یہ اپنوں جیسے طور تو نہیں ؟ شمس جیلانی

آپ جس سے بھی سوال کریں کہ آپ کون ہیں تو جواب ایک ہی ملتا ہے الحمد للہ ہم مسلمان ہیں؟ اس سلسلہ میں ہمارے ویسے تو بہت سے تجربات ہیں مگر ہم وقت اور جگہ کی کمی کا خیال رکھتے ہوئے آپ کو ایک ہی  واقعہ سنائیں گے کہ ہم ایک جگہ مدعو تھے ایک صاحب دکھا ئی دیئے جوکہ وضع و  قطع سے مسلمان لگ رہے تھے، ان کے ہاتھ میں بھی ہماری طرح جام تھا مگر فرق یہ تھا ہمارے جام میں “ سنگترے کارس “تھا اور ان کے جام میں دوسرا مشروب تھا جس کے بھبکے دور سے ہم تک پہنچ رہے تھے۔ ہم نے پوچھا آپ مسلمانوں جیسے  تولگ رہیں مگر۔۔۔؟ کہنے لگے الحمد للہ میں مسلمان ہوں!ہم نے کہا آپ کے جام سے تو کوئی اور مشروب جھانک رہا ہے تو ہنسنے لگے؟ میں  نےکہا یہ ہنسنے کا تو نہیں رونے کامقام ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی پستی کی یہ ہی وجہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں؟ جب عمل کا وقت آتا ہے تو کچھ دائیں با ئیں جھانکنے لگتے ہیں کہ ہمیں جواب نہ دینا پڑے کوئی اور جوابدیدے تو اچھا ہے۔ شایدلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی دلی کیفیت سے اللہ سبحانہ تعالیٰ باخبر نہیں ہو گا جبکہ اس کا علم ہر شہ احاطہ کیئے ہوئے ہے؟ اور اس نے اس حرکت پرسخت ناپسندیدگی بھی فرمائی ہے؟ اس کو اللہ تعالیٰ نے  دوایآیت میں ارشاد فرما یا ہے وہ سورہ الصف کی آیات نمبر ایک اور دو  ہیں کہ“ مسلمانوں ایسی بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہواللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے “  مفسرین نے اس آیت کی شان نزول یہ بتائی ہے کہ پہلے تو سب کہتے تھے کہ ہم کفار مکہ کے مظالم سہتے، سہتے  اب تنگ آچکے ہیں اب تو آپ ان سے لڑنے کی اجازت دے ہی دیجئے؟ اور ج اللہ  سبحانہ تعالیٰ نے نے لڑنے کی اجازت دیدی تو لڑائی سے ایسے بھاگتے اور بہانے  بنا  تے ہیں جیسے کہ شیر دیکھ کر جنگل کے جانور؟ کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان کمزور ہیں جبکہ اس کے برعکس جو واقعی مسلمان تھے؟ انہوں نے  “سمعنا اور اطعنا  “  (ہم نے سنا ااور عمل کیا)کہا جو کہ حضورﷺ کے زیر تربیت رہ کر کندن بن چکے تھے۔ اسی کیفیت کو علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ ع    “ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے  لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا “  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کے جواب میں قرآن کی دوسری آیت ہے ، جس کامفہوم یہ ہے کہ “مسلمانوں نے ہمارے ساتھ جنت کے عیوض جان ومال سودا کیا ہوا ہے۔“
ان آیتوں کو یاد مجھے یوں دلانا پڑا کہ“ کشمیری ستر سال سے چاہیں سرحد کے اس پار کے ہوں یا اس پار کے دونوں  طرف کے لوگ بھارتی جا رحیت کے شکار بنے ہوئے ہیں،مگر دنیا بھر کے مسلمانو ں کے کانو ں پر جوں تک نہیں رینگ رہی  ہے اوریہ  رویہ کشمیر یوں کے ساتھ ہی نہیں ہے، بلکہ دنیا بھر میں بے حسی کا یہ ہی عالم ہے؟ جبکہ مسلم امہ کو ایک جسم سے تشبیہ دی گئی ہے؟ اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ جس طرح پیر  میں کانٹا چب جا ئے تو پورے جسم میں تکلیف ہوتی ہے اسی طرح امت کا کوئی حصہ بھی متاثر ہو تو پوری امہ متاثر ہوتی ہے۔ مگر ان گناہ گار آنکھوں نے اس کے برعکس  یہ دیکھا کہ بھارت  کی پاکستانی سرحدوں کی روز مرہ کی بنیاد  پر خلاف وزیوں کے با وجود اسے کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا تو بھارت کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے یک طر فہ طر پر سارے معاہدے توڑ دیئے!جن میں بھٹو صاحب کاکیا ہوا شملہ معاہدہ بھی  شامل تھا اوریواین سے کیا ہوا  رائے شماری کرانے کا وعدہ بھی؟  جنکی آڑلیکر وہ طویل عرصہ سے کسی نہ کسی طرح معاملہ ٹالتارہا تھا؟ اب سوچا کہ جب پہلے کسی نے اس کے ہاتھ نہیں رو کے تو اب کون روکے گا؟ لاؤ یہ بھی کردیکھتے ہیں کہ کشمیر کو ہم اٹوٹ انگ کہتے تو پہلے ہی سے تھے اور ایک بڑا حصہ ہمارے قبضہ میں بھی ہے؟ اب اس کو عملی طور پر بھی اٹوٹ انگ بنا کر دکھا دیں؟ اور اس سلسلہ میں جوش میں وہ یہاں تک بڑھ گیا کہ لداخ کو بھی اس میں شامل کر لیا؟ جو اس کے لیے یقیقناً لوہے کاچنا بن سکتا شاید اسے 62 کی وہ جنگ یاد نہیں ہے جس میں صرف سو بھیڑوں کا معاملہ تھا۔ جو کہ  بھارت کوان کی پسند کے مطابق مع بالوں کے واپس کرنا پڑی تھیں؟
مگر ہم نے جس حمیت کا مظاہرہ پاکستان کی پارلیمان میں دیکھا۔اس پر ہمارا دل رونے کوچاہ رہا  تھا؟کہ اس نے دودھ دیا تو “ مگر میگنیاں ڈالکر“ یعنی یک جہتی کا اظہار کرنے کے بجا ئے “ پہلے زمانے کی سرائے کی اور روایتی بھٹیارنیوں کی یاد تازہ کردی کہ وہ لڑے بھڑے بقیر کوئی کام نہیں کرتی تھیں“ یعنی دودن طعنہ زنی  میں لگے  تب کہیں  جاکر متفقہ طورپر پاس ہوئی۔ ایک صاحب کو تو ہم نے میڈیا سے کہتے ہو ئے سنا کہ“ وزیر آعظم نے یہ کیوں کہا کہ “اگر ہندوستان نے جنگ کی تو ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا سوائے ٹیپو سلطان(رح) کے نقش قدم پر چل کر جان دیدیں؟ یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم محمود غزنوی کااتباع کریں گے۔ حالانکہ انہیں بھی پہلے حکومت کرنے کا موقعہ مل چکا ہے اور انہوں نے یا ان کی پارٹی نے خود عمل کرکے اس پر پہلےنہیں دکھایا البتہ ان کے لیڈر مودی کے ساتھ چادریں اور آم کی پیٹیوں کا تبادلہ کرتے رہے اور وہی دوستی آج تک نبھا رہے ہیں ؟ ان ہی میں وہ مولانا بھی شامل ہیں جو پندرہ سال تک کشمیر کمیٹی کے چیر مین بھی رہ چکے ہیں؟ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ انہوں نے تاریخ پڑھی ہی نہ ہو اور وہ اس فرق سے واقف ہی نہ ہوں؟ جوکہ محمود غزنوی میں اور سلطان ٹیپو میں تھا؟بہر حال میں عمران خان کومبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے دور اندیشی سے کام لیا اور انہوں نے انڈین پارلیمنٹ میں ابھرتے ہوئے وہ سوال سن لیئے کہ جس میں اراکین مودی سے پوچھ رہے تھے کہ اب کشمیروہ حصہ کب اٹوٹ انگ بنے گا جو پاکستان کے قبضہ میں ہے۔ اسی  لیئے  انہوں نے ہوشیار بھی کردیا کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو ہم خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیں گے؟ اس میں یہ اور اضافہ کرنا چاہوں گا کہ یہ بھی فرمادیں کہ اب جو جنگ ہوگی وہ پاکستان کی جنگ ہوگی اور اسے خود ہی اپنی بقا کے لئیے لڑنا ہوگی؟ کوئی اور نہیں لڑیگا؟ جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ  جو علاقہ آج پاکستان کہلاتا ہے وہ پہلے سب کے لیے لڑتا رہا ہے۔  اور مسلمانوں کو آج بھی میرا مشورہ یہ ہی ہے کہ پہلے  کی طرح اللہ کے ہورہیں اس کی باتیں ماننے لگیں تو اللہ بھی معاف کردے گا کہ وہ رحیم اور کریم ہے اور یہ ہی اسکا آئین ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.