مصائب وہی ٹالے گا بس اللہ کو منا لو۔۔۔ شمس جیلانی

آج کا جو عنوان ہے وہی امت ِ مسلمہ کی تقدیر کو پلٹ سکتا ہے۔ مسلمانوں کےمسائل کاحل یہ نہیں ہے کہ بتوں کی تعداد اور بڑھالو۔ وہ تو پہلے ہی کافی ہیں جس کانتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے جان پر بنی ہوئی ہے۔ جو کہ ساری دنیا کو کبھی انصاف فرا ہم کیاکرتے تھے! ان کے اوپر رحم کھانے والا اب دنیا میں کوئی نہیں ہے چا ہیں کوئی کتنا ظلم کر لے ہر ایک کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے؟ایسا کیوں ہے مسلمان اس پر غور کرنے کے لیئے بھی تیار نہیں ہیں نہ یہ ماننے کو تیار ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہے۔ بلکہ پہلے تباہ ہونے والی قوموں کی طرح اس وہم میں مبتلا ہیں کہ ہم کچھ بھی کریں مگر چھوٹ ہے کہ ہم اللہ کے مقبول ترین بندے ہیں؟ کیونکہ ہم نے اس کے نبی ﷺ کا کلمہ پڑھ لیا ہے۔ یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ کلمہ پڑھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ “عمل صالح بھی کرے“ پورا قرآن دیکھ جا ئیے جہاں ایمان لانے کاذکر ہوا ہے وہیں فورا ً عمل ِ صالح کا ذکر بھی آیا ہے۔ لیکن ہم نے اسے نظر انداز کردیا ہے۔ جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ “ایمان کے بغیر عمل کوئی چیز نہیں ہے اور عمل کے بغیر ایمان کوئی چیز نہیں ہے“ یعنی دین ِ اسلام ان دونوں کی آمیزیش کا نام ہے۔ وہ کہاں سے ملتا ہے؟ حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ ؓ سے، جسے اپنانے کے بعد لوگ ایسے بن گئے تھے۔ کہ کسی سرکاری عہدے کی ذمہ داری لینے کے لیئے اکثر صحابہ کرام (رض)تیار نہیں ہو تے تھے۔کیونکہ وہ یوم ِ حساب کی جواب دہی سے بہت ڈرتے تھے۔آج اس کا الٹ ہے کہ لوگ لاکھوں اور کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اسمبلی اور سینٹ تک پہنچتے ہیں۔ جبکہ سرکاری ملازمت کے لیئے آسامیاں بکتی ہیں۔ کون بیچتا ہے سب جانتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پورا ملکِ پاکستان مافیہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ کیسے ہوا کس نے کیا ان باتوں پر سوچنے کی کسی کو مہلت نہیں ہے۔ اس کاجواب میں آپکو دیتا ہوں۔ یہ اسطرح ہوا کہ جب مسلمانوں کے پاس بے انتہا دولت فتوحات کے نتیجہ میں آئی تو خوف ِخدا ان کے دل سے نکل گیا۔ اگر کسی ریفامر یا خدا ترس بزرگ نے انہیں جگا نے کی کوشش کی تو علماء کرام نے عوام کو تھپکی دیکر سلادیا کہ تم محبوب ﷺرب العالیمن کی امت ہو تمہیں فکر کرنا ہی نہیں چاہئے وہ (ص) تمہاری شفاعت کریں گے اور اللہ تعالیٰ تم کو معاف کردے گا۔ بس انکی (ص)محبت اپنے اوپر لازم کرلو! مگریہ بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ ایک عذاب کو ٹالنے کا ان (ص) سے وعدہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے وہ ہے “ امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے آپس میں لڑا دینے والاعذاب“ جس میں آجکل ہم مبتلا ہیں۔ رہے ریفارمرز ان میں سے زیادہ تر کو حکمرانوں نے ابدی نیند سلا دیا ۔ یا جلاوطن کردیا گیاجیسے کہ حضرت ابو ذر غفاری(رض) جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ امراء کو فضول خرچی سے روکتے تھے۔ وہ صاحبان اقتدار کو برا لگتا تھا۔ ان کی موت جلاوطنی ہی کی حالت ہوئی جن کی نمازِ جنازہ پڑھنے والا کوئی نہیں تھا؟اس لیئے کہ ان کے بارے میں غز وہ تبوک کے لیئے تشریف لے جا تے ہوئے حضور (ص) نے پیش گوئی فرما ئی تھے کہ “یہ اکیلے پیدا ہوئے ہیں اور اکیلے ہی مریں گے“ ان کی میت کو ان کی وصیت کے مطابق سڑک پر رکھدیا گیا۔ شام سے آتے ہوئے جب حضرت عبد اللہﷺ بن مسعود وہاں سے گزرے تو ان پر ان پریہ راز کھلا! پہلے تو وہ رودیئے اس کے بعد فرمایا کہ میرے سرکار ﷺ کی ہر پیش گوئی کی طرح یہ پیش گوئی بھی پوری ہوئی؟ ان کے اس ایک جملہ میں پورے اسلام کی تاریخ پوشیدہ ہے۔اگر میں تفصیل میں جاؤں تو یہ چھوٹا سا مضمون ان تمام واقعات کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ لہذا میں صرف ایک حدیث پیش کر کے آگے بڑھتا ہوں۔ جو کہ اسلام کے ابتدائی دور کے بارے میں ہے۔ جس میں حضور ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خبر دار فرما دیا تھا۔کہ تم میں کچھ لوگ ایسے بعد میں آئیں گے کہ ان کی قرأت تم سے بھی اچھی ہو گی۔ مگر وہ قرآن کو نظر انداز کر دیں گے۔ان سے تمہیں سابقہ پڑے گا ان کی رعایت مت کرنا۔ وہ بعد میں پیدا ہوئے پر وان چڑھے اور حضور (ص) کی پش گوئی پوری ہوئی جس کی ایک ایک تفصیل حضور ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بتا دی تھی۔ اس وقت پوری امت “ حفاظ “ کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئی تھی۔ انہوں نے اتنا ڈرا دیا کہ قرآن کو چھونا مت اسے چوموں اور جزدان میں رکھدو؟ کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا دیا تھا کہ یہ ہمارا حق ہے اگر تم چھوؤگے، توغلط پڑھوگے اور گناہ گار ہوگے۔ اس کے بعد حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کو پڑھنے سے روکا۔ جس کا قرآن میں حکم ہے کہ “ تمہارے لیئے نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ میں بہترین نمونہ ہے“ لیکن مسلمانوں کی اس پر عمل کرنے سے جان جانے لگی کہ کہاں ہم اور کہاں ان (ص) کا اسوہ حسنہ (ص) توبہ توبہ ہم تو گناہگار آدمی ہیں ان کی برابری کیسے کرسکتے ہیں، ہمیں اس پر عمل کرنے کا مشورہ دیکر گناہ گار نہ کریں؟ کیونکہ ان کو سمجھا دیا گیا تھا کہ جس طرح قر آن چومنے کے لیئے ہے اسی طرح ان کے (ص) نقش پا بھی چومنے کے لیئے ہیں اور، وہ عمل کرنے کے لئے نہیں ہیں؟جبکہ آج کے دور میں احادیث کو یہ کہہ کر نشانہ بنا یا گیا کہ بہت سی حدیثیں “ ضعیف“ ہیں۔ پھر ان سکالرز کا دور آیا کہ جنہوں نے قوم کو متشابہات میں الجھا دیا جس کو قرآن نے سختی سے منع کیا تھا۔ الحمد للہ ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر سازش کے تحت سب کو دھندلادیاگیا۔ یہ ہے وہ صورت حال جس سے پاکستانی آجکل گررہے ہیں۔ جبکہ حل یہ ہے کہ قر آن اور حضور ﷺ کےاسوہ حسنہ کو دوبارہ اپنایا جا ئے تاکے موجودہ انتشار دور ہواور مسلمان اس کے دین پر پوری طرح کاربند ہوجا ئیں۔ اس میں جتنی دیر کی جا ئے گی اتنا ہی قوم کا نقصان ہے۔ اس سے کہیں زیادہ جتنا کہ پچھلے ڈیرھ سال میں سیاسی پارٹیوں کی آپس کی چپقلش سے ہوا ہے۔ یوں کہواچھے بچوں کی طرح جلد ہی عقل آ گئی، تا دیر سہی مگر انہوں نے عقلمندی کا ثبوت دیا کہ آپس میں مل بیٹھے۔ کاش کہ پوری مسلم امہ اسی طرح مل بیٹھے تو ہماری دنیا ہی بدل جا ئے۔
دیکھئے کب انہیں اللہ توفیق عطا فر ماتا ہے اور انہیں ہوش آتا ہے۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.