کوئی تو وجہ ہے کہ نحوست نہیں جاتی؟ شمس جیلانی

ہم نے آج اپنے کالم میں پاکستان کے بارے میں کچھ لکھنا چاہا تھا کہ کل رات کو ہی ٹرین کے حادثے کی خبر سن لی؟ یہ حادثہ کیوں ہوا اور کن لوگوں کو پیش آیا غور طلب ہے۔ جو اطلا عات آرہی ہیں وہ یہ ہیں کہ رائیونڈ میں حسب معمول تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع ہورہا تھا جس میں بہت ہی بڑی تعداد ہر سال شرکت کرتی ہے؟ اس لئے وہ تمام ٹرینیں جواس راستے پر چل رہی تھیں وہ بلا امتیازوہاں رکتی تھیں۔ جماعت کے لوگوں نے جن کا تعلق میر پور خاص تھا ٹرین کے اندر آگ جلانے کی کوشش کی جو کہ ممنوع ہے۔ انہوں نے اس وقت تو اسے بجھا دیا، لیکن جب ریلوے کا کارندہ چلا گیا تو پھر اسے جلا کے ناشتہ صبح تیا ر کرنے لگے کہ سلینڈر پھٹ گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ تین بوگیوں نے آگ پکڑ لی؟ اور 73 آدمی شہید ہوئے بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے شہید ہوئے کہ انہوں نے جان بچانے کے لیئے چھلانگیں لگا دیں؟ اس سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ“ ہم اللہ کو تو مانتے ہیں مگر اس کی بات نہیں مانتے ہیں“ یہ ہی وجہ ہے کہ نحوستیں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ تی ہیں۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ اس میں کہا ں انہوں نے اللہ کی بات نہیں مانی کیا؟ آپ وہاں تھے جو اتنے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں؟ جبکہ یہ وہ لوگ تھے جو ایک نیک کام کے لیئے جارہے تھے۔اس سلسلہ میں دورا ئیں نہیں ہوسکتیں؟ مگر یہاں جو آیت مشعل را ہ ہے وہ یہ کہ “ اللہ کا اتباع کرو،رسول ﷺ کا اتباع کرو اور تم میں جو حاکم ہوں ان کا بھی اتباع کرو“ یہ حادثہ خوداپنے منہ سے بول رہا ہے کہ انہوں نے اس آیت پر عمل نہیں کیا؟ کیوں؟ اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ ہمارے قول اور فعل میں جو تضاد عام ہے وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا اور ہم اس سے پیچھا چھٹانا بھی نہیں چاہتے ہیں۔ ورنہ وہ مذ ہبی لوگ تھے قانون کی پابندی ضرور کرتے اور سلینڈرٹرین میں لوڈ ہی نہیں کرتے کوئی کہتا بھی کہ سلینڈر لے کر چلو وہاں کھانا پکانے میں دقت ہوگی تو ان کے “امیر“ اس کو سختی سے منع کردیتے۔ لیکن ہماری عادت ہے کہ ہم کہتے تو بہت کچھ ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ“ مسلمانوں وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو،یہ بات اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے (سورہ الصف آیت ایک اور دو)۔ جب کہ ہمارا من حیثیت القوم یہ مزاج بن چکا ہے کہ جو کہنا وہ کرنا نہیں۔
بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر 72سال پہلے 27 رمضان المبارک کی شب میں رات کے بارہ بجے عالم وجود میں آیا۔ مگر قوم کو 14اگست 1947 یاد ہے ستائیس رمضان کی مقدس رات نہیں؟ ایسا کیوں ہوا یہ اس لیئے کہ قائد ِاعظم کے بعد آنے والے رہنما یہ بھول گئے ہم نے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے کچھ وعدے بھی کیئے ہوئے تھے جو ہم بھولتے جارہیں۔ جبکہ ان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا وعدہ بھی شامل تھا جبکہ سکولرازم اپنانے کا کوئی وعدہ نہیں تھا؟ جس پر ہم بعد میں دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیئے عمل پیرا ہو گئے؟ پھر جو بھی آیا وہ یہ کہتا ہواآیا کہ میں اسلامی نظام نافذ کرونگا میں پہلے والوں جیسا نہیں ہوں،انہوں نے وعدہ خلا فی کی میں ایسا نہیں کرونگا؟ پھر یہ ہوتا رہا کہ اس نعرے کی بنا پر اقتدار پر جو چاہتا قابض ہو جاتا اور وعدہ کبھی پورا نہ ہوتا؟ اس کے بعد ایک مردِمومن آیا اور اس نے کہا کہ پہلے والے صرف باتیں کرتے تھے میں نظام مصطفیٰ ﷺ نافذ کر کے دکھا ؤنگا۔ اس کے پاس پوری طاقت تھی وہ ایسا کر بھی سکتا تھا! اس نے دس سال سے زیادہ حکومت بھی کی آخر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے پاس بلا لیا؟ اس طرح یہ نعرہ بھی پرانا ہوگیا۔ لہذا تبدیلی کی ضرورت تھی؟ کہ "مدینے جیسی ریاست کانعرہ بلند ہو ا ” ہم سب کا ماتھا تو ٹھنکا کہ دوھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کہ کہیں پھر چوٹ نہ ہوجائے, لیکن یہ نعرہ لگا نے والے کا سابقہ ریکارڈ اچھا تھااور ہمیں یہ بھی حکم ہے کہ اپنے مومن بھا ئی سے اچھا گمان رکھو؟ سب کی رائے ہوئی کہ ا ن کو بھی آزمالو، آخر آزمانے میں کیا حرج ہے؟ خدا کا شکر ہے کہ وہ اقتدار تک پہنچ گئے ہم اور ہمارے دوست حضور ﷺ کی سیرت لیکر بیٹھے کہ اب آنے والے سیرت پر عمل کریں گے جس میں فلاح ہے۔ توقع کر رہے تھے کہ جیسے ہی وزیر آعظم حلف برداری کی تقریب سے فارغ ہونگے تو۔ وہی کریں گے جو غزوہ بدر میں حضورﷺ نےکیا تھا کہ رات بھر دعا مانگتے گزاری تھی؟ اور کل پوری قوم کو کہیں گے آئیں ہم سب ملکر اجتماعی توبہ کریں اوردو رکعت نماز شکرانہ ادا کریں جیسے کہ حضورﷺ نے ھدیبیہ کے مقام پر عمل فرمایا تھا۔ مگر کان لگا کر سنتے رہے ہمیں ایسا کوئی اعلان سنا ئی نہیں دیا۔ بلکہ عید کو بھی نماز پڑھتے نہیں دکھائی دیئے؟ پھر ہماری ہمت اس آس سے دوبارہ بندھی کہ جب انہوں نے سادگی اپنا ئی اور مدینہ منورہ ننگے پیر تشریف لے گئے۔ ہم نے کہا چلو شاید بھول گئے ہونگے اور “اس امت کو بھول چوک معاف ہے“پھر اللہ نے فتح سے انہیں ہم کنار فرمایا اور دشمن کے دو جہاز فوج نے مارگرا ئے۔ ہم نے سوچا کے اب یہ حضور ﷺ کا اتباع ضرور کریں گے۔ کیونکہ بعیت رضوان سے پہلے حضور ﷺ نے سب کو حکم دیا تھاکہ سب توبہ کریں اور رہنمائی فرما ئی تھی یہ فرماکر کہ یہ وہ “حطہ “ ہے جو بنی اسرائیل نے ادا نہیں کیا تھا اور اس کے بجائے دوسرا لفظ کہدیا تھا۔ یہ اب ہم ادا کر رہے ہیں۔ اگر وہ اتنا ہی کرلیتے جتنا کہ خلفا ئے راشدین اور سپہ لاروں نے کیا کہ جو علاقہ فتح کیا وہاں حضور ﷺ کے اتبا ع میں صلاۃ شکرانہ ادا فرمائی اس لیئے کہ ہمارے آقاﷺ نے ایسا کیا تھا۔ جب ایک سال گزرگیا اور مدینے کی ریاست کی طرف کوئی پیش رفت نہیں دیکھی تو ہم اور ہمارے ساتھی پریشان ہونا شروع ہوئے۔ وہ پوچھنے لگے کہ اب کیا ہوگا، تب ہمارا دل بھی پھرخوف سے دہلنے لگاہے؟ کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا یعنی وہ بغیر توبہ کے کسی کو معاف نہیں کرتا ہے۔ تو ہم نے انہیں کالموں میں مشورہ دیا کہ حضورآپ نے کچھ وقت غفلت میں گزار دیادیر آید درست آید اب بھی گنجائش ہے کہ توبہ کرلیں؟ ہمیں حالات اچھے نہیں دکھا ئی دے رہے ہیں۔ اب کچھ لوگ دار الحکومت تک پہنچ چکے ہیں ان میں وہی لوگ ہیں جو پہلے حکومت میں تھے۔ ان میں ایک مولانا بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ افواہیں عام ہیں کہ انہیں کہیں سے شہ مل رہی ہے، ہمارا تجربہ ہے کہ بہت سی افواہیں پہلے بھی سچ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ جن کے لیئے ایک سابق سپہ سالار دعا کرتے بھی ہمیں ٹی وی پر سنا ئی دیئے کہ “ ہم مولانا کی کامیابی لے لیئے دعا گو ہیں “ معدبانہ عرض ہے کہ ابھی بھی وقت نہیں گیا ہے، تو بہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , , . Bookmark the permalink.