دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا۔۔۔ شمس جیلانی

آج کی اہم خبر یہ ہے کہ نریندر مودی جی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوگئے؟ یہ بات ہم بہت پہلے سے بار بار لکھ چکے تھے کہ ان کی پارٹی کامیاب ہوگی؟ جبکہ پاکستانی میڈیا کانگریس کی جیت کی باتیں کر رہی تھی؟  ہمارے نزدیک اس کی تین وجوہات تھیں؟ پہلی تو یہ کہ دنیا کا رجحان بدل چکا ہے اب وہ شدت پسندی کی طرف گامزن ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یوپی جو ہندوستان کا سب بڑا صوبہ ہے جس کی لوک سبھا میں 85 نشتیں ہیں وہ ان کے پاس ہے۔ جس کی بنا پر نہروخاندن ایک عرصہ تک نسل در نسل ہندوستان پر حکومت کرتا رہا ہے اورامیٹھی سے ہمیشہ ا ن کی نشت پکی ہوتی تھی جو اس مرتبہ رہول کھوبیٹھے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ یہ ہندوستان کی ا کثریت کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے جیسا چا ہیں حکمراں منتخب کریں۔ کیونکہ وہ اپنے مفادات کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں؟ لہذا دنیا میں کوئی قوم بھی سوائے پاکستانیوں کے دوسروں کی مرضی سے اپنا حکمراں نہیں چنتی؟ صرف پاکستانی  شروع سے ایسا کرتے آئے ہیں  اور بعد میں روتے بھی ہیں؟ نریندر مودی ابھرے تو گجرات  میں مسلمانوں کے قتل عام سے تھے؟ مگرانہیں جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ مجھے پورے بھارت کی قیادت اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ یو پی میرے پاس ہو؟ کیونکہ تاریخ شاہد  کےبھارت پر ہمیشہ یو پی والوں نے ہی راج کیا ہے۔ دوسری بات یہ تھی ہندؤں کے تمام مقدس مقامات وہیں ہیں جہاں ہندوستان  بھرسے زائرین کروڑوں کی تعدادمیں جب موسم آتے ہیں تو وہاں بڑے بڑے جلسے اور جلوس بغیر کچھ خرچ کیئےجاسکتے ہیں اور وہ بنگال کے بعد سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ علاقہ بھی ہے۔
اب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر آدمی کامیاب ہونے کے لیے بہت سی الٹی سید ھی باتیں کرتا ہے؟ مگر جب کامیاب ہو جاتا ہے تو یکسر بد ل جا تا ہے۔ نہیں بدلتا ہے تووقت اس کو خود بدل دیتا ہے؟ جدید تاریخ  شاہد ہے کہ پاکستان اورانڈیا سب سے زیادہ اسوقت قریب ہوئے تھے جب کہ شدت پسندوں کو سیکو لر ہندوستان میں پہلی مرتبہ کامیابی ملی تھی یعنی بی جے پی کی حکومت آئی اور واجپائی جی وزیر اعظم بنے تھے؟ جب تک کانگریس حکومت میں رہی اس تک وقت تعلقات کشیدہ ہی رہے کیونکہ بظاہر تو وہ سیکولر بنتے تھے مگر کرتے وہی تھے جو اکثریت چاہتی تھی ؟چونکہ جمہوری ملک میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حکومت اکثریت کی رائے کو نظر انداز کرے۔
حتیٰ کہ بھٹو صاحب جیسے ذہین انسان کو بھی تنگ آکر یہ کہنا پڑا تھا کہ دراصل میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندوستان کی کانگریسی حکومت کشمیر پر بات ہی نہیں کرنا چاہتی ہے؟ اس لیے کانگریس کا کردار ہمیشہ سے یہ تھا کہ ہاتھی کی طرح اس کے دانت کھانے اور دکھانے کے اور تھے۔  اس سے مسلمان بار بار دھوکاکھاتے رہے؟ مدت تک مسلمانوں نے اپنی کوئی جما عت ہی نہیں بنا ئی اور سب کانگریس میں ہی شامل رہے؟ حتیٰ کہ پاکستان بنے سے پہلے تک ان کے لیے یہ کافی تھا کہ کوئی “ سفیر اتحاد“ کہلائے،“کشمیری گاندھی“ کہلائے،“ سرحدی گاندھی“ کہلا ئے“ بلوچی گاندھی“ کہلائے اور بس؟ مگر اپنی کوئی جماعت نہ ہو نا یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ جس نے ہندوستان کی مسلم قوم کو سخت نقصان پہنچایا؟ حالانکہ انہیں وہاں سے ہوشیار ہوجانا چاہیئے تھا جبکہ عظیم بنگال توڑ کر انگریزوں نے چھوٹے انتظامی یونٹ بنا ئے تو بہت  سے صوبے عالم ِ وجود میں آگئے۔مگر ان پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا؟ جب اسی پالیسی کی بنا پر مشرقی بنگال کو 1905 میں صوبے کادرجہ دیا گیا جہاں کہ مسلم اکثریت تھی  تو تمام ہندؤں نے اس کی مخالفت بڑی شدو مد سے شروع کردی؟تب بنگالی مسلمانوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو آواز دی کہ آؤ اور ہماری مدد کر و؟ لے دیکر مسلمانوں کے پاس صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو چلانے کے لیے ایک چھوٹی سی جماعت مسلم ا یجوکیشنل سوسائٹی کے  نام سےموجود تھی اس کارِخیر میں وہی کام آئی۔ اس کاہی اجلاس نواب سلیم اللہ ہال ڈھاکہ میں ہوا اور اسی کی ہی کوکھ سے مسلم لیگ نے جنم لیا ۔ بنگال کی تقسیم  کواکثریت  کے دباؤ کی بنا پرا نگریزوں کو 1911 ختم کر نا پڑا؟ اس وقت  اس واقعہ سے سبق لیکر مسلمانوں کو  نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیئے تھا۔ مگر مسلمان رہنما ؤں نے کانگریس نہیں چھوڑی بلکہ مسلم لیگ کو اس کی ہمشیرہ بنادیا اور یہاں تک گئے کہ دونوں کے اجلاس بھی ایک ہی شہر میں اور ا یک وقت پر ہونے لگے۔ مگر مسلم رہنماؤ ں نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اور دو نوں کشتیوں میں پیر رکھے رہے جبکہ دونوں کی منزلیں الگ تھیں؟اگر وہ اس وقت ہی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیتے تو آج حالات مختلف ہوتے؟ نہ ہی شیخ عبداللہ کانگریس میں ہوتے اور نہ ہی آج کشمیر کا مسئلہ ہوتا؟ آج بھی حل وہی رہے گا جو کل تھا اور جو آنے والے کل بھی ہوگا؟ وہ ہے“اللہ کی رسی  کومضبوطی سے پکڑلینا“ میرا مشورہ یہ ہے کہ پہلے اس کے بن جائیں، پھر اللہ وہاں کے لوگوں کو اپنی رحمت سے نوازے گا اور وہ اچھے اور سچے مسلمان بن بھی جائیں گے، جھوٹ بولنا ،کم تولنا وغیرہ ختم کرکے توبہ کرلیں گے تو اس کے وعدے کے مطابق ان پر رحمتیں بھی برسیں گی؟ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے  کہ میں اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا؟ میں اپنے اس شعر کے ساتھ یہ مضمون ختم کرتا ہوں کہ؟

دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا   بتوں سے عشق  رکھ  یاپھر خدا کے سنگ ہوجا

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.