۔۔۔اس تکلف کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ شمس جیلانی
آج کی بھی دنیا اس فارمولے کو مانتی ہے۔ کہ اگر انصاف ہوتا ہوا نظر نہ آئے یا اس میں تاخیر ہو تو یہ انصاف نہیں ہے۔ کتنے ہی مسائل ہیں جو یو۔ این۔ او۔ کے پاس قرار داداوں کی شکل میں پڑے ہوئے ہیں اور جنہیں خود یو این او۔بھی بھول چکی ہے، اب صورت ِحال یہ ہوگئی ہے کہ اسے بار بار یاد دلانا پڑتا ہے۔ مگر مسائل ہیں کہ جو ں کے توں رہتے ہیں۔ پہلے جو مسائل بڑو ں کی کوششوں سے حل ہوجایا کرتے تھے اب وہ بات بھی نہیں ہے کہ اصل میں دنیا میں بڑا ایک ہی رہ گیاوہ بھی مسلمانوں کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے؟ اگر دنیا کی تاریخ پرنظر دوڑائیں تو آپ دیکھیں گے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیشہ دو طاقتیں رکھیں۔ جیسے کہ مسلمانوں سے پہلے “ قیصر و کسریٰ“ ان میں جب تک جنگ جاری رہتی تو عوام آرام سے رہتے رہے، اس لیئے کہ فریقین کو ساتھی چا ہیئے ہوتے تھے۔ لیکن کچھ قومیں ایسی ہیں کہ تاریخ پڑھتی ہی نہیں ہیں اور ہربار کسی طاقت کی آلہ کار بننے کی غلطی کر بیٹھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے تو لوگ پہلے ہی بہتر تھے جبکہ یو این او۔ نہیں تھی اس لیئے کہ لوگ حقیقت پسند تھے اور موہوم امیدوں پر وقت زیادہ ضائع نہیں کرتے تھے۔ سب کو معلوم تھا کہ جس کے پاس طاقت ہے وہ جو چاہے کرے۔ لہذا ہر ملک کسی نہ کسی طاقت کا باج گزار ہوکر رہتا تھا اوراس طاقت کو خراج ادا کرتا تھا۔ جو اکیلا رہتا تھا وہ ہمیشہ مار کھاتا تھا؟ اب بھی ہر ایک یو این او کو اپنا حصہ ادا تو کرتا ہے کوئی کم کوئی زیادہ مگر تحفظ ان کے مفادات کو حاصل ہے جنہوں نے جتھے بندیاں کر رکھی ہیں اور وہ اس کے اسی فیصد اخراجات برداشت کرتے ہیں جبکہ ان کے سامنے اپنے مفادات ہوتے ہیں؟
اس سے زیادہ ظلم اورکیا ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ 72سال سے گیارہ قراردادوں کے ساتھ موجود ہے اور کسی ایک قرار داد پر عمل نہیں ہوسکا۔ کیونکہ اس میں وہ قوم رہتی ہے جو کہ آج کے دور میں ناپسندیدہ ہے۔جبکہ اس سے پہلے جب وہ ایک طاقت کے حق میں لڑ رہی تو پسندیدہ تھی۔ حالانکہ اس کی اکثریت کو کچھ نہیں معلوم کے ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہورہا ہے ان کا جرم کیا ہے لیکن نفرت کا نشانہ وہ بنتے ہیں؟ وہ دنیا جو کہ انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی عادی ہے اور برا سلوک کرنے پر چاہیں اسکے مالک ہی کیوں نہ ہوں سزا سے بچ نہیں سکتے ہیں، اسی دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام جائز ہے؟ اس لیئے کہ کچھ لوگوں نے پہلے مسلمانوں کو استعمال کیا؟ان میں شدت پسندی پیدا کی اب وہی راندہ درگاہ ہوگئے ہیں،کیوں؟ اس کیوں کا جواب تو ہے مگر ہم کو جواب دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیئے کہ جو اس کیوں کے ذمہ دار ہیں وہ مظلوم کی پہنچ سے باہر ہیں کہ کچھ اکثر انہیں کو بو قت ضرورت استعمال کرتے ہیں؟ اور ایک بار نہیں، انہیں بار باراستعمال کرتے ہیں اور انہیں نام و نہاد سرداروں کو استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ پھر بھی انہیں اپنی اوقات کا پتہ نہیں چلتا؟ اگر قرآن پڑھتے ہوتے تو وجہ سے با خبر ہوتے مگر اس کو انہوں نے خوبصورت غلاف میں بند کرکے بچو ں کی پہنچ سے بھی دور کردیا ہے۔ جبکہ میں تیس سال سے یاد دلارہا ہو ں کہ تم کہاں کھڑے ہو اسی کی طرف لوٹو عزت اور ذلت جس کے ہاتھ میں ہے۔ کل میں ٹی وی ریموٹ کو ایک چینل سے دوسرے چینل کی طرف گھما رہا تھا اس امید پرکہ شاید کہیں سے کوئی اچھی خبر مل جا ئے؟ خبر یں تو بہت تھیں مگر کشمیریوں پر ظلم کی کشمیر میں زلزلے کی کہ اس چینل پر ہاتھ پڑگیا جوکہ بحساب ابجد حضور (ص) کے نامِ گرامی پر ہے۔ اس میں جو صاحب انٹرویو دے رہے تھے ان کا اسم ِ گرامی تھا سید خالد منصور گیلانی وہ حضرت عبد القادرؓ جیلانی کے سجادہ نشین تھے اور پاکستان آئے ہوئے تھے اور وہ یہ دیکھ کربہت خوش تھے کہ پاکستانی عراقیوں سے بھی زیادہ حضرت عبد القادرؓ جیلانی سے محبت کرتے ہیں اور فرما رہے تھے، مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کہ میں اپنے ہی ملک میں ہوں؟ جب ان سے آخر میں کہا گیا کہ کشمیری بڑی مشکلو ں میں ہیں ان کے لیئے آپ کوئی ایسا وظیفہ بتا دیجئے تاکہ ان کی مشکلات دور ہوجائیں؟ تو انہوں نے فرما یا کہ میں نے دو باتیں ایسی دیکھیں جوکہ عراق سے یہاں جدا ہیں ایک تو یہ کہ حضرت عبد القادرؓ جیلانی کی وجہ شہرت وہاں بطور ایک جید عالم کے ہے گو کہ کرامات بھی بے انتہا مشہور ہیں، جبکہ یہاں کرامات زیادہ مشہور ہیں اور علمیت نہیں؟ دوسرے یہاں کے پیر مریدوں کو نصیحت نہیں کرتے بلکہ اکثر خود بھی نماز نہیں پڑھتے۔ پھر کہا کہ“ پہلے کشمیری اپنا جائزہ لیں پھر توبہ کریں تو اللہ کی مدد شاملِ حال جا ئیگی؟اس کے بعد اللہ سے انہیں ہدایت کے لیئے دعا فرما دی؟ کاش ہماری سب کی سمجھ میں یہ بات آجا ئے۔ ان کی سمجھ میں بھی جوکہ یہ کہتے ہیں کہ کشمیر اسلامی مسئلہ نہیں ہے؟ جبکہ ایک حدیث کامفہومی ترجمہ یہ ہے کہ “ اسلام ایک جسم کی مانند ہے کہیں بھی چبھن ہو تو پورے جسم میں تکلیف ہوتی ہے“ اور دوسری یہ بھی ہے کہ “ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیئے عمارت میں لگی اینٹ کے مانند ہے کہ ایک سے دوسرے کوتقویت حاصل ہوتی ہے۔“ کاش مسلمان اب بھی ذاتی رنجش اور مفادات کو بھلا کر اپنا قبلہ درست کرلیں؟(بشکریہ 92 ٹی وی)
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے