واپسی پارلیمان کی طرف۔۔۔ شمس جیلانی

جمہوریت کاقبلہ جو کہ جسٹس منیر مرحوم نے نظریہ ضرورت ایجاد کر کے تبدیل کیا تھا وہ موجودہ چیف جسٹس جناب کھوسہ نے اس معاملہ میں یہ حکم دیکر کہ چھ ماہ کے اندر پارلیمان میں بیٹھ کر اس کا حل خود دریافت کرو کہ کمانڈر انچیف کے اگر عہدے میں اگر توسیع ناگزیرہو،اورقوم تو سیع کرنا چاہے توکیسے کرے چونکہ اس پر کوئی واضح قانون نہیں تھا اور شروع سے یہ معاملہ روایات پر چل رہا تھا؟ عدلیہ نے قوم کو یہ سیدھاراستہ دکھا کر کے حکومت کے لیے آسان کر دیا اور ساتھ میں یہ پیغام بھی دیا کہ سب کام عدلیہ ہی کرے گی تو پارلیمان کس مرض کی دوا ہے؟ کیونکہ نظریہ ضرورت کی ایجاد کے بعد ہر ایک کام میں رہنمائی کے لیئے ہر کام چور یا آمر عدالت کی طرف ہی دیکھتا تھا،عدالت کووقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے کو ئی درمیانی راستہ ایجاد کرنا پڑتا تھا ملک کو بچا نے کے لیئے اور اس فیصلے کی وجہ سے سارا ملبہ وہی عدالت پر ڈالدکر خود الگ ہوجاتا تھا۔اور اس سے عدلیہ کا وقار مفت میں مجروح ہوتا تھا۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا کہ حکومت نئی تھی اس کے لیڈر کی نیت پراس کا سابقہ کردار دیکھتے ہوئے شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا، مگر اس کے پاس مطلوبہ اکثریت نہ تھی اور اس نے وعدے کرتے وقت یہ اندازہ نہیں لگا یا کہ اُس قوم کو جسے بہتر سال میں بڑی محنت سے بگاڑا گیا ہے وہ انہیں اکیلا کیسے راہ راست پر لاسکتا ہے؟ اس لیئے اسے مدینہ کی ریاست کی شکل دینے کا دعویٰ ایک ناممکن کام ہے کاش وہ مدینے کی ریاست بنا نے کا وعدہ کرنے سے پہلے خود حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ ﷺکو پڑھ کر عامل ہوجاتا تو اس کے ذہن میں وہ تمام طریقے ہوتے جن سے مدینے کی ریاست کی بنی تھی؟ کیونکہ آگے چل کر اسے اکیلے ان تمام طبقوں سے مقابلہ کر نا تھا جیسے کہ انہیں ﷺ کرنا پڑا تھا۔ جبکہ یہاں بھی معاشرے میں بھلے اور برے کی تمیز ہی اٹھ چکی ہے؟ اور کسی طرف سے بھی معاونت کی امید نہیں تھی۔ اور اگر کچھ متوقع تھا تو وہ یہ کہ مخالفت ہونا لازمی تھی۔ کیونکہ تیس چالیس سے موروثی اور مسلسل حکمرانوں کی وجہ سے ایک طبقہ بن چکا تھا اور وہ ان حکمرانو ں کاعادی تھا کہ حاکم کی دو داڑھیں ہونا چا ہیئے ایک کھانے کی اور دوسری کھلانے کی۔
میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ نوکر شاہی جس کو انگریزی میں برو کریسی کہتے ہیں و ہ حکومت سے ناراض ہے اور ایک طرح سے قلم چھوڑ ہڑتال پر ہے۔اسی دوران یہ کمانڈر انچیف کی توسیع کا مسئلہ آگیا؟ چونکہ موجودہ حکومت کو بروکریسی کا تعاون حاصل نہیں تھا۔ انہیں جیسا ڈکٹیشن دیاگیا ویسا ہی لکھتے گئے اور اگراسے پڑھا بھی تو درست نہیں کیا؟لہذا قدم، قدم پر غلطیاں ہوئیں۔ جو کہ میرے خیال میں امت کے لیئے باعث رحمت بن گئیں کیونکہ اگرغلطیاں نہ ہوتیں تو شاید اصلاح کا موقع بھی کبھی نہ ملتا۔؟ میرے خیال میں قابلِ ستا ئش ہیں چیف جسٹس صاحب کہ وہ بھی اگر اس میں معاملہ میں جلدی میں فیصلہ کرکے رٹا ئر ہو جا تے تو آئندہ کبھی اصلاح کی گنجا ئش نہ تھی کہ انکا فیصلہ نظیر بن کر پی ایل ڈی میں آجا تا اور کام یونہیں چلتا رہتا۔مگر انہوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے تین قیمتی دن قوم کو عطا فرما ئے اور سمجھنے اور دائمی حل نکا لنے کے لئے کوشش کی با لآخر وہ اس معلومات تک پہنچ گئے کہ فوجی نظام جو بر طانیہ کے زمانہ سے چلا آرہا ہے اس میں جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق تر میم کی ضرورت ہے۔ چونکہ وہ شروع سے ہی اس نظریہ کےحامی ہیں کہ جو جس کا کام ہے اسے کرنے دیا جائے اور اسی کو ہی کرنا بھی چا ہیئے؟ جس کا اظہار انہوں نے اپنے عہد میں بار بار دہرا یا حتٰی کے جب حکومت اور اپوزیشن یہاں تک پہنچ گئی کہ الیکشن کمیشن کے چا ر میں سے دو ممبروں پر متفق نہ ہو سکی جو دستوری کے مطابق اسے ہونا تھا؟اور وہ مسئلہ عدالت کو بھیجدیا۔ تو اس دفعہ بھی انہوں نے یہ طریقہ اپنا یا کہ فیصلہ دیدیا کہ یہ کام پارلیمنٹ کا ہے وہی طے کرے جیسے بھی کرے؟ کیونکہ عدالت کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ آگے چل کر ایسا ڈید لاک آنے والا ہے کہ، الیکشن کمیشن کے چیر مین بھی ریٹائر ہو جا ئیں گے اور ملک جمود کا شکار ہوجا ئے گا؟ خطرہ تھا کہ اس سے پیدا ہونے والے جمود کی وجہ سے کہیں تاریخ خود اپنے آپ کو نہ دہرا لے۔ انہوں نے بجا ئے روایات بر قرار رکھنے کہ ایک ایسا فیصلہ دیدیا کہ چھ ماہ میں یہ معاملہ بھی پارلیمنٹ طے کرے اور با قاعدہ ضروری قانون سازی کرلے۔ جب تک ہم توسیع دیئے دیدیتے ہیں۔
خدا پاکستان کے با ئیس کروڑ عوام کو عقل دے اور وہ اپنے علاقوں کے اراکین ِ پارلیمان پر بلا امتیاززور ڈالیں کہ وہ اسمبلی میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھا نے کے لیئے نہیں بھیجے گئے ہیں۔ بلکہ ان ذمہ داریوں کو پوری کرنے کے لیئے بھیجے گئے ہیں، جس کام کے لیئے ایوان میں انہیں منتخب کر کے بھیجا جاتا ہے۔ اور اگر وہ ان کے کہے پر کان نہ دھریں تو ان کی چھٹی جمہوری طریقہ سے کردیں۔ تبھی جمہوریت پاکستان میں چل سکتی ہے ورنہ نہیں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.