انسان اگر چاہے تو کیا ہونہیں سکتا۔۔۔ شمس جیلانی

ایک آیت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ“انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیئے وہ جد وجہد کرتا ہے“ یعنی کامیابی کے لیے کوشش شرط اول ہے؟ آٹھویں صدی ہجری کے ا یک مشہور اسلامی اسکا لر نے کسی اسلامی حکومت کے لیے حکمراں چننے کے  واسطے جو فارمولہ امہ کو دیا تھا اس میں انہوں نے جو طریقہ تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے لیئے حاکم منتخب کرنے لگو تو ان میں تقویٰ اور شجاعت دونوں تلاش کرو؟ اگر کسی ایک میں دونوں خوبیاں موجود نہ ہوں تو ان میں سے جو دلیر ہو اس کو ترجیح دو۔ اس کی وجہ یہ بتا ئی تھی کہ اگر کسی میں صرف تقویٰ ہے اور شجاعت نہیں ہے تو اس کا تقویٰ صرف اس کی اپنی ذات کے لیئے ہوگا، جبکہ دلیری قوم کے لیے ہوگی؟یعنی دلیری کا فائدہ قوم کو پہنچے گا؟اس کی ایک مثال میں پاکستان کی تاریخ سے پیش کرتا ہوں! شہید ملت لیاقت علی خان نے جرأت  سے کام لیا اور انڈیا نے جب ان کے دور میں پیش قدمی کرنا چاہی تو صرف  اپنا“مکا“لہرادیا اور اپنی ایک ڈویژن فوج سرحد پر لگا دی، انڈیا اتنا گھبرایا کہ اس نے جواب میں اپنی ساری فوج پاکستانی سرحد پر لگادی! لیاقت خان نے پھر ایک تقریر کی اور کہا میں نے ایک ڈویژن فوج بھیجی تو تم نے اپنی ساری فوج لگادی،اگر میں ایک ڈویژن اور بھیجدوں، تو تم فوج کہا ں سے لاؤگے؟بھارت اتنا بد حواس ہوا کہ اس نے اپنی پیش قدمی روک دی؟
دوسری مثال 1965 کی جنگ ہے کہ جس میں ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کردیا جنرل ایوب خان نے جرأ ت سے کام لیا اور ٹی وی پر آکر تقریر کی تم نے کس قوم کو للکارا ہے یہ لا اللہ الہ اللہ پڑھنے والی قوم ہے؟ اس ایک چھوٹے سے جملہ نے پوری قوم کوبیدار کردیا ہر شخص قر بانی دینے کے لیے تیار ہوگیا؟آخر دشمن کو پسپا ہونا پڑا اور انڈیا جنگ بندی پر مجبور ہوگیا؟ وجہ کیا تھی کہ جب یہ قوم اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو بہادر بن جاتی ہے کیونکہ اس کو اللہ نے یہ یقین دھانی کرائی ہوئی ہے کہ“جو اللہ کی راہ میں اپنی جان دیگا اس کو شہادت کا درجہ عطا ہوگا اور وہ جنت کا حقدار بھی بنے گا؟ اس لیئے ہر ایک کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ راہ خدا میں جان دیدے؟ کیونکہ ہر ایک کویہ بھی یقین ہوتا ہے کہ موت کا ایک وقت معین ہے نہ یہ مدت اس سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے؟ یہ وہ عقیدہ ہے کہ قرون ِ اولیٰ کے سارے معروف اسلامی جنرل لاکھوں کی فوج  میں بے دریغ  اکیلے گھستے ہوئے چلے جاتے تھے اور چند ہزار فوج سے لاکھوں  پر مشتمل فوج کو شکست دے دیتے تھے؟ لیکن ان کی موت چونکہ شہادت سے نہیں ہونا لکھی تھی ان سب نے طبی موت ہی پائی؟ سوائے حضرت علی ؓکے وہ شہادت سے نوازے بھی گئے تو مسجد میں میدان جنگ میں نہیں؟
دوسرے موت کے مسئلہ پر آجتک کوئی ڈاکٹر قرآن میں دیئے ہوئے اس چیلنج کو جھٹلا نہیں سکا کہ“ جب کسی کی روح نر خرے تک پہنچ چکی ہو اسے کوئی واپس کرکے دکھا ئے؟مجھے بتانا یہ اس لیے مقصود تھا کہ جنگیں جذبوں سے لڑی جاتی ہیں ہتھیاروں اور تعداد سے نہیں؟ کسی بزدل کے ہاتھ میں تلوار دیدی جا ئے تو وہ دشمن کو دیکھ کر خود ہی کانپنے لگے گا، پھر تلوار کون چلا ئے گا؟کشمیر کامسئلہ بہتر سال سے کھٹائی میں پڑا ہواتھا؟ پچاس سال سے تو دنیا بھول ہی چکی تھی کہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے؟ کہ پاکستان کو ایک دلیر لیڈر عمران خان کی شکل میں مل گیا، اس نے پہلے تو دوستی کا ہاتھ بڑھایا کہ ہمسایوں کے اسلام میں بہت حقوق ہیں، لیکن پڑوسی نے اسے کمزوری سمجھا اور وہ پاکستان کی سر زمین پر رات کے اندھیرے میں چڑھ دوڑا ، نتیجہ میں اپنے چند ہوائی جہاز کھوکر اسے پتہ چلا کہ یہاں بندے اور قسم کے بستے ہیں؟ اب عمران خان کی حالت یہ ہے کہ وہ دوبارہ للکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں اینٹ کا  جواب پتھر سے دونگا اگر میرے ملک کی طرف  تم نے آنکھ بھی اٹھا کر دیکھا؟ مگر اب اس کی طرف سے ڈپلو میسی کے طور پر امن کی باتیں ہورہی ہیں شاید کہ یہ جھانسا  پھرچل جا ئے؟ مگر وہ چلا نہیں اس  لیئے کہ بھارت کے مظالم کی وجہ سے دنیا کا ضمیر جاگ اٹھا ہے؟ اور وہ  اس مرتبہ محتاط ہے  اس لیئے کہ ایک دفعہ پہلے بھی وہ دھوکا کھاچکی ہے ہٹلر کی نسل پرستی کے جنون کی وجہ سے۔  اگراس وقت لیگ آف نیشن  اپنی ذمہ داری کو پورا کرتی تو دوسری جنگ عظیم کے ہاتھوں انسانیت کی تباہی نہیں ہوتی، کروڑوں انسان مارے نہیں جاتے؟ اب جمعہ کو سکوریٹی کونسل  کااجلاس اس مسئلہ پر بلا کر یواین او نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ یہ ادارہ وہ تجربہ دہرانا نہیں چاہتا جو اس کی پیش رو“ لیگ آف نیشن نے کیا تھا“ کیونکہ وہی اب ہندوستان کی موجودہ قیادت کرنے جا رہی ہے وہاں تو صرف نسلی سپرمیسی کا مسئلہ تھا یہاں تو چھوت چھات اور مذہبی سپر میسی بھی ہے۔  یہ بات یہاں تک جو پہنچی  اس میں د و رائے نہیں ہوسکتیں کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی جرتِ رندانہ کی وجہ سے پہنچی؟ میں عید والے دن نماز کے بعد وقت گزاری  کے لیے مختلف ریکارڈ شدہ ٹی وی پروگرام دیکھ رہا کہ ان میں شاید کوئی کام کی بات مل جا ئے جو میں اپنے قارئین تک پہنچاسکوں؟ تو میں نے ان کے ایک دوست کو  ٹی وی اینکر کے سوال کے جوا ب میں یہ کہتے سنا کہ“ عمران خان کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ  وہ ایک سچا اور صاف گو انسان ہے اور خرابی یہ ہے کہ وہ  “ ضدی “ بہت ہیں، جبکہ سیاست میں تھوڑی لچک ہونا چا ہیئے؟ اس لچک پر ریاست مدینہ پر حضور (ص) کے بعد بطور ان کے خلیفہ حکمرانی کر نے والے پہلے حکمراں حضرت ابوبکر ؓ یاد آگئے جو کہ انتہائی برداشت والے انتہائی حلیم اور برد باراور سب کو ساتھ لیکر چلنے والے تھے؟  مگرانہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کے اس مشورہ کو نہیں مانا کہ“ حالات بہت خراب ہیں فل الحال ان سے سمجھوتا کرلیا جا ئے جو زکات نہیں دینا چا ہتے ہیں؟  انہوں نے ان کا مشورہ سنا اور جواب میں  یہ فرما یا کہ اگر کوئی حضور (ص)کی دور میں ایک رسی کا تکڑا بھی زکات دیتا تھااب نہیں دے رہا  ہی تو بھی میں اس سے وصول کر کے چھوڑوں گا۔ اگر وہ اسوقت باغیوں سے سمجھوتا کرلیتے تو یہ ایک نظیر  قائم ہوجاتی اور اسلام بھی دین ِاسلام کے بجا ئے دین ِ سمجھوتا بن کر رہ جاتا اوروں کی طرح؟ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے۔(آمین)

 

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Uncategorized and tagged , . Bookmark the permalink.