للہ ابتو سچ بولنا شروع کردیں۔۔۔ شمس جیلانی

اسوقت جتنے مسلم ممالک ہیں ان کی اور من حیثیت القوم مسلم قوم کی حالت جتنی خراب ہے؟ شاید تاریخ ِ عالم میں اتنی بری صورت حال کبھی نہ رہی ہو،کیوں! اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ ہم نے سچ بولنا چھوڑدیا ہے جو کہ کبھی  مسلمانوں کاطرہ امتیاز تھا؟ جس کے بارے میں ہمارے پیارے نبی (ص) نے فرمایا کہ مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے مگر جھوٹا مسلمان نہیں ہوسکتا؟ لیکن اب ہمارا عالم  یہ ہے کہ ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جس کومنع کیا گیا ہے جن کی بنا پر عذاب نازل ہوتا رہا جس کا گواہ قرآن ہے؟ مثلاً کم تولتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں،وعدہ خلافی کرتے ہیں، وقت پر کہیں نہیں پہنچتے ہیں جس کی سورہ العصر میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قسم کھا ئی ہے۔ رشوت دیتے ہیں رشوت لیتے ہیں کیونکہ بڑھی ہوئی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں،لوگوں کی جائیداد دبانا اپنا حق سمجھتے ہیں اس کے لیئے باقاعدہ قبضہ گروپ بنے ہوئے ہیں؟ ہمارے ہمسایہ ہمارے ہاتھ سے محفوظ نہیں ہے جبکہ ہر برائی سے مسلمانوں کوسختی سے منع کیاگیا ہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے جو تھوک کے حساب سے روزانہ کرتے ہیں، ہمسایہ سے اچھا سلوک کرنے کا حکم چالیس گھر تک چاروں طرف ہے (جبکہ  بس چلے تو پڑوسی کا گھر ہی دبالیں)۔ جبکہ ہمسایوں کے ساتھ برائی پر سزا حدیث کے مطابق دس گنا زیادہ ہے۔ اب ہر پڑھنے والا مجھ سے پوچھے گا آپ نے سب کچھ گنا دیا اور عنوان دیا ہے کہ “ للہ ابتو جھوٹ بولنا چھوڑ دیں“ کیا جھوٹ چھوڑنے سے یہ سب برائیاں دور ہوجا ئیں گی؟ اس کے لیئے مجھے آپ کو دورِ نبوی (ص) کا ایک واقعہ سنانا پڑے گا جس سے ہر ایک واقف ہے  جوکہ احادیث کا تھوڑا بہت بھی علم رکھتا ہے، وہ یہ سن کر فوراً کہے گا کہ ہاں میں نے  یہ حدیث سنی ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ “  ایک شخص حضور (ص) کے پاس آیا اور صحابہ کرامؓ کی موجود گی وہ سب کچھ سناتا رہا جو اسکی  انتہائی گھٹیاچلن کی رودادتھی؟ حضور (ص)کی یہ سنت مبارکہ تھی کہ وہ کسی کو اس کی گفتگو کے درمیان ٹوکنا معیوب سمجھتے تھے (حکم ہے تو ہمارے لیئے بھی یہ ہی مگر یہ اور بات ہے کہ ہم عمل نہیں کرتے ہیں)، وہ غور سے سنتے رہے صحابہ کرام ؓ  طیش کھاتے رہے کہ یہ کس قدر نازیبا گفتگو حضور (ص)کے سامنے کر رہا ہے؟ اس نے سب کچھ انکشافات کرنے کے بعد حضور (ص) سے پوچھا کہ کیا ان تمام گناہوں کا عادی  ہوتے ہوئے بھی میری معافی کی امید ہے؟ اگر ہے تو سب سے پہلے میں کونسا گناہ چھوڑوں؟ حضور(ص) نے فرمایا کہ “ جھوٹ بولنا چھوڑدو“ اس نے وعدہ کرلیا؟ اس وقت مدینہ منورہ میں بس ایک ہی مسجد تھی اور سب کو پابندی سے پانچوں وقت حاضری کاحکم تھا؟ اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تھا تو اس کے ہمسایہ کو تشویش ہوجاتی کہ وجہ کیا ہے؟ اور بات فوراً حضور (ص)علم میں آجاتی تھی۔  لہذا مسجد سے غیر حاضر ہونا آسان نہ تھا؟ جبکہ اس دن بھی اس نے سارے گناہ حسب دستور کیئے سوائے ایک جھوٹ نہ بولنے کے؟ اب اسکی پریشانی یہ تھی کہ میں مسجد میں جاؤ ں اور حضور(ص)کے پاس نہ جاؤں یہ ناممکن ہے اور اگر جاؤں اور وہ  (ص)کل کی مصروفیت پوچھ لیں تو کیابتاوںگا؟ کیونکہ میں نے ان(ص) سے جھوٹ نہ بولنے  کاوعدہ کیا ہواہے؟ اگر میں اس کی خلاف ورزی کرونگا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ بذریعہ وحی انہیں (ص) مطلع فرمادے گا؟ یہ سوچ کر وہ نماز میں شامل تو ہوا مگر حضور(ص)  سےبغیر ملے چلا گیا اور سوچ لیا کہ پہلے میں سب برائیاں چھوڑ دوں تو کل آکر خدمتِ اقدس(ص) میں حاضری دونگا؟ جب وہ دوسرے دن حاضرِ خدمت (ص) ہوا تو وہ بدلا ہوا انسان تھا؟ چونکہ ہمیں حکم یہ ہے کہ تمہارے لیئے تمہارے نبی (ص) کے اسوہ حسنہ میں بہترین نمونہ ہے؟ اس لیئے اس پر عمل کرتے ہوئے میں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ جو بھی سچ بولنے کے دعوے دار ہیں پہلے وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو حاضر اور ناظر مانتے ہوئے اپنے گریبان میں ایک نظر ڈال لیں؟ اور پھر ہر صاحب اقتدار سے پوچھیں کہ کیا  انہوں نے اللہ  کی حاکمیت اعلیٰ جوکہ پاکستان کے دستور کا جز ِ لازمی ہے وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اس کو نافذ کر سکیں؟ اور  ملک کومدینہ جیسی ریاست بناسکیں اور اس کے لیئے  ایماندار عملہ نہ ہوتے ہوئے  بھی کہیں سے  وہ لاسکتے ہیں؟ اور اب تک انہوں نے کتنے لوگوں کو صاحبِ تقویٰ بنا یا ہے؟ کیونکہ آجکل وہ ادارے ہی موجود نہیں ہیں جو کہ تزکیہ نفس کراتے تھے اور اس قسم کے مسلمان پیدا کرتے تھے؟ زمینی حقائق یہ ہیں خصوصاًپاکستان میں کہ “  کھینچے  ہےمجھے دین تو روکے ہے کلیسا؟ دنیا میرے آگے ہے تو عقبیٰ میرے پیچھے“ یہ وہ صورت حال ہے کہ کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا؟ جبکہ کہتے سب ہیں اور برائیوں سےروکنے والے ادارے بھی موجود ہیں؟  مگرظلم اپنی جگہ  جاری ہے تھانوں کی وہی لوٹ مار ہے۔ پٹوار خانوں کی بھی وہی صورت حال ہے  رشوت نے اب پردہ نشینی اختیار کرلی ہے جس کی وجہ سے رشوت کے ریٹ  بہت بڑھ گئے ہیں۔ کیونکہ میڈیا ہرطرف نگراں ہے؟  اب ہر ایک  اہلِ اقتدار سے ایک ہی بات کہہ رہا ہے کہ ایسے کام نہیں چلے گا؟ اور ایک طرح سے غیر اعلان شدہ قلم چھوڑ ہڑتال چل رہی ہے؟ یہ تو ہے ملک کی صورت حال؟ اوپر سے انڈیا نے موقعہ غنیمت جان کر کشمیر پر ہاتھ ڈالدیا ہے؟ اگلا ٹارگیٹ بیس  لاکھ آسامی مسلمان ہیں جوبنگلہ  دیش کو جلد ہی پیش آنے والا ہے؟ اس کے بعد بھارت کے بیس کروڑ مسلمان ٹارگیٹ ہونگے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کا آئین یہ ہے کے پہلے توبہ پھر معافی؟ جبکہ جھوٹ کو ام گناہ کہا گیا ہے۔
لہذا گناہوں کی جڑ کاٹے بغیر کام چلے گا کیسے؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کاش کوئی سمجھاتا؟

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.