جیسے ہوں جہاں لوگ، ملک ویسا ہی بنے گا۔۔۔شمس جیلانی

آجکل لوگ عمران خان پر سوالوں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں؟ کہ تم تو کہتے تھے کہ تم مدینے جیسی ریاست بنا ؤگے، کیا یہ مدینہ جیسی ریاست ہے؟ مگر ایساکہنے والوں سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ کیا تم اور تمہارا گروہ ویسا بن چکا ہے، جیسے کہ مدینے میں بسنے والے لوگ تھے؟ اور یہ کہ اسے بننے میں تیرہ سال سے زیادہ لگے تھے دس مہینے نہیں، جبکہ حضور(ص) اور صحابہ کرام ان میں موجود تھے؟
نیزمدینہ میں آکر بسنے والوں کی صفات جو بعد میں مہاجر کہلائے، ان کے مدینہ منورہ آنے اور بسنے سے صدیوں پہلے ہی الہامی کتابوں اور صحیفوں میں آچکی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ“وہ بازاروں میں چیخیں،چلا ئیں گے نہیں،بلکہ اونچی آواز میں بات کرنا پسند نہیں کر یں گے؟ جبکہ میں یہاں ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنی قوم کو ٹی وی پر چیختا چلا تااور ایک دوسرے پر اندھا دھند الزام تراشی کر تا ہوا دیکھتاہوں تو میرا ہی نہیں، میری طرح تمام پاکستانیوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دوسرے وہاں کے جو مقامی باشندے تھے وہ جو بعد میں انصارکہلائے۔ وہ، وہ لوگ تھے کہ ان جیسے انسان چشم فلک نے نہ بعد میں دیکھے نہ پہلے دیکھے کہ ان کے پاس جو کچھ بھی تھا اس میں سے نصف حضور (ص) نے جب انکے اور مہاجروں کے درمیان مواخاۃ قائم فرمائی تو اپنے  مہاجربھا ئیوں کو بخوشی دیدیا۔جن میں زیادہ تر کھجوروں کے باغات تھے وہ بھی اس شرط پر کہ یہ تمہارے بھائی کھیتی باڑی سے واقف نہیں ہیں لہذاباغوں میں کام بھی تم خود کرو گے اور پیداوار کا نصف انہیں دو گے؟ بعد میں جب فتوحات پر فتوحات ہونے لگیں اور پہلا اخراج بحرین سے آیا تو حضور(ص) نے ا نصار کو اس میں سے کچھ دینا چاہا توانکا  جواب یہ تھا کہ پہلے ہمارے مہاجر بھائیوں کو آپ(ص) دیدیجئے وہ ہمارے مقابلہ میں زیادہ ضرورت مند ہیں؟ حضور(ص) نے فرمایا کہ“ دیکھو میرے بعد تمہیں لوگ کچھ نہیں دیں گے، پھر نہ کہنا!“انہوں نے کہا کہ ہمیں منظور ہے۔  گوکہ انہیں میں سے ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو منافق کہلاتا تھا وہ انہیں بہکاتا بھی رہتا تھا اور اونچ نیچ سمجھاتابھی رہتا تھا؟ کیونکہ  وہ مسلمانوں کی طرح عبادتیں تو کرتا تھا مگر پاؤں دونوں کشتیوں میں رکھتا تھا؟ اس لیے اس کی نہ اپنوں میں کوئی عزت تھی نہ اللہ اور رسول(ص) کے دربار میں۔ ان کا مقام کہاں تھا وہ قرآن اور حدیث میں پڑھ لیں؟ اگر میں تفصیل میں جاؤں، تو یہ مضمون بہت چھوٹا ہے میں نے صرف مدینے کے شہریوں کے کردار کی ہلکی جھلک سب کو آئینہ کے طور پر دکھائی ہے؟ تاکہ لوگ خود کوان اوصاف سے پہلے آراستہ کر لیں جیسے کہ مدینہ منورہ کے شہری تھے؟ تب حکمرانوں سے مدینے جیسی ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے اچھے لگیں؟ ابھی توان کایہ عالم یہ ہے اپنا کردارہی بدلنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ تو ریاستِ مدینہ بنی گی کیسے اور بنا ئے گاکون؟ ایک آدمی اگر تائب ہو بھی گیا ہو، تو اکیلے تو تبدیلی نہیں لا سکتا؟ جبکہ ملک کو سابق حکمراں کنگلا کر کے اور قرضہ چڑھا کر اپنے خاندانوں کو وہاں سے نکال چکے ہیں، جن کے پاکستان متعدد شہرں میں بھی گھر ہیں اور باہر کی  دنیا میں بھی کئی ایک ملکوں میں ان کے گھر موجود ہیں۔ دوسرے دولت ان کے پاس باہر کے بنکوں میں بھی بے شمار ہے۔ وہ جہاں چا ہیں وہا ں محلات خرید  سکتے ہیں؟ مگر بات بائیس کروڑ عوام کے سوچنے کی ہے کہ وہ کہاں جا ئیں گے ،اتنی بڑی آبادی کونسا ملک لے گا؟ انہیں تو وہیں رہنا ہوگا، روکھی سوکھی کھاکر ملک کی مالی حالت ہر حالت میں درست کرنا ہوگی اب یا بعد میں، کیونکہ اس کے بغیر کام نہیں چلے ملک نادہندوں میں شامل ہوجائیگا؟ اگر پھر آزما ئے ہوؤں کے چکر میں آگئے تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ وہی کچھ نہیں کریں گے جو اب تک کرتے آئے ہیں؟ حل یہ ہی ہے کہ سب مل کر ملک کو بچانے کی کوشش کریں بد عنوانیوں کو ختم کردیں؟ بد عنوانو ں میں کو ئی اپنا بھی نظر آئے تو اسے قانون کے حوالے کردیں؟ کیونکہ جب تک چھلنی کے سوراخ بند نہیں ہونگے اس وقت تک وہ دودھ رکھنے کے کام میں نہیں آسکتی؟اپنے اپنوں کو بچانے میں ا گر لگے رہے تو ملک نہیں بچ سکے گا؟ کیونکہ ہم مسلمان  ہونے کے ناتے صرف بھلائی کے کاموں میں ہی معاونت کرنے کے پابند ہیں برائی میں نہیں۔ جب تک وہاں کے باشندے ٹیکس ایمانداری سے نہیں دیں گے؟ تو  پیسہ کہاں سے آئے گا جو قرضوں سے جان چھٹے اور مدینہ منورہ جیسی ریاست بنے؟
دنیا میں جتنی فلاحی ریاستیں موجود ہیں ان کے یہاں ٹیکس کی شرح ہر ایک کی آمدن کی  بنیاد پر 55 فیصد تک ہوتی ہے؟تب کہیں جا کر وہ بمشکل چلتی ہیں؟ ہمارے یہاں بھی ایک دور ایسا گزرا  ہے کہ مدینے منورہ کی گلیوں میں لوگ زکات لیے گھومتے تھے اور کوئی لینے والا نہیں ہوتا تھا۔ جبکہ صرف وہ ڈھائی فیصد دینا ہوتی تھی؟یہ ڈھائی فیصد زکات ہی تھی جو ارتکاز دولت کو روکتی تھی، اس لیے کہ ا پنی دولت سرمایہ داروں کو ہر حالت میں گردش میں رکھناپڑتی تھی کیونکہ وہ اللہ سے ڈرتے تھے؟لہذا وہ آج کی طرح بجا ئے بنک میں جمع کرکے سود کھانے کے اسے کہیں نہ کہیں کاروبار میں لگانے پرمجبور تھے، ورنہ جمع کیا ہوا مال برف کی طرح پگھل کر ختم ہوجاتا تھا۔ اب اسی قوم کا عالم یہ ہے زکات زبر دستی کاٹنے کے لیے حکومت کوبنکوں کی مدد لینا پڑتی ہے وہ بھی زیادہ تر خرد برد ہوجا تی ہے کیونکہ قوم نہ زکات چھوڑتی ہے نہ چندہ اور  نہ امداد۔ بصورت دیگر اکیلا کوئی بھی وعدے پورے نہیں کرسکے گااور نہ مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنا سکے گا؟ میں نے یہ چند باتیں قوم کو سوچنے کے لیئے پیش کیں ہیں تاکہ وہ پٹری پر واپس آسکے، کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہر قوم کو مہلت تو دیتاہے؟ مگر ایک وقت معینہ تک،اگر وہ ہمیشہ کے لیے چھٹی دیدے تو ہر ملک کا نظام ہی چوپٹ ہوجا ئے؟۔اس وقت شبر صاحب نے جوسب کی رگ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے، میرے خیال میں انہیں کام کرنے دیں کیونکہ وہ واقف راز ہیں انہوں نے یہ شرط بہت اچھی لگا ئی ہے کہ جو بھی پچاس ہزار روپیہ سے زیادہ کا لین دین کرے گا اس کو اپنا شناختی کارڈ پیش کرنا لازمی ہو گا۔اس سے صرف چھوٹے تاجر ٹیکس سے بچیں گے؟ بڑے نہیں بچ سکیں اور ان کے گرد شکنجہ تنگ ہوجا ئے گا پھر ایف بی آر کامحمکمہ بھی اس کے ملازمین کے لیے آج کی طرح اتنا منافع بخش نہیں رہے گا؟جیسا کہ پاکستان کے بننے کے بعد سے اب تک تھاکہ انکم ٹیکس آفیسر اپنی نوکری پیسہ دیکر خریدتے تھے،پھر من  پسندشہر کے انتخاب کا مسئلہ در پش ہوتا تھا جس کے پاس جنتے زیادہ پیسے ہوتے،اتنا  ہی اچھا شہر ٹھیکے پر مل جاتا تھا اس میں انکم ٹیکس پریکٹیشنرز ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔اور یہ محکمہ سب سے زیادہ اپنے ملازموں کے لیے زرخیز سمجھا جاتا تھا؟ شبر زیدی صاحب کی کوششیں اگر بار آور ہوئیں تو عمران خان صاحب کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا کہ“ امیروں سے ٹیکس لیکر غریبوں کو فائیدہ پہنچایاجائے“میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستانیوں کو اپنا اچھا اور برا سوچنے کی صلا حیت عطا فرما ئے (آمین)

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.