حقیقت میں دورہ امریکہ پاکستان میں ہرآنے والے وزیر اعظم کے لیئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ا س کی جہ یہ ہے کہ جب یہ ملک عالم جود میں آیا تو دنیا میں دو سپر پاورز تھیں ایک روس اور دوسری امریکہ ان میں سے کسی ایک کا بنے بغیر جینا مشکل تھا، جس طرح کے آجکل پاکستان میں کسی بڑے آدمی کا بندہ بنے بغیر جینا مشکل ہے؟کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو بنے اس لیئے پاکستانی قیادت کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ امریکہ کی گود میں چلا جا ئے، چاہیں وہ گود لینا چاہے یانہ لینا چاہے؟ یعنی وہ اس کو گودلینے کو تیار ہو یا نہ ہو؟
چونکہ پنڈت نہرو شروع سے ہی سوشیل ازم کی طرف مائل تھے اور وہ اپنے زمانہِ طلب علمی سے ہی ماسکو میں کمیونسٹ پارٹی کا سالانہ اجلاس کبھی نہیں چھوڑتے تھے؟ جوکہ ان کے سوشل ازم کی طرف جھکاؤ کا کھلا ثبوت تھا۔ نیز وہ انڈین یوتھ ٹرید کونسل کے جنرل سکریٹری بھی تھے۔ جبکہ وہ اس دور میں کانگریس کی طرف با لکل مائل نہ تھے۔ چونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو پاکستان بنا نا مقصود تھا، حالات ایسے ہوئے کہ وہ کانگریس کے صدر بن گئے اور انہوں نے آتے ہی پہلی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کردیا کہ یہ توآنے والی پارلیمنٹ طے کریگی کہ ملک کا دستور کیسا ہوگا؟ اس کے نتیجہ میں وہ معاہدہ جو کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان کیبنٹ مشن کی بڑی کوششوں سے بمشکل ہوا تھا ٹوٹ گیا؟
اس طرح نہرو نے آکر پاکستان بننے کی راہ ہموار کردی۔ پاکستان بنتے ہی روس نے بھی پاکستان کے پہلے وزیرآعظم لیاقت علی خان کو روس کے دورہ کی دعوت دی، مگر وہ وقت نہیں نکال سکے اور جبکہ آخری دنوں میں وہ امریکہ کے دورے پر تشریف لے جانے لگے۔تو ہوائی اڈے پر اخبار نویسوں نے سوال کیا کہ آپ کو روس نے بھی تو دورے کی دعوت دی تھی اس کاکیا بنا! تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ابھی تک میری جیب میں پڑی ہے؟ روس نہ جانے کی اصل وجہ یہ تھی پنڈت نہرو کی موجودگی میں پاکستان کو اہمیت ملنا کسی صورت میں بھی ممکن نہ تھا لہذا انہوں نے روس کے دعوت نامہ کو اہمیت نہیں دی دوسری رکاوٹ یہ بھی تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا جب کہ روس اپنے یہاں سے بقول روس کے مذہب کو دلو ں اور ملک دونوں سے نکال چکاتھا۔ یعنی وہ کمیونزم کے شباب کا دور تھا۔ لیاقت علی خان کے بعد صورت حال یہ ہوگئی کہ پاکستان میں جوبھی وزیرآعظم آیا امریکہ کی مرضی سے آتا رہا؟ کبھی کبھی تو وہ خود ہی نامزد کردیتے تھے، جیسے کہ محمد علی بوگرہ کہ وہ گئے امریکہ میں پاکستان کے سفیر بن کراور واپس آئے وزیر اعظم ہوکر؟ اس کے بعد کسی بھی وزیر آعظم کو امریکہ نے اہمیت نہیں دی ،سوائے حسین شہد سہروردی کے، ان کے بعد ایوب خان نے جمہوریت ہی لپیٹ کر رکھدی اور وہ صدر بن گئے۔ وہ پہلا موقع تھاکہ جب وہ امریکہ تشریف لے گئے تو صدر جنرل آئزن ہاور نے ان کو ہوائی اڈے پر ریسیوکیااوراپنے ساتھ روایتی بگھی میں بٹھا کر جلوس کی شکل میں وہ وائٹ ہاوس لیکر آئے؟اس لیے کہ ایوب خان وزیر اعظم نہیں تھے بلکہ صدر ہونے کی وجہ سے ان کے ہم منصب تھے۔ حالیہ تاریخ میں جن وزرائے اعظم نے امریکہ کا دورہ کیا ان میں سے ایک تو اپنی پرچی کے لیے مشہور ہوئے جو خود کو شیر بھی کہلانے کے لیے مشہور تھے،انہوں نے کئی شیر اپنے چڑیا گھر میں بھی پال رکھے تھے اور ان کی پارٹی کا نشان بھی شیر تھا اور ہے۔ انہیں کی پارٹی کے جودوسرے وزیر اعظم بن بلا ئے دورے پر گئے تو سکوریٹی والوں نے ان کے جوتے تک اتر والیئے۔
ایک مدت کے بعدعمران خان وہ پہلے وزیر اعظم تھے جو کہ عوامی ووٹوں سے آئے اور انہیں کسی کی آشیر واد بھی حاصل نہیں تھی لہذا انہوں نے بجا ئے امریکہ کا دورہ کرنے اور وہاں جاکر یو این او کو خطاب کرنے کے ،یہ موقف اختیار کیا کہ جب میں اپنے اندرونی معاملات درست کرلونگا تو امریکہ جا ؤنگا۔ پہلے انہوں نے اپنے حالات درست کیئے پھر امریکہ گئے۔ اور جب وہاں پاکستانی عوام نے ان کا شاندار استقبال کیا تو صدر ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ “ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم اور سچے آدمی بھی ہیں “ حالانکہ وہ ٹھہرے بھی پاکستانی سفارت خانے میں تھے، بجائے وکٹووریہ ہوٹل کے اوران کے ساتھ اراکین پارلیمنٹ اور بروکریٹس کی فوج بھی نہیں تھی، جو اوروں کے ساتھ عام طور پرہواکرتی تھی۔ چونکہ ہم نے شاندار استقبال تو ٹی وی پر دیکھا تھا لہذا س کی تو ہم تصدیق کرسکتے ہیں کہ وہ ہال بھرا ہوا تھا اور کچھ لوگ باہر بھی کھڑے تھے؟ جس کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کیونکہ اس میں اکیس ہزار لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے؟ جو لوگ واشنگٹن ڈی سی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہا ں اتنے لوگوں کا باہر سے بریانی کالالچ دیکر جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں دن میں لوگ دفاتر میں کام کرنے آتے ہیں شام کو واپس چلے جاتےہیں؟ جبکہ رہتے وہ آس آس پاس کے شہروں میں ہیں۔ رہی سچا ئی کی تصدیق، چونکہ حضرت عمرؓ نے گواہی اور ضمانت کے بارے میں جو شرائط رکھی ہیں ان میں سے ہم ایک پر بھی پورے نہیں اترتے ، اس لیئے ہمیں کچھ کہنے کا حق نہیں پہنچتا ہے یعنی “ نہ ان سے کبھی ہم نے لین دین کیا، نہ ان کے ساتھ سفر کیا، حتیٰ کہ ان سے کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی؟ صدر ٹرمپ البتہ ایک جہاندیدہ شخصیت ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کو چلارہے ہیں!انکی نگاہوں نے کچھ دیکھا ہی ہوگا تب ہی سوچ سمجھ کر کہا ہوگا۔ دوسرے پا کستان کا مستند گروہِ کاذبان انہیں اپنا رکن ماننے کے لیے تیار نہیں ہے؟ کیونکہ وہ کہتے ہیں کی عمران خان سلیکٹیڈ ہیں اورہم الیکٹیڈ ہیں۔ لہذا یہ بات بھی ان کے حق میں جاتی ہے کہ وہ ان میں سے نہیں ہیں؟ البتہ ہم نے یہ ضرور دیکھا کہ وہ علامہ اقبالؒ ؒکے اس شعر کی تفسیر بنے نظر آرہے تھے کہ“آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی“ ہم نے نہ کسی سے انہیں مرعوب ہوتے ہوئے دیکھا نہ اپنے اوسان کھوتے ہوئے۔ اور نہ ہی روایات کے مطابق انہوں نے امریکہ سے ایڈ مانگی۔ اور واپس جاکر بھی قوم کو یہ ہی بتایا کہ میں سبز پاسپورٹ کی عزت بڑھانے گیا تھا وہ بڑھا کر آیا ہوں اور میں نہ کسی کے آ گے جھکاہوں نہ انشا ء اللہ جھکوں گا،نہ ا پنی قوم کو جھکنے دونگا؟ مجھے یقین ہے کہ انہیں جو عزت ملی ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے اور اس قت تک ملتی رہے گی، جب تک کے وہ خلوص ِدل کے ساتھ اللہ کی بات مانتے رہیں گے؟
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے