موجودہ چیف جسٹس نے عدلیہ کو اصل میں ایک نئی دکھائی جبکہ وہ کنفیوزڈ تھی کہ کس کی ما نے اور کس کی نہ مانے؟کیونکہ اس کے پاس کچھ رسم و رواج انگریزوں دورسے چلے آرہے تھے، تو کچھ پاکستان بننے کے بعد وضع ہو ئے تھے۔ کہ اس کے ہر شعبے پرمعافیہ چھا گیاتو پھر عدلیہ کیسے بچ سکتی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وکیل اپنے مقدمے عدالت میں لڑنے کے بجا ئے کورٹ کے احاطے میں جا کر لڑنے لگے۔ اس ماحول میں جس نے بھی اس دھار ے کوبدلنے کوشش کی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسے اپنی پالیسی ترک کرناپڑی اس کی اتنی مثالیں ہیں یہاں انہیں گنوانا مشکل ہے؟ میں اپنے قارئین کو سمجھا نے کے لیئے ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک صاحب جو کہ تالپور خاندان سے تعلق رکھتے میر پور خاص میں ان کی تقرری ہوگئی آدمی محنتی اور ایماند ار تھے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ وہ اپنی مثال آپ تھے۔تمام جج ہمیشہ بلندی پر بیٹھا کرتے ہیں۔لیکن وہ ایک بڑی سی میز پر جس کے چاروں طرف اسٹاف بیٹھا ہوتا تھا، کہیں ان ہی کے درمیان میں اس طرح تشریف فرما ہوتے کہ پہچانے نہیں جا تے تھے۔ جس مقدمہ کو آواز پڑتی اگر اس کا وکیل موجود نہیں ہوتا یا تھوڑا سا بھی لیٹ ہو جاتا تو وہ مقدمہ عدم پیروی میں خارج کر دیتے۔ فرما تے کہ میں نے تو مقدمہ خارج کردیا ہے تم جاکر اپیل کرلو؟ تھوڑے دنو ں میں یہ صورت ِ حال ہوگئی کہ ہر ایک وقت کا پابند ہوگیا؟ تمام ہتھکنڈے جو مقدمات کو طول دینے کے لیئے استعمال کیئے جا تے تھے وہ سب متروک ہوگئے مقدمات، بہت تیزی سے آگے بڑ ھنے لگے نتیجہ یہ ہوا۔ کہ معافیہ پریشان ہوگئی کہ اگر اسی طرح کام چلتا رہا تو ہم سب کھا ئیں گے کیا۔ وکلاء کا ایک وفد تیار ہوا اور سندھ چیف کورٹ میں جاکر پیش ہوا، جج صاحب کی طلبی ہوئی راوی بیان کر تا ہے کہ ان سے کہا گیا کہ اگر آپ کے یہ لیل و نہار رہے تو صرف آپ رہ جا ئیں گے، باقی سب کی تو چھٹی ہو جا ئیگی؟اس کے بعد ان کا تبادلہ ہو گیا اور پھر ہم نے ا ن کا کہیں ذکر نہیں سنا کیونکہ انہیں چپ چاپ کام کرنے کی تو اجازت تھی، مگر وہ پالیسی تبدیل کرنے کی نہیں جوکہ جسٹس منیر صاحب نظریہ ضرورت کی شکل میں دے گئے تھے؟ یہ 1958 ء کی بات ہے جب سے کسی آنے والے کو بلا امتیاز عہدہ جمود توڑنے کی جرائت نہیں ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک خوش اسلوبی سے اپنا وقت گزارتا رہا آتا اور جاتا رہا۔ البتہ فا ئلوں کے پہاڑ بن گئے۔ یہ بات مشہور ہوگئی کہ اگر دادا مقدمہ شروع کریں اور پوتوں تک فیصلہ آجا ئے تو بہت ہے؟ لیکن موجودہ چیف جسٹس صاحب نے جب یہ حال دیکھا تو گھبرا ئے نہیں، بلکہ کچھ کرنے کی ٹھان لی اور پاکستانیوں کی خوش قسمتی تھی کہ وہ فا ئلوں کے پہاڑ ڈھانے میں کامیاب ہو گئے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کام زیادہ اور شور کم کیا۔ دوسرے یہ کہ کمپوٹر کا دور آگیا اور انہوں نے اس سے استفادہ حاصل کیا۔ عدلیہ کو بجا ئے نظریہ ضرورت کے نئی پالیسی دیدی کہ انصاف سب کے لیئے اور قانون کے مطابق چاہیں آدمی چھوٹا ہو یا بڑا؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاثر عوام میں غلط کیوں جا رہا ہے۔ اس لیئے وہ لوگ پریشان ہیں جو جمہوریت کے نام پر آمریت چلانے اور الزام ووسروں کے سر ڈالنے کے عادی تھے۔ جس کی اب انہیں اجازت نہیں ہے۔ ورنہ چیف جسٹس صاحب نے جو اعداد شمار دیئے ہیں وہ حیرت انگیز ہیں اور وہ خود اور ان کا عملہ قابلِ تحسین ہیں؟ چونکہ ان کے بعد آنے والے جج بھی ان پانچ میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے مورثی قیادت کے خواب چکنا چور کردیئے؟ کئی وزرائے اعظم کو گھر یا جیل بھیج دیا لہذا امید ہے کہ وہ حسب سابق اسی پالیسی پر کا ربند رہیں گے۔قوم کو ان پانچ ججوں کاشکر گزار ہونا چا ہیئے۔ ورنہ میثاق جمہوریت نے تو دو خاندانو ں کے علاوہ کسی تیسرے خانداں کی سیاست میں انٹری کی گنجا ئش ہی نہیں چھوڑی تھی۔ رہی میڈیا اس کی کچھ خوبیاں ہیں تو کچھ خامیاں بھی ہیں۔ کہ کوئی ترس نہ کھا ئے تو کہتے ہیں دیکھو ترس نہیں کھا رہا ہے اور ترس کھا ئے۔ تو کہتے ہیں دیکھو اس نے ترس کیوں کھا یا کسی ظالم پر۔ یہ وہی عوام اور گھوڑے والی مثال ہے کہ اگر باپ گھوڑے پرسوار ہے تو باپ ظالم کہ بیٹا بیچارہ پیدل چل رہا ہے، اگر وہ خود پیدل چلے تو بیٹاظالم کے بوڑھے باپ کاخیال نہیں کر رہا اور دونوں گھوڑے پر سوار ہوجا ئیں تو دونوں ظالم کہلا ئیں کہ گھوڑےپر ظلم کر رہے ہیں؟ ہم نے اہلِ اقتدار میں سے ایک صاحب کو یہ کہتے سنا کہ عدلیہ کا تاثر اچھا نہیں ہے۔ جب کہ جس طرف اشارہ تھا وہ خود کہہ چکے ہیں کہ میری پوری کا بینہ تو مخالف تھی مگر مجھے ترس آگیا اس سے کیا سمجھاجا ئے کہ کابینہ کو انہوں نے نظر انداز کردیا؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر آئین کے تقاضے پورے نہیں ہو ئے۔ ہم چونکہ قانون داں نہیں ہیں۔ لیکن کچھ قانوں داں کہہ ہیں، ان کو ہم نے ٹی وی پرکہتے سنا کہ کورٹ نے جانے والوں کوزیادہ پابند کیا ہے بجا ئے اہل بانڈ کے۔ میرا مشورہ ہے کہ دوچار دن قارئین بھی مزید تبصرے سن لیں تاکہ کوئی رائے قائم کرسکیں ورنہ جب تک میڈیا کوکو ئی اور موضوع مل جا ئے گااور وہ اس میں مصروف ہو جا ئے گی اوروہ بھی پاکستانی عوام کی طرح بھول بھال جا ئیں گے۔
-
حالیہ پوسٹیں
آرکائیوز
- جون 2023
- مئی 2023
- اپریل 2023
- مارچ 2023
- فروری 2023
- جنوری 2023
- نومبر 2022
- اگست 2022
- جولائی 2022
- مئی 2022
- اپریل 2022
- مارچ 2022
- فروری 2022
- نومبر 2021
- اکتوبر 2021
- ستمبر 2021
- جولائی 2021
- جون 2021
- مئی 2021
- اپریل 2021
- مارچ 2021
- فروری 2021
- جنوری 2021
- دسمبر 2020
- نومبر 2020
- اکتوبر 2020
- ستمبر 2020
- اگست 2020
- جولائی 2020
- جون 2020
- مئی 2020
- اپریل 2020
- مارچ 2020
- فروری 2020
- جنوری 2020
- دسمبر 2019
- نومبر 2019
- اکتوبر 2019
- ستمبر 2019
- اگست 2019
- جولائی 2019
- مئی 2019
- اپریل 2019
- مارچ 2019
- فروری 2019
- جنوری 2019
- دسمبر 2018
- ستمبر 2018
- جولائی 2018
- جون 2018
- مئی 2018
- فروری 2018
- جنوری 2018
- دسمبر 2017
- نومبر 2017
- اکتوبر 2017
- ستمبر 2017
- اگست 2017
- جولائی 2017
- جون 2017
- مئی 2017
- اپریل 2017
- مارچ 2017
- فروری 2017
- جنوری 2017
- نومبر 2016
- اکتوبر 2016
- ستمبر 2016
- اگست 2016
- جولائی 2016
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- مارچ 2016
- فروری 2016
- جنوری 2016
- دسمبر 2015
- نومبر 2015
- اکتوبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جولائی 2015
- جون 2015
- مئی 2015
- اپریل 2015
- مارچ 2015
- فروری 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- اکتوبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جولائی 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- اکتوبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- فروری 2013
- جنوری 2013
- دسمبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- جون 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
زمرے