بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔۔۔شمس جیلانی

حضرت آتشؔ اسی بحر،ردیف اور قافیہ میں ایک پوری غزل کہہ گئے ہیں جوکہ بہت طویل ہے مگر اس کا ایک مصرع بہت سے راز لیئے ہوئے ہے جو کہ اکثر لوگ اقتدار پر پہنچنے کے بعد بھول جا تے ہیں وہ ہے ع“مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے“۔ اگر یہ یاد رکھتے تو وہ یہ بھی یاد رکھتے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے لیکر آزماتا ہے۔ لہذا کسی کو بھی یہ معلوم کرنا کہ یہ ابتلا ہے یا عذاب مشکل نہ ہوتا ؟ اب اگر مولوی صاحب سے پوچھیں تو وہ ہمیشہ ابتلا بتا تے کیونکہ ابتلا کہنے سے کوئی برا نہیں مانتا خوش ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کا معلوم کرنا جہاں مشکل ہے وہیں بڑا آسان بھی ہے۔ اس کے لیئے کسی اور سے پوچھنے کے بجا ئے، صرف اپنے دل کو ٹٹولنا ہوتا ہے اور اس سے پوچھنا ہوتا ہے۔ کہ“ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی ہیر پھیر تو نہیں کر رہا ہوں؟اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر عذاب ہے اور اگر نہ میں ہے تو ابتلا ہے(یعنی امتحان ہے) اور دونوں کے نتائج بھی جدا جدا ہیں ابتلا نیک بندوں کی ترقی ِدرجات کے لیئے ہوتا ہے اورعذاب نافرمانوں کو خوار کرنے کے لیئے ہوتا ہے۔ دل سے پوچھ کر نتیجہ خود ہی ہر ایک اخذ کرلیتا کہ اب کیا ہونے والا ہے؟
لیکن شیطان ہمیشہ ہربندہِ اقتدار کا دوست ہوتا ہے اور اس کے برے اعمال بھی اس کی نظر میں اچھے کر کے دکھا تا ہے۔ اور وہ اسکا تدارک کرتے کرتے رک جاتا ہے۔ جبکہ اس کا علاج خود احتسابی میں آسان ہے یعنی اپنا احتساب خود کریں اور حل یہ ہے توبہ کرلیں؟ جو قسمت کے اچھے ہوتے ہیں وہ اس خود فریبی سے بچے رہتے ہیں جو شیطان کے بڑھاوے میں آجاتے ہیں تو مارے جاتے ہیں۔اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ ہم نے اپنے تصور میں شیطان کی جو شکل بنا رکھی ہے وہ یہ ہے کہ وہ انتہائی بد صورت ہوتا ہے اور اس کے منہ سے انگارے نکل رہے ہوتے ہیں، اس کے سر پردو بڑے بڑے سینگ بھی ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے ان کا دھیان اپنے ان چاپلوس دوستوں کی طرف کبھی نہیں جاتا جو ان کے ساتھ رہ کرشیطان کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ بعض دیکھنے میں بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ اگر ان کو صرف سورہ والناس یاد رہے تو فوراً وہ حدیث بھی یاد آجا ئے گی جس کے بارے میں ایک صحابی ؓ نے پوچھا کہ حضورﷺ کیا جنوں کے علاوہ شیطان انسانو ں میں بھی ہوتے تو حضور ﷺنے فرمایا کہ ہاں! اگر صاحب ِ اقتدار لوگ اپنے ابن الوقت دوستوں پر نگاہ رکھیں تو وہ لوگوں کے دلوں میں یہاں بھی باقی رہتے ہیں، اور مرنے کے بعد تاریخ میں بھی باقی رہتے ہیں۔ اگر وہ نہ پہچان پا ئیں تو مفت میں بدنام بھی ہوتے ہیں اور وہاں بھی مفت میں مارکھا ئیں گے۔ کیونکہ وہاں یہ نہیں پوچھا جا ئے گا آپ نے برائی خود کی یا دوسروں کو کرتے دیکھا اورخاموش رہے۔ ہماری قومی تاریخ ان مثالوں سے بھری ہو ئی ہے۔ مثلاً جہاں بابر سلطنت مغلیہ کے بانیوں کے طور پر مشہور ہوا، جہانگیر عدل کے لیئے مشہور ہوا۔ وہیں بہادرشاہ ظفر جوکہ اس سلسلہ کے آخری باد شاہ تھے وہ مقبرہ ہمایوں میں جا کر پناہ گزیں ہوئے مگر انگریزوں نے گرفتار کرکے انہیں رنگون بھیجدیا۔ جہاں ان کی اولادآج بھی پھٹے حالوں سیاحوں سے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ گو ان میں کوئی برا ئی نہیں تھی البتہ شاعر ضرور تھے اسوجہ سے انصاف کے لیئے وقت نہیں ملتا تھا۔ بس برائی یہ تھی کہ وہ برائی ہوتے ہوئے دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتے تھے۔ جبکہ ان کے ایک سمدھی نے ایک شخص کی جان لیلی اور وہ اس کے طوطے کی گردن مڑوڑنے کی وجہ سے واقع ہوئی تو انہوں نے اپنے سمدھی کو کچھ نہیں کہا! مگر اس پر خوش ہوئے کہ انکی غزل تو کسی طرح مکمل ہوئی کہ پریشان تھے مقطہ کا بھی پہلا مصرع موجود تھا اب اس کا اگلا مصرع بھی مل گیا۔ بجا ئے بادشاہ کی حیثیت سے انصاف کرنے کے ایک موزوں مصرع پر ہی اکتفا کرلیاتھا۔ جس کی سزا اب تک ان کی اولاد بھگت رہی ہے۔ یہ ہی سب کچھ آج کل پاکستان میں ہورہا ہے کہ مسجدیں بھری ہوئی ہیں۔ لیکن اگر ظالم اپنا ہو تو حکمراں نگاہ چراکر چلے جاتے ہیں۔ جہاں کے وزیر اتنے بے بس ہوں کہ اپنی بے عزتی پرتھپڑ مارتے پھریں بجا ئے عدالت میں جا کر مجرم کو قرار واقعی سزا دلانے کے۔ اور ٹی وی پر آکر اعتراف کریں کہ اگر میں تھپڑ نہیں مارتا تو کیا کرتا اور وہی وزیر ایک بار نہیں دوبار ایسا کریں اور حکمراں انصاف نہ کرے۔ تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑیگا کہ“ایسی بے بس حکومت پاکستان میں پہلے کبھی نہیں آئی“۔ موجودہ حکومت سے لوگوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ انہیں اس سلسلہ میں سخت مایوسی ہوئی؟ کیا عمران خان کو یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ عوام کے ساتھ ظلم ہورہا ہے گرانی آسمان چھو رہی ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی سایہ ہے ضرور،جس کوبہت زیادہ مقبول لیڈر پسند نہیں ہیں لہذا وہاں جو بھی آتا ہے۔ وہ مافیہ کے درمیان اپنی مقبولیت کھونے آتا ہے اور کھوکر معافیہ کا خود ایک حصہ بن جا تا ہے۔ یا پھر حکومت چھوڑ کر چلا جا تا ہے۔ ورنہ نکا ل دیا جاتا ہے۔ آنے والوں کو آنے سے پہلے سوچنا لینا چا ہیئے کہ ان تینوں چیزوں میں سے انہیں کیا پسند ہے۔؟کیونکہ یہ تو ہر آنے والے کا مقدر ہے۔ لیکن آج ایک خبر سے معلوم ہوا کہ عمران خان بھی برسرِ تخت آگئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایک وزیر کو آئین ِ جہانگیری کے تحت جو تا نکال کر میز پر رکھنے اور دو دوسری پارٹی کے نما ئندوں کی بے عزتی کرنے کی جرم میں دو ہفتہ کے لیئے“ ٹاک شو میں جانے سے اسےروکدیا ہے“ یہ فیصلہ سن کر جہانگیر کی روح بھی تڑپ اٹھی ہوگی۔ خدا کرے کہ وہ آئندہ اسی طرح عوام کو انصاف مہیا کرتے رہیں۔ اور تا حیات برسرِ اقتدار رہیں۔

About shamsjilani

Poet, Writer, Editor, Additional Chief Editor AalamiaIkahbar London,
This entry was posted in Articles and tagged , . Bookmark the permalink.