دنیا میں تمام اسپتال جنیوا کنونشن کے قوانین کے تحت ہر قسم کی توڑ پھوڑ ہر قسم کے فضائی حملوں وغیرہ سے محفوط سمجھے جا تے ہیں اور کوئی حالت ِ جنگ میں بھی دشمن کے اسپتالوں کو بھی نشانہ نہیں بنا تا۔ اگر کسی مریض کو ایمبولیس لے جا رہی ہو تو ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پذیر سب کے یہاں اسے راستہ دینے کے لیئے ٹریفک ٹھہر جا تا ہے جب تک وہ کافی دور نہ نکل اس کے لیئے ٹھہرا رہتا ہے نہ ٹھہرے تو بہت بڑا جرم ہے۔ پاکستان کا تو مجھے پتہ ہیں لیکن کنیڈا میں ایمر جینسی گاڑیوں سےڈیر سو میٹر کے فاصلے پر ٹریفک چلتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں یہ فخر ان لوگوں کو حاصل ہے جوکہ محافظِ قانون کہلا تے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ محض کسی فرد واحد کی نازیبا حرکت کے با عث پورے اسپتال کو تو ڑ پھوڑدیا جا ئے اس کی مشینوں کو ناکارہ بنا دیا جائے اس بربریت پر ہم نے فخر سے تنے اور ہنستے مسکراتے ہوئے کالے کوٹ پہنے چہرے ٹی وی پر فاتح کے حیثیت سے واپس جاتے ہوئے دیکھے ؟ اور اسپتال بھی کونسا یعنی امراض قلب کا اسپتال جوکہ صوبے بھر یں غریبوں کے لیئے ایک ہی ہے ، ( یہ ایک اس لیئے ہے کیونکہ حکمراں اور بڑے لوگ غیر ملکوں میں اپنا علاج کرانے چلے جا تے ہیں ) اس وجہ سے اس ہسپتال کی اہمیت یہ ہے کہ سالوں میں کہیں نمبر آتا ہے اس دن آپریشن ٹھہیٹر سے نہ جانے کتنے لوگ بغیر آپریشن کرا ئے چلے گئے۔ہونگے۔ یہ وہاں ہواجہاں کہ ایک لمحہ کی غفلت کسی مریض کی جان لے سکتی ہے۔ اور اس نے تین مریضوں کی ابھی تک اطلاع کے مطابق جان لے بھی لی اور یہ فہرست کہاں تک پہنچے گی کون کہہ سکتا ہے کہ پڑھے لکھوں کویہ جانتے ہوئے کہ یہ فعل جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے؟ سسکتے لوگوں پر ترس نہیں آیا۔ اس لیئے کے وہ جانتے ہیں کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا؟ اور انہیں کا ہی نہیں کسی وہا ں کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا جس کی جیب میں پیسے ہوں؟ نتیجہ یہ ہے کہ وہاں حالات اتنے خراب ہوگئے کہ حکومت کو اسپتال خالی کرانا پڑا، ہم نے ٹی وی پر یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک خاتون سب سے فریاد کرتی پھر رہی تھیں کہ میرے شوہر کی حالت بہت خراب ہے، ٹھیک نہیں ہے مجھ پر رحم کھا ؤ انکو یہیں رہنے دو ؟وہا ں ہر شخص تصویر ِ حسرت و یاس بنا ہوااور بے بس دکھائی دے رہا تھا۔ کیا یہ ہی اسلام ہے جس کا مظاہرہ پاکستان کی وکلاء برادری نے پیش کیا ہے۔ اسلام تو بدلہ لینے کے بجا ئے معاف کر نے کو ترجیح دیتا ہے۔ اگر بدلہ لینا ہی ہے تو اس سے لیا جاسکتا ہے جس نے کسی کا نقصان کیا ہو؟ وہ بھی اتنا ہی جتنا کہ کسی کو نقصان پہنچا ہو۔ اس سے زیادہ نہیں اس سے زیادہ انتقام لینے والے کے لیئے قرآن نے ظالم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور مسلمانوں کو سختی سے منع کیا کہ وہ صرف مسلمانوں کا ساتھ بھلائی میں دے سکتے ہیں برا ئی میں نہیں برائی میں گروہ بنا کر ظالم کی حمایت نہیں کرسکتے؟اس کے لیئے یہ نوید ہےحدیث اور قرآن کی شکل میں کہ ظالم کاساتھ دینا والا ظالم ہے۔ مسلمان کو گالیا ں دینے والا فاسق ہے اور مسلمان کو قتل کرنے والا کافر ہے، یہ تمام باتیں یقیناً وکلاء کو بھی معلوم ہونگی کیونکہ ان سے زیا دہ اسلامی قوانین کون جانتا ہے؟ اسی وجہ سے ہندوستان میں برطانیہ کے دور میں مسلماں وکیلوں کے ساتھ مولوی لگا ہو تا تھا کہ وہ مسلم لاء کے ماہر ہو تے تھے؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پتہ نہیں کہ اب کیا حال ہے ۔
پھر اس پر ظلم یہ کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے کہ ہمارے لوگ گرفتار کیوں ہوئے لہذا ہم اسوقت تک ہڑتال جاری رکھیں گے جب تک کے ہمارے لوگ نہ چھوڑے جا ئیں؟ انکا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا، رات کو برہنا کر کے او ر فل پنکھا چلا کر ان پر پولیس نے تشدد کیا ،جس کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ اس کی بھی تحقیات ہونا چا ہیئے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ہمیشہ ہر معاملہ میں نام وکلا ء ہی کا کیوں آتا ہے اور ان کے ہاتھوں عدالتیں تک محفوظ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت لمبی فہرست مظالم کی؟ رہے ان کے کارنامے وہ بہتر سال میں اتنے ہیں ۔ کہ یہ چھوٹا سا مضمون اس کا حامل نہیں ہوسکتا؟
یہ ہم کدھر جا رہے ہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی پاکستان میں یہ رواج عام ہو تا جا رہاہے۔ رہی حکومت جوکہ تبدیلی کے نام پر آئی تھی وہ ہر قسم کی معافیا کے شر اور عدم تعاون سے اتنی بو کھلا چکی ہے کہ قدم قدم پر اپنی بد حواسی کا ثبوت دے رہی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ہر غوغا آرا ئی کے آگے اپنے ہوش اور حواس کھو بیٹھتی ہے۔ دوسری طرف ہر ایک صبر کا دامن چھوڑ چکا ہے۔ کیونکہ عام آدمی کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کے وہ کہاں جا ئے اوراس کے مصائب کا ذمہ دار کون ہے۔ لہذا وہ ہر ایک سے الجھ پڑتا ہے اس صورت حال میں یہ ملک اس طرح کب تک چلے گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ایک طرف ساری دنیا مسلمانوں کے پیچھے ان کے اعمالوں کی بنا پر پڑی ہو ئی ہے تودوسری طرف مسلمان خود اپنے کردار سے اس قسم کے کارنامے انجام دے کر دنیا میں خوف بڑھا رہے ہیں، جو بجا ئے اسلام فو بیا کو کم کرنےکے بڑھا نے کا باعث ہو تےہیں۔ خاص طور سے ہم کس منہ سے دنیا کے سامنے مدد کے لیئے کشمیری مسلمانو کے لیئے جائیں۔ جب کہ ہم کہتے سب ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ بے شک سچ ہے ؟مگر ہمارے کردار دیکھ یہ کون مانے گا؟ آج میں اتنا رنجیدہ ہو ں کے مجھ سے کچھ لکھا نہیں جا رہا ہے۔ بس اپنی بات علامہ اقبال (رح) کے اس ایک مصرع پر ختم کرتا ہوں کہ ـ کیا زمانے میں پنپنے کی یہ ہی باتیں ہیں
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے