ہم سال بھر آپس میں لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں اور لوگوں کی جیبیں کترتیں ہیں۔ پھر کہیں جاکربہت تھوڑے سے بمشکل 29 روزے پورے کر پاتے ہیں مگر تیس پورے کرتے ہوئے تقریباًہماری سب کی جان جاتی ہے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایک اور روزہ نہ رکھنا پڑے جوکہ قرآن میں حکم ہے کہ “ اگر چاند نظر نہ آئے تو گنتی پوری کرو “ یعنی تیس روزے رکھو؟۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہمیں انتیس روزے رکھنے کے بعد روزوں سے عشق ہو جاتا؟ کیونکہ یہ ہی تقویٰ کی پہچان ہے جوکہ قرآن نے روزے رکھنے کا مقصد اور تقاضہ بتایا ہے۔ لیکن ہماری کوشش اس بچے کی طرح یہ ہوتی جو کہ پڑھنے میں مخلص نہیں ہوتا،یا کندذہن ہو تا ہے کہ اسکول میں داخل ہو تے ہوئے سب سے پیچھے ہوتا ہے اور جب چھٹی ہو تی ہے تو بھاگنے میں سب سے آگے۔ وجہ یہ ہے کہ اب نہ ہم ا للہ سے مخلص ہیں، نہ بندو ں سے مخلص ہیں،حتیٰ کہ ہم خود سے بھی مخلص نہیں ہیں؟ جبکہ اعمال کے وزن کا دار ومدار اخلاص پر ہے؟ اگر ہم مخلص ہوتے تو ہم تندہی سے روزے بھی رکھتے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے کہ “ اے اللہ اب کبھی روزے نہ جائیں اور ہمارے اوپر رحمتوں کی بارش بن کر اسی طرح برستے رہیں “ چونکہ ہم خود کو دھوکا دینے کہ عادی ہیں۔ہم مارے باندھے سے اور عبادتوں کی طرح روزے بھی رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جیسے کہ رمضان شریف میں گھٹیا مال اونچے داموں فروخت کرنے پر اپنے مکر کے ذریعہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے خالق کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ایسا کیوں ہو تاہے اسکو سمجھنے کے لیے سورہ الکہف کی آیت نمبر103سے 106 تک ملاحظہ فرمالیں۔وجہ سمجھ میں آجائے گی؟اردوترجمہ۔ “(اے نبی(ص) ان سے دریافت کرلیجئے کہ اگر تم کہوتو میں تمہیں بتادوں کہ با عتبارِ اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی تمام کوششیں بے کار ہوگئیں اور وہ اسی گمان میں میں رہے کہ ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں؟ یہ ہی ووہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار سے اس دن کی ملاقات سے کفر کیا تو ان کے تمام اعمال غارت ہوگئے۔ پس قیامت میں ہم ان کے اعمال کو(و زن) یعنی اسکا اجر نہیں دیں گے؟ نتیجہ یہ ہے کہ ن کا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا “
ان جیسی متعدد آیات کے باوجود ہم کوئی کام خالص اللہ سبحانہ تعالیٰ کے لیئے نہیں کرتے؟ جبکہ قوم کو پورے سال آپس میں لڑانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں؟ اگر کچھ کرتے ہیں تو، وہ بھی دکھاوے کے لیے، کہ سال میں صرف ایک دن مسلمان، ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں نماز پڑھیں جبکہ قرآن میں چاند دیکھنے کی شرط رکھ کر سب کو یہ جتا دیا گیا ہے کہ عیدین اور دوسری عبادات ایک وقت میں سب جگہ ہونا ناممکن ہے؟ کیونکہ دنیامختلف زون میں بٹی ہے؟ جس وقت وینکور (کنیڈا) میں فجر کی نماز ہوتی ہے توحرم شریف میں شام کی کسی نماز کا وقت ہوتا ہے؟لہذا یکجہتی نظام الاوقات میں پیدا ہوئی ہی نہیں سکتی؟ یہ ظلم ہم نے اسوقت بھی کیا تھاجبکہ مشرقی پاکستان کا ہم حصہ تھے؟ جبکہ کہتے ہم یہ ہیں کہ وہ ہمارا حصہ تھا جو 54 فیصد آبادی رکھتا تھا اور وہ قربانی دیکر توازن کے لیئے فٹی، فٹی پر راضی ہوگیا تھا۔ ہم اسے بجا ئے اسکا حصہ دیکر مطمعن کرنے کہ اس کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں تھے؟ اگراسکا حق دیدیتے جو 1956 کے آئین ہم نے دینا مان لیا تھا؟ تو آج وہ بقول آپ کہ ہمارے ساتھ ہوتا؟ مگر ہم نے پھر بھی منصف بننا پسند نہں کیااور اسے اس کا حق دینے پر تیار نہیں ہوئے? نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان دولخت ہوگیا؟ اب جنہیں کوئی اور کام نہیں ہے وہ اپنی اعلیٰ قابلیت کی وجہ سے عید سائنس کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہوں نے متھامیٹکس پڑھی ہوئی ہوتی تو انہیں معلوم ہو تا کہ جہاں تک کالکولیشن کے ذریعہ چاند کی رویت معلوم کرنے کا تعلق ہے وہ مسلمان پہلے ہی سے جانتے ہیں۔ اور پنجاب میں اسکولوں کے نصاب میں شامل خواجہ” دل محمد” کی متھامیٹکس کی کتاب میں“ تقویم“ کا باب دیکھ لیں تو اس میں فارمولہ مل جا ئے گی؟ لہذا نہ یہ کوئی نئی چیز ہے نہ عزت مآب وزیر کے سراس کی دریافت کا سہرا بندھ سکتا ہے۔ بلکہ یہ ان کوششوں میں ایک کوشش ہے جوگذشتہ صدی سےہو رہی ہے کہ چاند ایک بادشاہت کنٹرول کرے جس میں وہ ناکام ہو کر اپنے یہاں جوئے خانے کھولنے کی طرف چلی گئی ہے؟ البتہ پاکستان کے کچھ لوگ شاہ کی نظر میں اپنی عزت بڑھانے کے لیے پھر مسلمانوں کو بانٹنے پر تلے ہوئے ہیں؟ اس لیے وہ لوگ آپکی بات کبھی نہیں مانیں گے۔ جوکہ بہت سے فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اپنے،اپنے امام رکھتے ہیں اور ان ہی کے فتووں کے مطابق وہ عید کرتے ہیں؟ جبکہ ان کے یہاں عید کے سلسلہ میں کوئی انتشار بھی نہیں ہے؟ جبکہ ہمارے یہاں ہے کہ اس لیے کہ ہماری کو ئی بین الاقوامی تنظیم نہیں ہے جس کی لوگ بات مانیں؟لہذا بہتر یہ ہی ہے کہ اگر قوم کو متحد کرنا ہے تو پہلے پاکستانیوں با کردار مسلمان بنا ئیں پھر وہ خودبخود انصاف کرنے لگیں گے؟ متحد بھی ہو جائیں گے؟ ورنہ جس طرح یہ عید ایک دن نہیں ہوئی اسی طرح نہ عید الضحیٰ ایک دن ہوگی اور نہ ہی یکم محرم ایک دن ہوگا؟ بلکہ یہ کوششیں جاری رہیں تو مزید دراڑیں پڑنے کا باعث ہونگی؟اگروزیر صاحب کی سمجھ میں میری بات نہیں آرہی ہے تو مجھ سے کان میں پوچھ لیں میں انہیں بتادونگا؟ اللہ ہمارے حکمرانو کو عقل دے تاکہ وہ انہونیوں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں (آمین)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے