بابری مسجد کے انہدام میں ہمارے لیئے سبق۔۔۔ ۔شمس جیلانی

یہ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ایک ہندو رائٹر نے تقریباً سو سال پہلے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اس جیسی بہت سی تاریخی عمارات کے ساتھ ساتھ جن میں تاج محل بھی شامل تھا، اس نے کسی نہ کسی طرح اپنے کسی اوتار سے منسوب کر دیا تھا کہ یہ اِس دیوتا یا اُس دیوتا کا مندر تھا اس کو گراکر مسلمان با دشاہوں نے یہ بنا یا تھا جو کہ سراسر بہتان ہے کیونکہ انہیں تو ہمیشہ اپنی حکومت چلانے کی فکر رہتی تھی انہوں نے ایسا کام کبھی نہیں کیا کہ اکثریت جس سے ناراض ہو؟ اسی کتاب میں بابری مسجد کو بھی رام کی جنم بھومی قرار دیا گیا تھا، جس سے فتنہ پردازوں کو ایک ہتھیار مل گیا۔ یہ فتنہ پہلی دفعہ جب معرض وجود میں آیا تو1936ء میں کانگریسی حکومت برسرِ اقتدار آ چکی تھی اور اس نے دو بورڈ صوبے میں بکھری ہوئی وقف املاک کے بہتر انتظامات کے لیئے تشکیل دیئے۔ ایک تھا سنی سنٹرل بورڈ (وقف) یو پی اور دوسرا تھااہل تشیع کے لیئے شیعہ (وقف) بورڈ اس مسجد کارجسٹریشن بطور پرا پرٹی نمبر 26 سنی سنٹرل بورڈ کے نام پر تھا جس کے چیرمین عظیم مسلم لیگی راہنما چودھری خلیق الزماں مرحوم تھے،جن سے میری بہت اچھی یاد اللہ تھی اس لیئے مجھے اس واقعہ کے حقائق کا علم ہے۔ لیکن ان کو اس لیئے ذمہ دارنہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ انہیں لیاقت خان نے مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کا لیڈر بنا کر ہندوستان میں چھوڑا تھا جو کہ میرے علم کے مطابق ہندوستان کی پارلیمان میں پہلی واحد حزب اختلاف بھی تھی۔ لیکن آزادی کے حصول کے بعدجب ہندوستان میں بری طرح فسادات پھوٹ پڑے تو انہیں گاندھی جی نے کہا کہ فسادات جب تک نہیں رکیں گے جب تک کہ پاکستان میں بھی نہ رکیں۔ لہذا یہاں میں اور حسین شہید سہروردی کوشش کر رہے ہیں،آپ ایک وفد لیکر وہاں چلے جائیں اور قائد اعظم سے جا کر درخواست کریں وہ اس کام میں مددکریں؟ لیکن حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ بھوپال ہاؤس میں ٹھہر کر ایسے وہاں مقیم ہوئے کہ پھر انہیں واپس ہندوستان جانا نصیب نہیں ہوا۔ اب سوال ہوسکتا ہے کہ کیوں؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ جو آج کے موضوع سے تعلق نہیں رکھتی ہے۔ دوسرے یہ ان کی ذمہ داری تھی جو ان کے بعد بورڈکے چیر مین بنے؟ چونکہ میں بھی چلا آیا تھے مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون صاحب تھے؟ لیکن یہ بھی میرے علم میں ہے کہ مسجد سے ملحقہ قبرستان گنج شہیداں بھی تھا،پہلا تنازع جو نظر آیا وہ ان دونوں بورڈوں کے درمیان تھا۔ دونو ہی دعویدار تھے کہ یہ مسجد اور قبرستان دونوں ہماری ملکیت ہیں۔ مگر عدالت نے فیصلہ سنی سنٹرل بورڈ کے حق میں دیا اور دونوں چیزیں سنی سنٹرل بورڈ وقف کے نام منتقل ہوگئیں۔ اس کے بعد سنی بورڈکی ذمہ داری تھی کہ وہ مسجد کی چراغ بتی کا بندوبست کرتا، لیکن اس نے کوتا ہی برتی یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ پنڈت نہرو کے علم میں جب یہ بات آئی کہ اس پر لوگوں کی للچائی ہوئی نگا ہیں پڑ رہی ہیں ،تو انہوں نے اپنے مسلمان دوستوں کی توجہہ اس طرف مبذول کرائی کہ مسجد بند پڑی ہے۔ کم از کم اس میں ایک موذن رکھدو تاکہ وہ اذان وغیرہ دیدیا کرے؟مگر یہ وہ دور تھا کسی نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی مسجد بدستور بند رہی اور اس پر جھاڑیاں اگ کر آہستہ آہستہ درخت بن گئیں۔ جب شکا یت پنڈت نہرو کے پاس با قاعدہ پہنچی تو انہوں نے ولبھ بھائی پٹیل کو لکھا اور انہوں نے یوپی کے چیف منسٹر پنڈت گوبند ولبھ پنتھ کو لکھا کہ وہاں سے مورتیاں ہٹادی جا ئیں پھر انہوں نے متعلقہ منسٹر لال بہادرشاستری کو تعمیل کے لیئے لکھا۔ لیکن ڈپٹی کمشنر فیض آباد مسٹرکے۔کے۔ نیر کی ہمت نہیں پڑی اور انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بلکہ یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اکثریت مجھے جان سے مارڈالے گی؟۔1984 میں مہاسبھا نے اس پر قبضہ کرنے کی ٹھانی اور مسجد کے صحن میں بت رکھ کرنو دن تک کیرتن کراتی رہی۔ پھر اس میں جان تب پڑی جب کہ چارسال اس کے حق میں مہم چلانے کے بعد بی جے پی کے ایک رتن نے اسے ڈھانے کے لیئے رتھ یاترا شروع کی؟ یہاں ہم نے اس سلسلہ کے بہت ہی مختصر سے حقائق پیش کردئیے ہیں تا کہ آپ فیصلہ کر سکیں کہ اس کا ذمہ دار کون تھا! یعنی وہ جن کی یہ ملکیت تھی مگر سوتے رہے، یا وہ جنہوں نے موقعہ سے فائدہ اٹھا یا اور نریندر مودی جی جیسے مہا پرش اس ذریعہ کو زینہ بنا کر وزارت عظمیٰ تک پہنچ گئے۔
اس سے آگے اب وہ کہانی بڑھتی ہے کہ مسلمانوں نے تو اس سلسلہ میں غفلت برتی مگر اللہ تعالیٰ کا منصوبہ کچھ اور تھاکہ یہ ایک مسجد جو مسلمان نہیں سنبھال سکے اور بی جے پی کے ہاتھوں شہید کردی گئی،اسی میں جس میں دو کیسری کا ر سیوک ایک بلبیر سنگھ اور دوسرا اس کا دوست جو کہ اس کے انہدام میں سر گرمی سے شامل تھے ان کا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دل پھیر دیا کہ انکے ضمیر نے اتنی ملامت کی کہ انہوں نے نہ صرف اسلام قبول کرلیا بلکہ بلبیر سنگھ نے تو ا پنی شادی بھی مسلمان لڑکی سے کرلی اور بھائی کو بھی مسلمان کرلیا اور بطور کفارا سو مسجدیں بنانے کا اللہ سبحانہ تعالیٰ سے عہد کر لیا۔عہد تو سبھی کرلیتے ہیں مگر نبھانا مشکل ہوتا ہے، لیکن وہ ابھی تک کامیا بی سے اسے نبھا بھی رہا ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ جیتی جاگتی نوے مسجد یں اب تک بنا چکا ہے دس مزید بنا کر سو کی تعداد پوری کرنا چا ہتا ہے جبکہ ہندو مت چھوڑ کر کے وہ اسلام کا پرچارک (سرگرم مبلغ)بنا ہوا ہے اور اپنی جان پوری طرح خطروں میں ڈالے ہوئے۔ اس طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنے دین کی اس سے خدمت لے رہا ہے۔ اسی لیئے وہ آجکل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اس کا کام کسی کے بغیر نہیں رک سکتا وہ جاری رہتا ہے؟ اگرہم نہیں کریں گے تو کوئی اور کریگا؟ میرے خیال میں یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیئے بہت کافی ہے۔ ڈریں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی سنت کے مطابق کسی اور کو ہم پر لاکر نہ بٹھا دے؟یہ اونگھتے ہوئے مسلمانوں کے لیئے لمحہ فکر بنا کر چھوڑ رہا ہوں کہ شاید کوئی غور کرنے کی زحمت گوارا فرما ئے۔

ب

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles. Bookmark the permalink.