ نے ہر مز اور حضرت عمر(رض) کے قاتل کی بیٹی کو بھی قتل کر دیا تھا۔ جس پر وہ انہیں (رض) کے دور میں گرفتار بھی کر لیئے گئے تھے۔مگر بعد میں حضرت علی (ع) کی رائے کی مخالفت کر تے ہو ئے ۔ قاتل کے ورثہ کو مال دیکر حضرت عثمان (رض) نے را ضی کر لیا اور ان کو رہا کر دیا ۔ لیکن جب حضرت علی (رض) خلیفہ بنے تو پھر اس خوف سے کہ حضرت علی (رض)ان پر حد دوبارہ جاری کردیں گے کہ ہر مز کا معاملہ ابھی تک باقی تھا وہ فرار ہو کر شام میں معاویہ کے پاس شام چلے گئےاور ان کی طرف سے جنگ صفوان میں شریک بھی ہوئے ۔
مگر یہاں معاملہ دوسرا تھاکہ حضرت علی کو اپنا قاتل اور پوری تفصیل معلوم تھی جس کی اطلا ع ان کو حضور (ع) نے پہلے ہی دیدی تھی مگر تا ریخ سے ثابت ہےکہ حضرت عمر (رض)اپنی شہادت کے بارے میں با خبر نہیں تھے ۔ اگر ہو تے تو وہ شہادت کےوقت یہ نہ فر ماتے کہ“ الحمد للہ میرا قاتل مسلمان نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ کوئی پشگی وصیت کر سکے۔
چونکہ حضرت علی (ع) یہ نہیں چاہتے تھے کہ تا ریخ پھر اپنے آپ کو دہرائے اور کوئی ان کی وجہ سے نا حق قتل ہو۔ اس لیئے انہوں نے (ع) اپنے جانثاروں کو اپنی قسم دی ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ جب آپ کو پتہ ہے کہ آپکا وقت ِ شہادت قریب آگیا ہے تو کیا آپ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نہیں مقرر فر ما ئیں گے ، تب اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ تو آپ نے فر مایاکہ “ میں عرض کرونگا کہ اے اللہ !تو نے مجھے اپنی مر ضی کے مطابق ان میں خلیفہ مقرر کیا تھا، پھر تو نے مجھے موت دیدی۔ اور میں نےان کو تیرے حوالے کیا کہ چا ہے تو ان کی اصلاح فر ما اور خواہ ان کو گمرا ہ کر۔ ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت جندب بن عبد اللہ (رح) نے پوچھا کہ کہ پھر ہم حضرت حسن (ع) کو خلیفہ مقرر فر ما دیں تو حضرت علی (ع) نے فر مایا کہ “ نہ میں تمہیں روکتا ہوں نہ اس کا حکم دیتا ہوں “ کیونکہ وہ اس پر بھی با خبر تھے کہ حضرت حسن (ع) کو خلیفہ ہو نا ہے اور حضور (ص) کے ارشاد کے مطابق دو گروہ میں انہیں صلح بھی کرانا ہے۔
جب وقت ِ معین آپہو نچا اور یہ تینو ں ۔ ابن ملجم ، وردان اورشبیب ۔ اس دروازے کے سامنے گھات میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ جس سے کے حضرت علی (ع) باہر تشریف لا یا کر تے تھے۔ وہ (ع) لو گوں کو نماز کے لیئے بلند آواز سے پکارتے ہو ئے چلے اور منبر کا رخ کیا سب سے پہلے شبیب نے وار کیا جو کارگر نہ ہوا کہ حضرت علی(ع) جھکائی دے گئے اور اس کی تلوار مسجد کے طاقچہ میں لگی۔ اس کو ناکام ہو تا دیکھ کر بے خبری میں دوسرے طرف سے ابن ِ ملجم نے جو کمبل اوڑے لیٹا تھا اٹھ کر وار کیا جو ان (ع)کے سر پر لگا اور خون بہتا ہوا ان (ع) کی ریش مبارک تک آگیا ۔ وردان بھاگ کھڑا ہو ا جبکہ بھا گتے ہو ئے ایک حضرت موت کے رہنے والے شخص نے اسےقتل کر دیا، شبیب بھاگنے میں کامیاب ہو گیا، اور ابن ِ ملجم کو گرفتار کر لیا گیا ۔
حضرت علی (ع) نے جعدہ بن ہبیرہ (رح)کو اپنی جگہ امامت کے لیئے کھڑا کیا،اور وہ خود زمین پر لیٹ گئے ۔بعد میں حا ضرین ان (ع)کو اٹھا کر ان (ع)کے گھر لے گئے۔ اور ابن ملجم کو ان (ع)کے سامنے پیش کیا۔ اس موقعہ پران (ع) کے اور قاتل کے درمیان جو مکالمہ ہوا اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضرت علی(ع) نے کسی موقعہ پر اس پر احسان بھی کیا تھا۔ جو انہوں (ع) دیکھتے ہی فر مایا کہ “ کیا میں نے تیرے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا تھا“ اس نے کہا بے شک کیا تھا؟ مگر اس نے وجہ قتل کے طور پر خوارج کا عقیدہ دہرایااور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ یہ تلوار زہر پلا ئی ہو ئی ہے جس سے میں نے وار کیا ہے لہذا اب آپ (ع) جانبر نہیں ہو سکیں گے ۔حضرت علی کرم اللہ (ع) نے فرمایا کے اسے قید رکھو اگر میں (ع) زندہ رہا تو میں (ع) جانوں کہ میں اس کے ساتھ کیا سلوک کرونگا ؟ اگر میں (ع) مر گیا تو پھر تم اسے قتل کر دینا۔
حضرت علی (ع)کی حالت روز بروز خراب ہو تی گئی۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ ان کا وقت قریب آپہو نچا ہے تو انہوں نے اپنے کا تب کو طلب فر مایا پہلے حضرات حسنیں (ّع) اور حضرت محمد (ع) بن الحنیفہ کو اللہ کا تقویٰ اختیار کر نے نماز پڑھنے، زکاة دینے غصہ پینے صلہ رحمی کرنے اور نیکی کا اور فواحش سے بچنے کے حکم دینے کی وصیت فر مائی ۔ نیز یہ بھی وصیت فر مائی کہ تینوں (ع) بھائی آپس میں مل کر رہیں اور باہمی مشورے سے کام کریں۔ پھر اس کے بعد ایک طویل وصیت تحریر کروائی جو انتہا ئی رو ح پر ور ہے۔
پھر اسی کو ضابطہ تحریر میں لانے کے لیئے کاتب کو طلب فر مایا۔ کیونکہ ان (ع) کے سامنے وہ سابقہ تجربہ تھا جو کہ وہ (ع)دہرانا نہیں چا ہتے تھے، جوحضور(ص) کو آخری وقت پیش آیاکہ جب حضور (ص) نے اپنی آخری وصیت لکھوانا چا ہی اور فرمایا کہ “ میں تم میں ایسی ہدایات نہ چھوڑ جا ؤ ں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو “ تو کچھ لوگوں نے مخالفت کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک امت یہ سوچتی رہتی ہے کہ خدا جانے وہ کیا لکھوانا چا ہتے تھے ۔ جس سے امت محروم رہ گئی ۔لہذا جب کاتب آگیا تو حضرت علی (ع) نے حا ضریں کے سامنے اس کو املا کرانا شروع فر ما یاجس کی تفصیل ہم آگے درج کر رہے ہیں ۔ مگر اس سے پہلے ایک خلا صہ پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کی کچھ رہنما ئی ہو سکے۔
یہ وصیت اللہ کی حمدو ثنا اور رسول (ص) پر شہادت سے شروع ہوتی ہے۔ پھر قرآن کی وہ مشہور آیت ہے کہ اللہ اپنے دین کو سب دینوں پر غالب کر کے رہے گا چا ہے کافروں کو کتنا ہی گراں گزرے۔ اس کے بعد دوسری مشہور آیت ہے کہ جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضور (ص) کو حکم دیا تھا جس کا مفہوم یہ ہے۔کہ کفار سے کہدو کہ میرا (ص) مر نا میرا جینا سب اللہ کے لیئے ہے اور میں اول مسلمان ہوں۔ اس کے بعد اپنی صلبی اولاد اور پھر رو حانی اولاد یعنی امت کو مخاطب فرمایاہے ۔ اس کے بعد وہ پند اور نصا ئح ہیں جو اسلام کی جان ہیں ۔ اس میں پہلی بات تو اتحاد ِ ملت ہے۔ پھر اس کے بعداس میں خاص بات یہ ہے کہ ہم جو آجکل رسمی عبادت کو ہی اسلام سمجھتے ہیں ؟ اس عقیدے کی انہوں (ع) نے یہ فر ماکر تردید فرمائی ہے کہ میں (ع) نےحضور (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ رسمی نماز اور روزے کے مقابلہ میں حقوق العباد (لوگوں کے ساتھ معاملات )زیادہ اہم ہیں اور پھر اپنے عزیزوں کے ساتھ بر تا ؤ اور یتیموں سے ہوتے ہو، علامتی طور پر غیروں کے لیئے پڑوسیوں کے حقوق لائے ہیں اور اس کے بعد واپس قر آن پر آگئے اور اس پر عمل کی تلقین فرماتے ہو ئے ،قرآن نے جس فعل کو جہاں رکھا وہی تر تیب یہاں بھی موجود ہے۔ غرضیکہ اس میں سب ہی کچھ ہے ! کمزوروں کے حقوق ہیں پھرجو خاندان کی بنیاد ہے یعنی بیوی اس کے لیئے بھی ضروری ہدایات ہیں۔ صلا رحمی کی تلقین ہے، قطع رحمی سے منع فرمایا ہے اور آخر میں اللہ کے ساتھ اہلِبیت کو رسول (ص) کی نگہبانی میں دیا۔ جبکہ نماز کا ذکر دوبار ہے۔ یہ بھی سہوا “ نہیں ہے کہ بعض قرآنی سورتوں میں نماز کا ذکر تا کیدا ً دوبار آیاہے۔ میں اس تفصیل میں دو وجو ہات کی بنا پر گیا ہے ہوں کہ ہمارے ہاں یہ خیال عام ہے کہ آخری وقت میں حواس درست نہیں رہتے لہذا وصیت بے معنی ہے ؟ مگر مجھے اس تفصیل سے یہ ثابت کر نا تھا کہ اہل اللہ یعنی اللہ کے ولیوں کے ساتھ اللہ کا معاملہ دوسرا ہو تا ہے۔ وہ(ع) ولیوں کے سردار اٹھارہ سلسلو ں کےبانی بانی بننے اور رہنمائی کرنے والے تھے۔ اس تبصرے کے بعد اب میں اصل وصیت پیش کر نے کا شرف حا صل کر رہا ہوں۔
بسم اللہ الر حمٰن الرحیم ہ
یہ وصیت علی بن ابی طالب (ع) نے کی ہے۔ وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ، وہ واحد اورلا شریک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول (ص) ہیں ، اس نے انہیں ہدا یت اور دین ِ حق کے ساتھ بھیجاتاکہ وہ اسے سب دینوں پر غالب کرے خواہ وہ مشرکین نا پسند ہی کریں، بلا شبہ میری نماز میری قر بانیاں، میرا جینا ،میرا مر نا اللہ رب العالمین کے لیئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ ہی مجھے حکم دیا گیا اور میں اول مسلمین ہوں۔اے حسن (ع) اے میرے تمام بیٹوں ! (ع) اور جس تک میری یہ تحریر پہونچے میں (ع) تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کر نے کی وصیت کر تا ہو ں،جو تمہارا رب ہے اور تم فرمانبرداری کی حالت میں ہی مرنااور سب اللہ کی رسی کو تھام لو پرا گندہ مت ہو تا۔ میں نے حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے سنا ہے کہ بلا شبہ آپس کے تعلقات کی اصلاح عام نماز اور روزے سے افضل ہے۔۔۔اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھوِ اللہ تم پر حساب آسان کر دے گااور یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرواور انکے مو نہوں کو ہلاک نہ کرو اور نہ ان کے مال تمہاری موجودگی میں ضا ئع ہو ں،اور اپنے پڑوسیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، بلا شبہ وہ تمہا رے نبی ا(ص) کی وصیت ہیں آپ ہمیشہ ان کے متعلق وصیت فرما تے رہے، حتیٰ کے ہم کو خیال گزرا کہ آپ ان کو عنقریب وارث قرار دیدیں گے ،اور قر آن کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو، اور کوئی دوسرا (اس پر)عمل کر نے میں تم سے سبقت نہ کرے ،اور نماز کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو، وہ تمہارے دین کا ستون ہے اور اپنے رب کے گھر کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو، جب تک تم زندہ ہو وہ تم سے خالی نہ ہو،اور اگر اسے چھوڑ دیا گیاتو تم ایک دوسرے کو نہ دیکھو گے، اور رمضان کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو،بلا شبہ اس کے روزے دوزخ کے مقابلہ میں ڈھال ہیں اور مالوں اور اپنی جانوںکے ساتھ راہِ خدا میں جہاد کر نے کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو اور زکاة کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو ، بلا شبہ وہ اللہ کے غضب کو ٹھندا کرتی ہے اور اپنے نبی (ص) کی امان کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو، اور آپس میں ظلم مت کرواوراپنے نبی (ص) کے اصحاب کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو، بلا شبہ رسول اللہ (ص) نے ان (رض)کے بارے میں وصیت کی ہے اور فقرا ءاور مسا کین کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرواور انہیں اپنے معاش میں شریک کرو، اور اپنے غلاموں کے بارے میں بھی اللہ سے ڈروبلا شبہ رسول اللہ (ص) نے جو آخری بات فر مائی وہ یہ تھی کہ ً میں تم کو دو کمزوروں یعنی تمہاری بیویوں اور غلاموں کے بارے میں وصیت کر تا ہوں، نماز کا خیال رکھواور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہونا، جو تمہارا قصد کریگا اور تمہارے خلاف بغاوت کر یگا وہ تمہیں اس کے مقابلہ میں کفا یت کر ے گا اور جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، لوگوں سے اچھی با تیں کرو، اور امر با لمعروف اور نہی عن المنکر ( یعنی اچھی باتوں کی تلقین اور بری باتوں سے منع کرنے کا عمل) ترک نہ کرو، ورنہ وہ تمہارے برے آدمیوں کو حکومت دیدے گا،پھر تم دعا کرو گے اور وہ قبو ل نہ ہو گی، تم پر ایک دوسرے پر خرچ کرنااور ایک دوسرے سے تعلق رکھنالازم ہے، اور ایک دوسرے کو پیٹ دکھانے اور دوسرے سے تعلقات منقطع کرنے اور پرا گندہ ہو نے سے بچو،اور نیکی اور تقویٰ کے کا موں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو،اور اللہ سے ڈرو، بلا شبہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے، اہل ِ بیت ، اللہ تمہارامحافظ ہو اور تمہارا نبی (ص) تمہارا نگہبان ہو، میں تمہیں اللہ کے سپرد کر تا ہوں اور میں تمہیں اسلام علیکم ورحمةاللہ کہتا ہوں ۔ (نوٹ۔ یہاں وہ ذمہ داری جو الِ بیت کی حضور (ص) نے انکے سسپرد کی تھی وہ حضور (ص) کو لوٹادی)
اس کے بعد آپ لا الہ اللہ کا ورد فر ماتے رہے ،پھر کچھ نہیں فرمایاحتی ٰ کہ 21رمضان 40 ھ کو آپ (ع) نے دا عی اجل کو لبیک کہا۔اناللہ و انا الیہ راجعون ہ ان کے صاحبزادے امام حسن (ع) اورامام حسین (ع)اور بھتیجے عبد اللہ بن جعفر (ع) نے مل کر غسل دیا۔ اور حضرت امام حسن (ع) نےنماز جنازہ نو تکبیروں کے ساتھ پڑھائی اور اس میں تمام اہل ِ بیت نے شرکت کی۔